Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 4
وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍ اِلَّا وَ لَهَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ
وَمَآ : اور نہیں اَهْلَكْنَا : ہم نے ہلاک کیا مِنْ : کسی قَرْيَةٍ : بستی اِلَّا : مگر وَلَهَا : اس کے لیے كِتَابٌ : ایک لکھا ہوا مَّعْلُوْمٌ : مقررہ وقت
ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لیے معین نوشتہ رہا ہے۔
وَمَآ اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِلاَّ وَلَھَا کِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ۔ مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّۃٍ اََجَلَھَا وَمَا یَسْتَاْخِرُوْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 4۔ 5) (ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لیے معین نوشتہ رہا ہے۔ کوئی قوم نہ اپنی مدت مقررہ سے آگے بڑھتی ہے اور نہ پیچھے ہٹتی ہے) ایک سوال کا جواب ان آیتوں میں ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے جو طنز کی صورت میں اشرافِ قریش کی زبان پر رہتا تھا کہ اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ کے نبی ہو اور تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص پیغام دے کر بھیجا ہے تو یہ معاملہ تو بہت نازک بھی ہے اور بہت سنگین بھی۔ اس پیغام کی قدر نہ کرنا بلکہ اس کا مذاق اڑانا نہ صرف ایک گناہ ہے بلکہ اتنا بڑا جرم ہے کہ جس سے بڑے جرم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پروردگارِعالم شہنشاہِ کائنات ہے۔ وہ جب اپنے کسی پیغامبر کے ذریعے اپنا پیغام اہل زمین کے نام بھیجتا ہے تو یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے کوئی بہت بڑا بادشاہ اپنے مقبوضہ ملک میں اپنی رعایا کے نام کوئی پیغام بھیجے اور رعایا نہ صرف اسے قبول کرنے سے انکار کرے بلکہ مسلسل اس کی توہین بھی کرے۔ اور اس کے لانے والے کی قدر و منزلت پہچاننے کی بجائے اس کا تمسخر اڑائے اور اس کو اذیتیں پہنچائے تو تصور کیجئے کہ ایسے ملک اور ایسے لوگوں سے بادشاہ کیا سلوک کرے گا۔ کیا وہ اولین فرصت میں ان کو سزا دینے کا انتظام نہیں کرے گا۔ خالقِ کائنات کا معاملہ تو اور بھی اہم ہے تو اگر تم واقعی اسی کے ایلچی ہو کے آئے ہو تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم نے جو رویہ تمہارے ساتھ اختیار کیا ہمیں اب تک اس کی سزا میں تباہ و برباد کردیا جاتا لیکن ہم تو اب تک اپنی تمام تر گستاخیوں کے باوجود نہ صرف اپنی حالت پر قائم ہیں بلکہ روزبروز ہمارے حالات بہتر ہوتے جارہے ہیں اور تم اور تم پر ایمان لانے والے حالات کی گرفت میں آتے جارہے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ دنیا کے حکمران اپنے حوصلے، اپنی طاقت اور اپنی حکمت کے مطابق کام کرتے ہیں۔ ان کے ملک کا کوئی حصہ اگر ان کے احکام کی سرتابی کرتا ہے تو وہ اس خیال سے کہ کہیں وہ لوگ طاقت نہ پکڑ جائیں اور ہماری دسترس سے باہر ہوجائیں اور یا دوسرے لوگ ان سے متاثر ہو کر ان کے راستے پر نہ چل نکلیں۔ ان لوگوں کو سزا دینے میں جلدی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ وہ انسانوں پر صرف حکومت ہی نہیں کرتا بلکہ وہ ان کا رب ہونے کی وجہ سے ربوبیت کا حق بھی ادا کرتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے لیے رحیم و کریم بھی ہے۔ اس لیے تاحدآخر وہ اپنے کرم کے تقاضوں سے صرف نظر نہیں کرتا اور مزید یہ کہ اس نے انسانوں اور جنوں کو رعایا کے طور پر صرف پابندِ قانون بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس نے انھیں عقل اور شعور دے کر فیصلے کی آزادی بھی بخشی کہ تم چاہو تو اللہ تعالیٰ کے قانون کی پابندی کرو اور چاہو تو تشریعی قانون کا انکار کرکے تکوینی قانون کی پیروی کرتے ہوئے اس کی زمین پر زندہ رہ سکتے ہو۔ اپنے اس فیصلے کی پابندی کرتے ہوئے وہ رسول ( علیہ السلام) بھیجتا ہے، کتابیں اتارتا ہے، ان کے دل و دماغ کو ہموار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے تاکہ وہ حتی الامکان اللہ تعالیٰ کے عذاب یا اس کی گرفت سے بچ جائیں۔ اور پھر اس کے لیے مہلت پہ مہلت دیتا چلا جاتا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی جلد بازیوں سے کئے ہوئے فیصلوں پر پچھتاتے ہوئے راہ راست اختیار کرلیں۔ اور یہ مہلت عمل اس نے ہر قوم کے لیے اس کی تخلیق کے ساتھ ہی لوح محفوظ میں محفوظ کردی ہے۔ چناچہ جب تک وہ مہلت ختم نہیں ہوتی اس وقت تک وہ اس قوم پر اپنا عذاب نہیں بھیجتا، لیکن جب وہ قوم اپنی مہلت کی عمر گزار دیتی ہے اور اپنے عمل سے پورے طور پر ثابت کردیتی ہے کہ اس کے اندر کی قبولیت دم توڑ چکی ہے اور خیر کی قبولیت کا کوئی مادہ اس کے اندر باقی نہیں رہا تو پھر وہ قوم اپنے انجام کی گرفت میں اس طرح آتی ہے کہ نہ وہ اس سے بچ کر آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ پیچھے رہ سکتی ہے اور یہ گرفت ایسی شدید ہوتی ہے کہ قوم کا ہر طبقہ برابر سطح پر اس کی گرفت میں آتا ہے۔
Top