Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 58
قَالُوْۤا اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَۙ
قَالُوْٓا : وہ بولے اِنَّآ : ہم بیشک اُرْسِلْنَآ : بھیجے گئے اِلٰى : طرف قَوْمٍ : ایک قوم مُّجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
فرشتوں نے کہا : ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
قَالُـْوٓ ا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ ۔ اِلاَّ ٓ اٰلَ لُوْطٍ ط اِنَّا لَمُنَجُّوْھُمْ اَجْمَعِیْنَ ۔ اِلاَّ امْرَاَتَہٗ قَدَّرْنَآ لااِنَّھَا لَمِنَ الْغٰبِرِیْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 58۔ 59۔ 60) (فرشتوں نے کہا : ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ مگر لوط کے گھر والے ہم ان سب کو بچا لیں گے۔ بجز اس کی بیوی کے، ہم نے اس کو تاک رکھا ہے، وہ بیشک پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوگی۔ ) فرشتوں کا جواب فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم مجرموں کی ایک قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ یہ نہایت مختصر ساجواب ہے۔ اس سے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس قوم کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ قوم لوط سے واقف تھے اور اس وقت کی دنیا کے مذہبی حالات سے بیخبر نہیں تھے۔ اس لیے وہ خوب جانتے تھے کہ اس مجرم قوم سے مراد قوم لوط ہے جس نے جرائم کی انتہا کر رکھی ہے اور جس میں اب اصلاح کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔ اس لیے صرف مجرمین کے لفظ سے آپ ( علیہ السلام) اس جواب کو پوری طرح سمجھ گئے۔ البتہ انھیں اس بات کی فکر ہوئی کہ وہاں تو حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے بچے بھی ہیں۔ ممکن ہے کچھ لوگ ان پر ایمان بھی لائے ہوں، وہ بھی آل میں شامل ہوں۔ اس لیے فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے فوراً کہا کہ آپ فکر نہ کیجئے، آل لوط کی ہمیں بھی فکر ہے، لیکن آپ اطمینان رکھئے ہم ان سب کو بچا لیں گے۔ البتہ آل لوط میں چونکہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی شامل ہے اور وہ آپ ( علیہ السلام) پر ایمان نہیں لائی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہم اس کے بارے میں پہلے ہی فیصلہ کرچکے ہیں کہ اسے باقی مجرم قوم کے ساتھ آل لوط سے الگ اسی بستی میں رہنا ہے اور جو عذاب قوم لوط پر آرہا ہے اسے بھی اسی عذاب کا شکار ہونا ہے۔ ایک دفعہ پھر فرشتوں کے جواب پر نظر ڈالیے اور ان کے الفاظ پر غور کیجئے تو آپ محسوس کریں گے کہ ان کے لہجے کے تیور بہت تیکھے ہیں۔ وہ ان کے جرائم کی وجہ سے سخت غصے میں ہیں۔ اس لیے بجائے ان کا نام لینے کے صرف مجرم قوم کہہ کر بات کو ختم کردیتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کے نزدیک ان کا حسب و نسب اس کے سوا کوئی اور باقی نہیں رہ گیا اور ان کی شناخت اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ مجرم قوم ہیں۔ اب ان کو اس دھرتی پر باقی نہیں رہنا چاہیے۔ ان الفاظ پر غور کرنے سے دوسری بات جو محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو سنبھلنے کے لیے مہلت پہ مہلت دیتا ہے۔ لیکن جب مہلت کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو پھر انھیں سنبھلنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا قانون حرکت میں آتا ہے تو وہ کسی کو معاف نہیں کرتا۔ وہ اس طرح بےلاگ ہوتا ہے کہ نہ اس سے پیغمبر ( علیہ السلام) کا بیٹا بچتا ہے اور نہ پیغمبر ( علیہ السلام) کی بیوی چھوڑی جاتی ہے۔
Top