Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 28
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا رَبُّكَ : تیرا رب لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اِنِّىْ : بیشک میں خَالِقٌ : بنانے والا بَشَرًا : انسان مِّنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ : سے حَمَاٍ : سیاہ گارا مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور اس وقت کو یاد کرو جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑے ہوئے گارے کی کھنکناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔
وَاِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ م بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّن حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ۔ فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 28۔ 29) (اور اس وقت کو یاد کرو جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑے ہوئے گارے کی کھنکناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ تو جب میں اس کو مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک لوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گرپڑنا۔ ) فرشتوں سے سجدہ کرانے کا مقصد اور سجدہ کا مفہوم ملائکہ یعنی فرشتے چونکہ کائنات کا نظام چلا رہے ہیں اور پروردگار نے مختلف ذمہ داریوں پر انھیں فائز کر رکھا ہے۔ وہی کارکنانِ قضا و قدر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کائنات کے تکوینی نظام کا بیشتر حصہ ان کے ذمہ داریوں سے چل رہا ہے۔ پروردگار نے جب یہ ارادہ فرمایا کہ میں زمین میں ایک بشر اور انسان کے نام سے ایک نئی مخلوق پیدا کررہا ہوں اور اس کے سر پر خلافتِ ارضی کا تاج بھی رکھنے والا ہوں تو ایسا کرنے سے پہلے ضروری تھا کہ جو پاکیزہ مخلوق اور مقربینِ بارگاہِ الٰہی اس سے پہلے کائنات کا نظام چلا رہے تھے وہ اس نئی مخلوق کے بارے میں پوری طرح آگاہ ہوجائیں کہ وہ اپنے مادہ تخلیق کے اعتبار سے کس قسم کی فطرت لے کر زمین پر جارہا ہے۔ اور پھر اس مادہ تخلیق کی کثافت کے باوجود میں جس طرح اس کا تسویہ کر رہا ہوں اور جن کمالات سے اسے نوازرہا ہوں انھیں بھی وہ اچھی طرح ملاحظہ کرلیں اور پھر انھیں یہ بھی معلوم ہو کہ میں اپنی خاص روح اس میں پھونک رہا ہوں۔ یعنی صفاتِ الٰہی کا ایک عکس یا پرتو اس پر ڈالنے والا ہوں۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں جن کے مجموعہ ہی کا نام روح ہے یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتو ہے جو اس کالبدِ خاکی پر ڈالا گیا ہے۔ ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھیں تاکہ جب انھیں حضرت آدم ( علیہ السلام) کے سامنے جھکنے اور سجدہ کرنے کا حکم دیا جائے تو انھیں تأمل نہ ہو۔ آدم ( علیہ السلام) کے سامنے ان کے سجدہ ریزہونے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ وہ اسے اپنا مسجود سمجھیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا نظام چلانے اور اپنی خلافت کی ذمہ داریاں احسن طریق سے انجام دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کائنات کے کارکنان اس کے احکام کی تعمیل کریں۔ وہ جو کرنا چاہیں اس کے لیے آسانیاں مہیا کریں۔ اسی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فرشتوں کا حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنا دراصل ان کی جانب سے اس بات کا اظہار تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کو زمین کی خلافت دے کر جس منصب پر فائز کیا ہے ہم نہ صرف اسے تسلیم کرتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہم ہر ممکن طریق سے اس میں تعاون کریں گے۔ تو اس سے خودبخود یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انھیں حضرت آدم (علیہ السلام) کو مسجود بنانے کا حکم نہیں دیا جارہا ہے بلکہ احترام اور ان کی سرکاری حیثیت کو تسلیم کرانے کا ایک ذریعہ تھا۔ اس کے لیے صرف یہی کافی تھا کہ ان کے سامنے سر جھکا لیا جائے۔ اس لیے بہت سے مفسرین کی یہ رائے ہے کہ یہاں سجدے سے مراد زمین پر سر رکھنا نہیں بلکہ احترام، عقیدت اور منصب کے تسلیم کے لیے سر جھکانا ہے اور اگر اس سے مراد زمین پر سر رکھنا ہی لیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سجدہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہوگا لیکن حضرت آدم قبلہ کی طرح فرشتوں کے سامنے ہوں گے۔ ان کی حیثیت صرف جہت اور سمت کی ہوگی لیکن مسجود اللہ تعالیٰ کی ذات ہوگی۔ جیسے آج ہم نماز میں کعبۃ اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ کعبۃ اللہ، اللہ تعالیٰ کے انوار کا مرکز ہے اس لیے وہ حد درجہ مسلمانوں کے نزدیک محترم ہے۔ لیکن سجدہ مسلمان اسے نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کو کرتے ہیں۔
Top