Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 49
نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ
نَبِّئْ : خبر دیدو عِبَادِيْٓ : میرے بندے اَنِّىْٓ : کہ بیشک اَنَا : میں الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا مہربان ہوں۔
نَبِّیْٔ عِبَادِیْ ٓ اَنِّیْ ٓ اَنَا الْغَفُوْرُالرَّحِیْمُ ۔ وَاَنَّ عَذَابِیْ ھُوَالْعَذَابُ الْاَلِیْمُ ۔ (سورۃ الحجر : 49۔ 50) (میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا مہربان ہوں۔ (اور یہ بھی بتادو) کہ بیشک میرا عذاب بھی بڑا ہی دردناک ہے) اللہ تعالیٰ کی رحیمی سے متعلق غلط فہمی کا ازالہ قریش کو خصوصاً اور باقی نوع انسانی کو عموماً یہ بتلانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دو صفات ہیں جو برابر برابر چلتی ہیں۔ ایک اس کی صفت رحم اور دوسری صفت سزا دینا اور عذاب نازل کرنا ہے۔ وہ اپنے فرمانبردار بندوں پر ہمیشہ رحم فرماتا ہے اور جن لوگوں کی طرف اللہ تعالیٰ کا کوئی رسول ( علیہ السلام) ہدایت لے کر آتا ہے اس رسول ( علیہ السلام) کی مخاطب قوم کو اگر وہ ایمان نہیں لاتی تو ڈھیل پر ڈھیل دینا بھی اس کی صفت رحمت کا ظہور ہے۔ انسانوں کی سرکشی کا تقاضا تو یہ ہے کہ جب وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آئیں تو انھیں تباہ کردیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت انھیں بجائے تباہ کرنے کے سنبھلنے کے لیے مہلت دیتی ہے۔ وہ اپنی حماقت کے باعث ہمیشہ عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ انھیں زیادہ سے زیادہ سنبھلنے اور غور و فکر کرنے کا موقع مہیا کرتا ہے۔ لیکن جب تمام تر رحمت کے باوجود وہ لوگ راہ راست پر آنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو پھر آخر اللہ تعالیٰ کا عذاب ان کی کمر توڑ دیتا ہے۔ اس لیے اہل مکہ کو یہ بتایا جارہا ہے کہ تم نے آج تک اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کو دیکھا ہے۔ اس بےآب وگیاہ وادی میں قسم قسم کی نعمتوں کا ظہور اور پھلوں کے رزق کی بہم رسانی اور بیت اللہ تعالیٰ کو مرجع خلائق بنادینا اور اسی گھرکے زیراثر پورا جزیرہ عرب جو نفرتوں کا مرکز بن چکا ہے اس میں حرم کو دارالامن کی حیثیت دے دینا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی کا ظہور ہے۔ اور اب سالوں سے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ( علیہ السلام) کے خلاف جو رویہ انھوں نے اختیار کر رکھا ہے، اس پر خدا کا عذاب نہ آنا یہ بھی اسی کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ لیکن یہ مہلت ہمیشہ کے لیے نہیں، ایک دن ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ کا عذاب آسکتا ہے۔ تم نے آج تک اس کی رحمت کے مزے لوٹے ہیں، آنے والے دنوں کی فکر کرو اور اپنا رویہ بدلو۔ اور اگر تم نے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی دعوت کو قبول نہ کیا تو پھر تمہیں اس عذاب الیم سے کوئی نہ بچا سکے گا۔
Top