Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 61
فَلَمَّا جَآءَ اٰلَ لُوْطِ اِ۟لْمُرْسَلُوْنَۙ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آئے اٰلَ لُوْطِ : لوط کے گھر والے الْمُرْسَلُوْنَ : بھیجے ہوئے (فرشتے)
(جب فرستادے آل لوط کے پاس پہنچے۔
فَلَمَّا جَآئَ اٰلَ لُوْطِنِ الْمُرْسَلُوْنَ ۔ قَالَ اِنُّکُمْ قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ ۔ قَالُوْا بَلْ جِئْنٰـکَ بِمَا کَانُوْا فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ ۔ وَاَتَیْنٰـک بِالْحَقِّ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 61۔ 62۔ 63۔ 64) (جب فرستادے آل لوط کے پاس پہنچے۔ تو حضرت لوط (علیہ السلام) نے کہا آپ لوگ تو اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔ فرشتوں نے کہا ہم آپ ( علیہ السلام) کے پاس وہی چیز لے کر آئے ہیں جس میں وہ شک کیا کرتے تھے۔ ہم آپ ( علیہ السلام) کے پاس حق لے کر آئے ہیں، اور ہم بلاشبہ سچ کہہ رہے ہیں۔ ) حضرت لوط (علیہ السلام) اور فرشتے جب یہ فرشتے قوم لوط کی بستی میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر پر پہنچے اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تو حضرت لوط (علیہ السلام) انھیں پہچان نہیں سکے۔ البتہ انھیں دیکھ کر کہا کہ تم تو اجنبی لوگ معلوم ہوتے ہو کیونکہ تمہارا کوئی تعلق ان بستیوں سے معلوم نہیں ہوتا۔ فرشتوں نے کہا کہ آپ ( علیہ السلام) کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے، ہم درحقیقت انسان نہیں، فرشتے ہیں۔ اور ہم اس قوم پر وہ چیز لے کے آئے ہیں جس سے انھیں ہمیشہ انکار رہا۔ یعنی ہم ان کے پاس اللہ تعالیٰ کا عذاب لے کر آئے ہیں۔ آپ ( علیہ السلام) انھیں عذاب سے ڈراتے رہے ہیں اور انھوں نے ہمیشہ آپ ( علیہ السلام) کا تمسخر اڑایا اور اب کسی کو اس میں شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم وہی حق یعنی عذاب لے کے آئے ہیں۔ اور ہم اس لحاظ سے بالکل سچے ہیں۔ اب آپ ( علیہ السلام) کو ہماری ان ہدایات پر عمل کرنا چاہیے جو اس عذاب سے بچنے کے لیے ضروری ہیں۔
Top