Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 30
فَسَجَدَ الْمَلٰٓئِكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ
فَسَجَدَ : پس سجدہ کیا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتوں (جمع) كُلُّهُمْ : وہ سب اَجْمَعُوْنَ : سب کے سب
تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔
فَسَجَدَالْمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّھُمْ اَجْمَعُوْنَ ۔ اِلاَّ ٓاِبْلِیْسَ ط اَبٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ ۔ قَالَ یٰٓاِبْلِیْسَ مَالَکَ اَلاَّ تَکُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ ۔ قَالَ لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ۔ قَالَ فَاخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌ۔ وَّاِنَّ عَلَیْکَ اللَّعْنَۃَ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْ ٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ۔ قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ ۔ اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ ۔ (سورۃ الحجر : 30 تا 38) (تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔ سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کردیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہو۔ پروردگار نے پوچھا، اے ابلیس ! تیرا کیا معاملہ ہے کہ تو سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دے۔ وہ بولا کہ میں ایک ایسے بشر کو سجدہ کرنے کو تیار نہیں جس کو تو نے سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ نکل جا یہاں سے تو مردود ہے۔ بیشک تجھ پر لعنت ہے روزجزا تک۔ کہنے لگا کہ اے میرے رب پھر مہلت دے مجھے اس دن تک جب مردے قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا بیشک تو مہلت دیے ہوئے گروہوں میں سے ہے۔ جنھیں وقت مقرر کے دن تک مہلت دی گئی ہے۔ ) آدم و ابلیس کی سرگزشت قصہ آدم و ابلیس کی چونکہ پوری تفصیلات پر ہم سورة بقرہ اور بعض دوسرے مواقع پر بھی بحث کرچکے ہیں۔ اس لیے یہاں تفصیلات سے گریز کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سجدہ پر تمام فرشتے سجدہ ریز ہوگئے مگر ابلیس نے سجدہ نہیں کیا حالانکہ اس نے آج تک اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے کبھی سرتابی نہ کی تھی بلکہ کثرت عبادت کی وجہ سے تمام فرشتوں میں اس کی شہرت تھی۔ لیکن آج جب اسے امتحان پیش آیا جس میں اسے اپنی ذات اور اپنی نام نہاد عزت کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر قربان کرنا تھا تو وہ اس میں بری طرح ناکام ہوا۔ چناچہ جب اس سے پوچھا گیا کہ تو نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ کیوں نہیں کیا تو اس نے صاف کہا کہ میں ایسے بشر کے سامنے نہیں جھک سکتا جسے سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا گیا ہو جبکہ کہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا۔ آگ میں رفعت ہے اور مٹی میں پستی۔ رفعت پستی کے سامنے کیسے جھک سکتی ہے۔ قریش کے لیے بھی یہی بڑا امتحان تھا۔ ان کے و ڈیرے اور ان کے رئیس آنحضرت ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے کا مطلب یہ سمجھتے تھے کہ یہ تو ایک یتیم اور غریب آدمی کے سامنے جھکنے والی بات ہے بلکہ اسی پر بس نہیں، آپ جو تعلیمات لے کے آئے ہیں اس کے نتیجے میں تمام چھوٹے بڑے، غریب اور امیر حتیٰ کہ آقا اور غلام بھی ایک صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قریش اپنیے تمام امتیازات سے دستبردار ہوجائیں گے اور ان کی حیثیت ایک عام عرب سے زیادہ نہیں ہوگی۔ یہ بات ان کے لیے قابل قبول نہ تھی، لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو درحقیقت سب سے بڑی بارگاہ ہے وہاں یہ مصنوعی بڑائیوں کے دعوے برداشت نہیں ہوتے۔ اس لیے فرمایا کہ تو یہاں سے نکل جا، اس لیے کہ تو آج سے راندہ درگاہ ہے کہ کہاں تو تیرا یہ مقام کہ تو مقرب فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا، لیکن اب تیری حیثیت یہ ہے کہ تو اگر خاص حد سے تجاوز کرنے کی کوشش کرے گا تو شہابوں کے پتھر تجھے سنگسار کردیں گے۔ اور قیامت تک تجھ پر لعنت برسے گی یعنی تو رحمت کی ہر بات سے محروم کردیا گیا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ آدم کو سجدہ نہ کرنے کا نتیجہ ہر طرح کی خیر سے محرومی ہے تو اس کے اندر کی شیطنت اور بھڑکی تو بجائے معافی مانگنے کے کہنے لگا کہ پروردگار مجھے قیامت تک کے لیے مہلت دے دیجئے یعنی میری زندگی اتنی طویل فرما دیجئے تاکہ میں تیرے بندوں کو گمراہ کرسکوں۔ پروردگار نے ارشاد فرمایا : کہ میں تجھے مہلت دیتا ہوں ایک ایسے دن تک جس کا ایک معین وقت ہے۔
Top