Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا : اور تحقیق ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ حَمَاٍ : سیاہ گارے سے مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
(بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا سڑے ہوئے بدبودار گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَأٍ مَّسْنُوْنٍ ۔ (سورۃ الحجر : 26) (بیشک ہم نے انسان کو پیدا کیا سڑے ہوئے بدبودار گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے۔ ) مشکل الفاظ کی تشریح اس آیت کریمہ میں کچھ مشکل الفاظ آئے ہیں، پہلے ان کے معنی سمجھ لیجئے۔ صَلْصَالٍ : اس خشک شدہ کیچڑ کو کہتے ہیں جو خشک ہونے کے بعد بجنے لگے۔ حَمَأٍ: اس سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر خمیر اٹھ جائے۔ مَّسْنُوْنٍ : بدبودار کیچڑجس میں چکنائی پیدا ہوگئی ہو۔ اس کے علاوہ اس کا اطلاق اس قالب پر بھی ہوتا ہے جسے ایک خاص صورت میں ڈھالا گیا ہو۔ اہلِ لغت کے نزدیک مختلف حالتوں میں مٹی کے مختلف نام ہیں۔ پانی میں بھگونے سے پہلے اسے ” تراب “ کہتے ہیں۔ پانی میں بھیگ جائے تو اسے ” طین “ یعنی کیچڑ بولتے ہیں اور جب اس میں بو پیدا ہوجائے یا اسے کوئی صورت دے دی جائے تو اسے ” مسنون “ کہتے ہیں۔ اور جب وہ خشک ہوجائے تو ” صلصال “ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اور جب اسے آگ میں پکا لیا جائے تو اسے ” فخار “ کہتے ہیں۔ دلائلِ آفاق کے بعد دلائلِ انفس سے استدلال گزشتہ رکوع میں پروردگار نے قریش کے روز روز کے نشانیوں کے مطالبے پر دلائلِ آفاق کا ذکر فرمایا جن میں سے آسمان کی چند مخلوقات کا ذکر فرمایا گیا اور اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت اور کمال علم کو واضح فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ ربوبیت کے بعض گوشوں کی بھی جھلک دکھائی گئی، پھر زمین اور اس سے متعلق نعمتوں کا ذکر فرمایا جس میں انسان کی غذا کا سازوسامان رکھا گیا ہے اور اس کے ایسے حیرت انگیزگوشوں کو واضح فرمایا جن پر انسان بہت کم غور کرتا ہے۔ اب اس رکوع میں دلائلِ انفس سے کام لیا جارہا ہے۔ انسان کے سامنے انسان کی اپنی تاریخ کو دہرایا جارہا ہے جس سے اس کی شخصیت کے بعض ایسے مخفی گوشے واشگاف کئے جارہے ہیں جو انسان کے لیے بیک وقت نصیحت اور عبرت کے بہت سے باب کھول دیتے ہیں۔ انہی ابواب میں سے ایک اہم ترین باب یہ ہے کہ قریش جس طرح تکبر اور نفرت کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی دعوت پر ایمان لانے کی بجائے اس کا انکار کررہے ہیں، انھیں سوچنا چاہیے کہ یہ رویہ کس کے اثر سے ان کے اندر پیدا ہوا ہے، ورنہ جہاں تک ان کے اپنے جسم و جان اور صلاحیتوں کا تعلق ہے اور ان کے عمل پیدائش کا سوال ہے اور خاص طور پر ان کے جدِامجد کو جن عناصر سے پیدا کیا گیا ہے انھیں دیکھ کر اور غور کرکے تو ان کے اندر عاجزی ابھرنی چاہیے اور انھیں سوچنا چاہیے کہ ہم لوگ جس طرح ایک حقیر پانی کے قطرے سے پیدا کئے گئے ہیں اور ہمارے جدِ امجد کو جس طرح کھنکھناتے ہوئے