Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 24
وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْكُمْ وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِیْنَ
وَلَقَدْ عَلِمْنَا : اور تحقیق ہمیں معلوم ہیں الْمُسْتَقْدِمِيْنَ : آگے گزرنے والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَلَقَدْ عَلِمْنَا : اور تحقیق ہمیں معلوم ہیں الْمُسْتَاْخِرِيْنَ : پیچھے رہ جانے والے
اور یقینا ہم جانتے ہیں ان کو بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کو بھی جانتے ہیں جو بعد میں آنے والے ہیں۔
وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاخِرِیْنَ ۔ وَاِنَّ رَبَّکَ ھُوَ یَحْشُرُھُمْ ط اِنَّہٗ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ۔ (سورۃ الحجر : 24۔ 25) (اور یقینا ہم جانتے ہیں ان کو بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کو بھی جانتے ہیں جو بعد میں آنے والے ہیں۔ اور بیشک تمہارا پروردگار ہی ہے جو ان سب کو اکٹھا کرے گا۔ اور بیشک وہ بڑا دانا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ ) صفتِ علم کا بیان اپنے کمال قدرت اور نظام ربوبیت کی بعض جہتوں کو بیان کرنے کے بعد اپنے علم کی وسعت کی طرف اشارہ فرمایا کہ جس طرح ہماری قدرت کی کوئی انتہا نہیں، اسی طرح ہمارے علم کی بھی کوئی اتھاہ نہیں۔ یہ مت سمجھو کہ اس وقت جو لوگ موجود ہیں اور زندگی کے فرائض ادا کررہے ہیں، ہم صرف انھیں کو جانتے ہیں اور انھیں کے اعمال سے آگاہ ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم جس طرح ماضی کے لوگوں کو جانتے ہیں اسی طرح ہم مستقبل کے لوگوں سے بھی آگاہ ہیں۔ ہمارے علم میں کوئی تقسیم نہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل یہ انسانی علم کی صفات ہیں۔ ہمارا علم محیط سب پر حاوی ہے۔ ہم جس طرح حال کو جانتے ہیں ہم اس سے بڑھ کر ماضی اور مستقبل سے آگاہ ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ وہ ذات جس نے انسانوں کو فہم و شعور عطا فرمایا، پھر ان کی معنوی اور ذہنی تربیت فرمائی اور ان کی زندگی کی ہر ضرورت کو پورا فرمایا۔ خیر و شر کے ہر پہلو کو واضح کیا، نفع و ضرر کے پیمانے ان کے ہاتھوں میں دیے اور پھر ان کے اعمال کی حفاظت میں زمانوں کو حائل نہیں ہونے دیا۔ ان تمام باتوں کا فطری تقاضا ہے کہ وہ ایک دن تمام انسانوں کو جمع کرے گا اور ان سے ان کی زندگی کا حساب لے گا تاکہ کوئی شخص اپنی محرومیوں کی شکایت نہ کرے اور کسی شخص کو اپنی ناقدری کا گلہ نہ ہو۔ جن کے حقوق پامال کئے گئے وہ اپنی پامالی کا صلہ پائیں اور جنھوں نے قربانیاں دیں وہ قربانیوں کے اجر سے نوازے جائیں۔ ہر ظلم کی تلافی ہو، کوئی جرم کرنے والا سزا سے نہ بچ سکے۔ یہ اس زندگی کا لازمی اور فطری تقاضا ہے اس کے لیے ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ بےپایاں علم کا مالک ہوتا، اس کی حکمت عدل و احسان کے امکانات کو بروئے کار لاتی۔ چناچہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہونا کہ ہمارا علم ناقص ہے اور ہم تمام انسانی نسلوں کے اعمال سے پوری طرح واقف نہیں، اور ہم سب کے احوال سے واقف نہیں ہوسکتے۔ انسانی جزاء و سزا کا اصول کس طرح بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ تمہیں خاطرجمع رکھنی چاہیے کہ ہم سب کے حالات سے واقف ہیں۔ جب ہم بازپرس کریں گے تو ہم زندگی کے کسی گوشے سے بھی ناواقف نہیں ہوں گے۔ ہر شخص کے ساتھ پورا انصاف ہوگا اور اپنے عمل کے مطابق ہم سب سے حساب لیں گے۔
Top