Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 51
وَ نَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَنَبِّئْهُمْ : اور انہیں خبر دو (سنا دو ) عَنْ : سے۔ کا ضَيْفِ : مہمان اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
اور انھیں ابراہیم ( علیہ السلام) کے مہمانوں سے متعلق بھی آگاہ کردو۔
وَنَبِّئْھُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰھِیْمَ ۔ اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًا ط قَالَ اِنَّا مِنْکُمْ وَجِلُوْنَ ۔ قَالُوْا لاَ تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ ۔ (سورۃ الحجر : 51۔ 52۔ 53) (اور انھیں ابراہیم کے مہمانوں سے متعلق بھی آگاہ کردو۔ جب وہ آپ کے پاس آئے تو انھوں نے کہا آپ پر سلام ہو۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا ہم تو آپ لوگوں سے اندیشہ ناک ہیں۔ مہمانوں نے کہا آپ کوئی اندیشہ نہ کریں، ہم آپ کو مژدہ سنانے آئے ہیں، ایک ذی علم بچے کی پیدائش کا۔ ) تاریخ کی شہادت سابقہ دو آیتوں میں ہم نے پڑھا کہ اللہ تعالیٰ بہت مہربان ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی کہ اس کا عذاب، عذاب الیم ہے۔ اب ان دونوں باتوں کی تائید میں تاریخ سے دو اہم واقعات بیان کئے جارہے ہیں۔ ایک واقعہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دلیل ہے اور دوسرا اس کے عذاب الیم کا۔ رحمت کی دلیل کے طور پر حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی پیدائش کی خوشخبری دی گئی۔ اور عذاب الیم کی دلیل کے طور پر اگلوں آیتوں میں قوم لوط پر عذاب کی تفصیل بیان کی ہے۔ پیش نظر آیتوں میں صرف پہلے واقعہ کا ذکر ہے اور وہ بھی نہایت اختصار سے۔ اس کی تفصیل سورة ہود میں گزر چکی ہے کہ دو خوبصورت نوجوان مہمان بن کر اچانک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر پر تشریف لائے۔ انھوں نے آکر آپ ( علیہ السلام) کو سلام کہا، یہ گویا اس بات کی علامت تھی کہ ہم آپ ( علیہ السلام) کے لیے سلامتی کا پیغام لائے ہیں، ہم آپ ( علیہ السلام) کے دشمن نہیں۔ آپ ( علیہ السلام) اگرچہ انھیں پہچان نہیں سکے کیونکہ ان کی شکلیں بالکل اجنبی لوگوں کی تھیں۔ لیکن یہ سمجھ کر کہ وہ شریف مہمان ہیں جلدی سے ان کے لیے کھانے کا انتظام کیا۔ جب کھانا ان کے سامنے چنا گیا تو انھوں نے ہاتھ بڑھانے سے گریز کیا۔ اس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تشویش پیدا ہوئی کیونکہ اس زمانے میں اگر کوئی مہمان میزبان کی ضیافت قبول نہیں کرتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ مہمان نہیں بلکہ دشمن ہے اور وہ کسی انتقام کے لیے آیا ہے۔ اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مہمان سے کہا کہ ہم آپ کی اجنبیت اور آپ کے گریز سے آپ کی طرف سے اندیشوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ آنے والوں نے کہا کہ آپ ( علیہ السلام) ہماری طرف سے پریشان نہ ہوں، ہم تو آپ ( علیہ السلام) کے لیے خوشخبری لے کر آئے ہیں اور وہ خوشخبری یہ ہے کہ آپ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ اس بڑھاپے میں ایک نہایت سمجھدار اور ذی علم بچہ عطا فرمائے گا۔ غلام کے ساتھ علیم کی صفت سے اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اللہ تعالیٰ جو بیٹا آپ ( علیہ السلام) کو عطا فرما رہا ہے وہ صرف فرزند ہی نہیں ہوگا بلکہ وہ علم نبوت سے بھی سرفراز ہوگا۔ اس بات نے اس خوشخبری کی قدر و قیمت میں نجانے کتنا اضافہ کردیا۔ بیٹا بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے لیکن یہ تو ساری دنیا کو ملتے ہیں لیکن بیٹے کا پیغمبر ہونا ایک ایسی نعمت ہے جس سے کوئی کوئی سرفراز ہوتا رہا ہے۔
Top