گارے سے پیدا کیا گیا تھا اور پھر اپنی پیدائش کے بعد جس طرح وہ باقی تمام مخلوقات کے بچوں کی نسبت سے بےدست و پا اور سرتاپا احتیاج بن کر پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے جس طرح قدم قدم پر اپنی صفت ربوبیت سے انھیں نوازا اور ان کے قدموں کے نیچے سے ان کے لیے غذا پیدا کی، ہر طرح کی زندگی کی آسائشوں سے انھیں بہرہ ور فرمایا کیا ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے کسی انسان کے لیے بھی اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بننے کی بجائے اس کے دین کی دعوت کے مقابلے میں صف آرا ہوجائے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب ابلیس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور اس کی پاداش میں اسے وہاں سے نکلنے کا حکم ہوا اور راندہ درگاہ کردیا گیا۔ اس نے اپنی اس بربادی اور ذلت کا سبب حضرت آدم (علیہ السلام) کو سمجھا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے بڑی بےحیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مہلت عمل مانگی اور اعلان کیا کہ میں سامنے سے، پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں سے انسانوں پر حملہ آور ہوں گا۔ اور تیرے قریب ترین بندوں کے سوا کسی کو تیری شکرگزاری پر قائم نہیں رہنے دوں گا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مہلت عمل دے دی اور جو اس نے قوت مانگی وہ بھی دے دی گئی۔ قریش کا یہ رویہ اور یہ عمل اس کے اسی اعلان کا نتیجہ ہے۔ اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی دنیا میں تشریف آوری سے لے کر قیامت تک آنے والے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ یہ جو کچھ آج قریش کہہ رہے ہیں، یہ اسی کی صدائے بازگشت ہے اور ان کا ہر عمل ابلیس کی خواہش کی تکمیل ہے۔ وہ خوش ہیں کہ ہمارے تکبر اور نخوت کو شاید غذا مل رہی ہے لیکن انھیں اندازہ نہیں کہ وہ ابلیس کے ارادوں کی تکمیل کررہے ہیں۔ اور جن معمولی باتوں سے انھوں نے اپنے آپ کو دین کی قبولیت سے محروم رکھا ہے، وہ شیطان ہی کے رویئے کا ثمر ہے۔ اس نے سب سے پہلے اپنے مادہ تخلیق کے حوالے سے اونچ نیچ کا سوال اٹھایا اور اسی کو عزت کا معیار بنا لیا۔ تم بھی غربت و امارت اور حسب و نسب کو فیصلہ کن کردار دے کر اپنے آپ کو خیر سے محروم کرچکے ہو۔ خود کہو کہ تمہارے اس رویئے کا جواز کیا ہے ؟ پیشِ نظر آیت کریمہ پر غور کیجئے، اس آیت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی ابتداء کیسے ہوئی ہے۔ اس کے الفاظ پر غور کرنے سے یہ تو ضرور مترشح ہوتا ہے کہ جس طرح باقی تمام جاندار پانی اور کیچڑ سے پیدا کئے گئے انسانی زندگی کی ابتداء بھی اسی سے ہوئی ہے۔ اور مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کو اول وہلہ میں مٹی سے اٹھا نہیں کھڑا کیا گیا بلکہ ایک طویل پر اسس ہے جس سے اسے گزارا گیا۔ لیکن ہمیں اس کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ اس کا قوام مٹی اور پانی سے تیار ہوا۔ اور پھر یہ مٹی اور پانی نہ جانے کب تک تیاری کے مراحل سے گزرے اور پھر ایک وقت آیا کہ جب یہ قوام تیار ہوگیا تو اسے قالب میں ڈھالا گیا، پھر موسم کے اثرات سے اسے خشک ہونے کا موقع دیا گیا۔ اور پھر ایک وقت آیا کہ جب اسے حرارت سے پکایا گیا۔ فخار کے لفظ سے اسی کی طرف طبیعت مائل ہوتی ہے اور شاید انسان میں آتش غضب کا جو مادہ رکھا گیا ہے وہ اسی کا پرتو ہو۔ یہ تو وہ پر اسس ہے، ممکن ہے بعض اور مخلوقات بھی کم و بیش اسی طریقے سے وجود آشنا ہوئی ہوں۔ لیکن انسان اور باقی جانداروں میں جو ایک عظیم فرق محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ باقی تمام جانداروں کو ایک خاص سانچے میں ڈھالا گیا اور ایک خاص طریقے سے بنایا گیا لیکن کسی کے بارے میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ پروردگار نے اسے دست قدرت سے بنایا ہو جبکہ ہر چیز اس کے دست قدرت کی محتاج ہے۔ اور پھر اس کا تسویہ کیا گیا۔ تسویہ انسان کے لیے ایک ایسا اعزاز ہے جس میں اس کی خوبصورت شکل و صورت، اس کے اندرونی اور بیرونی خصائص، اس کے نازک احساسات، اس کی جمالی اور جلالی قوتیں، اس کی خواہشات، اس کے نفس کی مختلف حالتیں، اس کے دل کی وسیع دنیا، اس کے حواس خمسہ، پھر اس کا شعور اور اس کا جو ہر عقل یہ سب کچھ اس میں شامل ہے۔ اس کی بعض چیزیں جو حیوانیت کے لیے ضروری ہیں وہ حیوانوں کو ضرور عطا کی گئیں لیکن ان کا کمال اور باقی صفات صرف انسان کا خاصہ ہے اور وہ اسی تسویہ کا ثمر ہے۔ ایک اور چیز جس نے انسانوں کو مقام و مرتبہ میں کہیں کا کہیں پہنچا دیا وہ انسان کا اخلاقی کمال ہے۔ چناچہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروردگار نے یہ فرمایا کہ ہم نے پھر اپنی روح کا پرتو اس پر ڈالا۔ چناچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا امین بن گیا اور اس کے اندر وہ صفات پیدا ہوئیں جس کے سامنے پوری کائنات کی رعنائیاں بھی ہیچ دکھائی دیتی ہیں۔ ان تمام گزارشات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کا اگرچہ اپنے مادہ تخلیق اور آغاز تخلیق کے اعتبار سے حیوانات کے ساتھ اشتراک پایا جاتا ہے لیکن اس بات کا تو دور دور تک امکان نہیں کہ انسان حیوانی منازل طے کرتا ہوا بشریت کی حدود میں داخل ہوا جیسا کہ ڈارون کی تھیوری ہمیں رہنمائی دیتی ہے۔ ڈارون کے نزدیک انسان بندر کی ترقی یافتہ صورت ہے جبکہ قرآن کہتا ہے کہ انسان کی براہ ِ راست ابتداء ارضی مادوں سے ہوئی اور اس کے جدِ امجد کی تخلیق ایسی بجنے والی مٹی سے ہوئی جو پہلے بدبودار سیاہی مائل کیچڑ تھی۔ اس سے اس کا کالبد تیار ہوا پھر اس میں اللہ تعالیٰ نے خاص روح پھونکی۔ اسی روح کی وجہ سے اس کے سر پر خلافتِ ارضی کا تاج رکھا گیا۔ اسی وجہ سے انسان مسجودِ ملائک بنا۔ ہم تفصیلات سے واقف نہیں لیکن انسانی تخلیق کے بارے میں قرآن کے اس نظریئے پر یقین رکھتے ہیں اور ہر مسلمان کو اسی پر یقین رکھنا چاہیے۔ ڈارون کا نظریہ اپنی موت مرچکا، کل تک اسے پوجنے والے آج علمی طور پر اسے متروک قرار دے چکے ہیں اور قرآن کریم کا نظریہ کل بھی روشن تھا، آج بھی روشن ہے اور ہمیشہ روشن رہے گا۔
Top