Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 45
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ
اِنَّ : بیشک الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار فِيْ : میں جَنّٰتٍ : باغات وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
(بیشک اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ ۔ اُدْخُلُوْھَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیْنَ ۔ وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ ۔ لاَیَمَسُّہُمْ فِیْھَا نَصَبٌ وَّمَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 45۔ 46۔ 47۔ 48) (بیشک اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ (انھیں کہا جائے گا) تم داخل ہوجاؤ ان جنتوں میں سلامتی کے ساتھ بےخوف ہوکر۔ ان کے سینوں کی کدورتیں ہم نکال دیں گے وہ آمنے سامنے بھائی بھائی کی طرح تختوں پر براجمان ہوں گے اس میں نہ تو کوئی ان کو تکان لاحق ہوگی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ ) متقین کا انجام ابلیس اور اس کی پیروی کرنے والوں کا انجام بیان کرنے کے بعد اب ان لوگوں کے احوال کا ذکر ہورہا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے، خواہشات کی پیروی سے بچنے والے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ ہی کے راستے پر ڈال دینے والے لوگ ہوں گے۔ یہ لوگ باغات میں اور چشموں میں ہوں گے، ان کی ایسی بستیاں بسائی جائیں گی جس میں باغوں کا گھنا سایہ اور رسیلے خوشبودار پھلوں کی جھکی ہوئی شاخیں کام و دہن کو لذت دینے کے ساتھ ساتھ مشام جان کو بھی معطر کررہی ہوں گی۔ ان کے دائیں بائیں اور نیچے سے ندیاں رواں ہوں گی۔ مسرتوں کی گھٹائیں ان کے سر پر تلی کھڑی رہیں گی۔ انھیں کہا جائے گا ان بستیوں میں داخل ہوجاؤ، سلامتی تمہاری بلائیں لے گی اور تمہیں کسی قسم کا کوئی کھٹکا نہیں ہوگا۔ دنیا میں بڑی سے بڑی خوشی کو بھی زوال لاحق ہوتا ہے۔ اور بڑے سے بڑا آدمی بھی ایک دن فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے، لیکن جنت ایک ایسا مقام ہوگا جس میں طبیعت کے ناموافق کسی چیز کا ظہور نہیں ہوگا۔ خوشیوں کے چشمے ابلیں گے اور ہر خوشی اور راحت ابدی ہوگی۔ ٹھیک کہا کسی نے : بہشت آنجا کہ آزارے نہ باشد کسے را باک سے کارے نہ باشد انسانوں کے مزاج کا اختلاف ایک فطری حقیقت ہے۔ مہذب ترین لوگوں میں بھی مکمل ہم آہنگی کبھی نہیں ہوتی۔ نہایت شائستہ مجالس میں بھی شکررنجی اور مزاج کی ناموافقت کا کوئی نہ کوئی سبب پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ جنت میں رہنے والے ایسے نادر روزگار لوگ ہوں گے کہ جن کے درمیان ناموافقت کی کوئی صورت نہیں رہے گی اور اگر دنیا میں کوئی ایسی بات طبیعتوں میں رہی بھی ہوگی تو اللہ تعالیٰ انھیں جنت میں بھیجنے سے پہلے ان کے دلوں سے ایسی ہر کدوت کو نکال باہر کریں گے۔ مختلف مزاج کے لوگ کبھی اگر اکٹھے ہو بھی جائیں تو ایک دوسرے سے دور یا منہ پھیر کر بیٹھتے ہیں لیکن یہ لوگ آمنے سامنے تختوں پر بھائیوں کی طرح براجمان ہوں گے۔ حضرت علی ( رض) کی طرف یہ قول منسوب ہے۔ آپ ( رض) نے فرمایا : ارجو ان اکون انا و عثمان و طلحہ و زبیر منہم میں امید کرتا ہوں کہ میں، عثمان، طلحہ، زبیر انھیں لوگوں میں سے ہوں۔ مزید فرمایا کہ آدمی کے ساتھ جو ضرورتیں لگی ہیں اور کوئی تکلیف بھی نہ ہو تو ضرورتوں کی فراہمی بجائے خود ایک تھکا دینے والی چیز ہے اور اگر یہ خیال بھی دامن گیر رہے کہ انسانوں کو کبھی کوئی نعمت ہمیشہ کے لیے نہیں ملتی تو یہ خیال ہی بجائے خود ایک عذاب سے کم نہیں۔ اس لیے فرمایا کہ وہاں انھیں نہ کسی مشقت سے واسطہ پڑے گا، نہ کسی طرح کی تکلیف سے، اور نہ انھیں اس جنت سے کبھی نکالا جائے گا بلکہ آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا : یُقَالُ لاھل الجنۃ ان لکم ان تصحوا ولاتمرضوا ابدا وان لکم ان تعیشوا فلا تموتوا ابدا و ان لکم ان تشبوا ولا تھرموا ابدا وان لکم ان تقیموا فلا تضعنوا ابدا اہل جنت سے کہہ دیا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ تندرست رہو گے، کبھی بیمار نہ پڑو گے اور اب تم ہمیشہ زندہ رہو گے، کبھی موت تم کو نہ آئے گی اور اب تم ہمیشہ جواں رہو گے، کبھی بڑھاپا تم پر نہ آئے گا۔ اب تم ہمیشہ مقیم رہو گے، کبھی کوچ کرنے کی تمہیں ضرورت نہ ہوگی۔
Top