Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 72
لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
لَعَمْرُكَ : تمہاری جان کی قسم اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَفِيْ : البتہ میں سَكْرَتِهِمْ : اپنے نشہ يَعْمَهُوْنَ : مدہوش تھے
آپ کی جان کی قسم ! یہ لوگ اپنی سرمستی میں اندھے ہوئے ہیں۔
لَعَمْرُکَ اِنَّھُمْ لَفِیْ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَھُوْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 72) (آپ کی جان کی قسم ! یہ لوگ اپنی سرمستی میں اندھے ہوئے ہیں۔ ) گناہ کا نشہ ہر چیز پر غالب آجاتا ہے حضرت لوط (علیہ السلام) کی کسی دلیل نے ان بدبختوں پر اثر نہیں کیا۔ آپ ( علیہ السلام) نے اپنا خون جگر نچوڑ ڈالا لیکن ان کی بدبختی میں شگاف نہ پڑ سکا۔ پروردگار ان کی اس کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ سے فرماتے ہیں کہ اے پیغمبر ! آپ کی عمر کی قسم، وہ لوگ ایک سرمستی کے نشے میں اندھے ہوچکے تھے۔ ان پر جنسی خواہشات اور سفلی جذبات اس حد تک غالب آچکے تھے کہ کوئی نصیحت کی بات ان پر اثرانداز نہیں ہوتی تھی۔ جس طرح شراب میں مخمور شخص ایک سے ایک بڑھ کر مضبوط دلیل پر ہنستا اور اس کا مذاق اڑاتا ہے، اس لیے کہ اس کا نشہ اس کی عقل پر غالب آچکا ہے۔ جنسی ہیجان اور بداخلاقی کا سرطان بھی ایسے ہی نشے ہیں جو قوموں کو اصابتِ فکر اور آخرت کے خیال سے بےنیاز کردیتے ہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا اپنا گردوپیش اور ہماری اپنی قوم کے حکمران اور دانشور جس صورتحال سے دوچار ہیں وہ اس کی وضاحت کے لیے کافی ہیں۔ ہم کئی سالوں سے بسنت کے سرطان کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہم تہذیبی اور سیاسی طور پر اسے نہ صرف قبول کرچکے بلکہ اس کے زیادہ سے زیادہ اظہار کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے نتیجے میں گلیوں میں خون بہتا ہے، سڑکوں پر قتل عام ہوتا ہے، اندھی گولیاں نجانے کتنے خاندانوں کو ہمیشہ کی محرومیاں دے جاتی ہیں۔ چھتوں پر اسلامی غیرت ماتم کرتی ہے۔ اور غیرت کے فانوس جلتے بجھتے ہیں۔ ٹرانسفارمر اڑتے ہیں، کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ ہر سال یہ سب کچھ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور سمجھانے والے ہمیں سمجھاتے ہیں، رونے والوں کی آہیں ہمارے کانوں تک پہنچتی ہیں، احتجاج کرنے والوں کی چیخیں ہمیں دور دور تک سنائی دیتی ہیں، اس کے باوجود بسنت اور عیاشی کا ایک نشہ ہے جو ہمیں کوئی بات نہ سننے دیتا ہے اور نہ سمجھنے دیتا ہے۔ ایسے ہی نشے میں وہ بھی مبتلا تھے۔ یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے وہ یہ کہ قومیں جب اخلاقی زوال کا شکار ہوتی ہیں تو ان کا زوال اور انحطاط ہمہ جہتی ہوتی ہے بالخصوص جنسی آوارگی جب جوع البقر کی صورت اختیار کرلیتی ہے تو پھر زندگی کا کوئی شعبہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہتا۔ قوم لوط بھی اسی ہمہ جہتی انحطاط کا شکار تھی۔ تلمود میں اس قوم کے جو حالات لکھے گئے ہیں ان کا ایک خلاصہ ہم یہاں تفہیم القرآن سے نقل کرتے ہیں جس سے کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہوگا کہ یہ قوم اخلاقی فساد کی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عیلامی مسافر ان کے علاقے سے گزر رہا تھا۔ راستہ میں شام ہوگئی اور اسے مجبوراً ان کے شہر سدوم میں ٹھہرنا پڑا۔ اس کے ساتھ اپنا زاد راہ تھا۔ کسی سے اس نے میزبانی کی درخواست نہ کی۔ بس ایک درخت کے نیچے اتر گیا۔ مگر ایک سدومی اصرار کے ساتھ اٹھا کر اسے اپنے گھر لے گیا۔ رات اسے اپنے ہاں رکھا اور صبح ہونے سے پہلے اس کا گدھا، اس کے زین اور مال تجارت سمیت اڑا دیا۔ اس نے شور مچایا مگر کسی نے اس کی فریاد نہ سنی بلکہ بستی کے لوگوں نے اس کا رہاسہا مال بھی لوٹ کر اسے نکال باہر کیا۔ ایک مرتبہ حضرت سارہ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھروالوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اپنے غلام الیعزر کو سدوم بھیجا۔ الیعزر جب شہر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ایک سدومی ایک اجنبی کو مار رہا ہے۔ الیعزر نے اسے شرم دلائی کہ تم بیکس مسافروں سے یہ سلوک کرتے ہو مگر جواب میں سربازار الیعزر کا سر پھاڑ دیا گیا۔ ایک مرتبہ ایک غریب آدمی کہیں سے ان کے شہر میں آیا اور کسی نے اسے کھانے کو کچھ نہ دیا۔ وہ فاقے سے بدحال ہو کر ایک جگہ گرپڑا تھا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیٹی نے اسے دیکھ لیا اور اس کے لیے کھانا پہنچایا۔ اس پر حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی بیٹی کو سخت ملامت کی گئی اور انھیں دھمکیاں دی گئیں کہ ان حرکتوں کے ساتھ تم لوگ ہماری بستی میں نہیں رہ سکتے۔ اس طرح کے متعدد واقعات بیان کرنے کے بعد تلمود کا مصنف لکھتا ہے کہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں یہ لوگ سخت ظالم، دھوکہ باز اور بدمعاملہ تھے۔ کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہ گزر سکتا تھا۔ کوئی غریب ان کی بستیوں سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پاسکتا تھا۔ بارہا ایسا ہوتا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مرجاتا اور یہ اس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کردیتے۔ بیرونی تاجر اگر شامت کے مارے وہاں چلے جاتے تو برسرعام لوٹ لیے جاتے اور ان کی فریاد کو ٹھٹھوں میں اڑا دیا جاتا۔ اپنی وادی کو انھوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا جس کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس باغ میں وہ انتہائی بےحیائی کے ساتھ علانیہ بدکاریاں کرتے تھے اور ایک لوط کی زبان کے سوا کوئی زبان ان کو ٹوکنے والی نہ تھی۔ قرآن مجید میں اس پوری داستان کو سمیٹ کر صرف دو فقروں میں بیان کردیا گیا ہے کہ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ (وہ پہلے سے برے برے کام کررہے تھے) اور اَأِنَّکُمْ لَتَاْ تُوْنَ الرِّجَاَلَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ ( تم مردوں سے خواہش نفس پوری کرتے ہو، مسافروں کی راہ مارتے ہو اور اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا بدکاریاں کرتے ہو ؟ )
Top