Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 22
وَ اَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسْقَیْنٰكُمُوْهُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِیْنَ
وَاَرْسَلْنَا : اور ہم نے بھیجیں الرِّيٰحَ : ہوائیں لَوَاقِحَ : بھری ہوئی فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ : پھر ہم نے وہ تمہیں پلایا وَمَآ : اور نہیں اَنْتُمْ : تم لَهٗ : اس کے بِخٰزِنِيْنَ : خزانہ کرنے والے
پس ہم بھیجتے ہیں ہَوائوں کو باردار بنا کر، پھر ہم آسمان سے پانی اتارتے ہیں، پھر ہم تمہیں اس سے سیراب کرتے ہیں، یہ تمہارے بس میں نہ تھا کہ تم اس کے ذخیرے جمع کرکے رکھتے۔
وَاَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَسْقَیْنٰـکُمُوْہُ ج وَمَآ اَنْتُمْ لَہٗ بِخٰزِنِیْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 22) (پس ہم بھیجتے ہیں ہَوائوں کو باردار بنا کر، پھر ہم آسمان سے پانی اتارتے ہیں، پھر ہم تمہیں اس سے سیراب کرتے ہیں، یہ تمہارے بس میں نہ تھا کہ تم اس کے ذخیرے جمع کرکے رکھتے۔ ) ربوبیت کا مزید تذکرہ اوپر چند آیات سے زمین پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بعض نشانیوں کو اس طرح بیان فرمایا جارہا ہے جس میں جابجا اس کی ربوبیت کی طرف اشارے بھی ہیں۔ اس آیت میں بھی اسی کی مزید وضاحت فرمائی گئی ہے۔ لیکن اس وضاحت کو عرض کرنے سے پہلے ایک لفظ کو واضح کرنا ضروری ہے تاکہ آیت کے مفہوم کو آسانی سے سمجھا جاسکے۔ آیت میں ہَوائوں کے لیے لَوَاقِحَکا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی ہم نے باردار کیا ہے۔ عربی زبان میں نر اور مادہ کے ملاپ کی صورت میں جب نر مادہ میں مادہ تولید ڈالتا ہے تو اسے القاح یا تلقیح کہا جاتا ہے۔ اس عمل کو حمل ٹھہرانا یا باردار کرنا کہتے ہیں۔ قدرت نے تمام مخلوقات میں نر اور مادہ پیدا کئے ہیں اور ان کے سلسلہ تناسل کے لیے اسی عمل کو ذریعہ بنایا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے دنیا اس علمی تصور سے بالکل بیگانہ تھی۔ انسانوں اور حیوانوں کے بارے میں تو سب لوگ بچشم سر اسے دیکھتے تھے لیکن نباتات کے بارے میں افزائشِ نسل کا یہ طریقہ کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا۔ چناچہ قرآن کریم نے سب سے پہلے اسے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیا کے جوڑے پیدا فرمائے ہیں جنھیں زمین اگاتی ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ایسی چیزوں کے بھی جوڑے پیدا فرمائے گئے ہیں جنھیں تم آج نہیں جانتے۔ لیکن جدید دور کا انسان ان میں سے بہت سی چیزوں کو جانتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس نے نام ان کے الگ الگ رکھے ہیں۔ چناچہ نباتات میں آج ہر شخص جو زراعت کی ابجد سے بھی واقف ہے وہ جانتا ہے کہ کسی پھلدار درخت کو پھل نہیں آسکتا تاوقتیکہ وہاں نر اور مادہ دونوں نہ ہوں۔ اور کوئی کھیتی بارآور نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ وہاں یہ پر اسس (Process) جاری نہ ہو۔ لیکن اس کا تصور تو آج بھی انسانوں کے لیے شاید اجنبی ہو کہ یہی پر اسس (Process) اور طریقہ اللہ تعالیٰ نے بارش کے لیے ہَوائوں میں بھی رکھا ہے۔ اس لیے ہَوائوں کو لَوَاقِحَکہا گیا ہے۔ علمائے تفسیر نے مختلف طریقوں سے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ ان ہَوائوں کو لَوَاقِحَ اس لیے کہا گیا کہ یہ ہَوائیں بارش کا پانی بادلوں کے مشکیزوں میں اٹھائے ہوئے آتی ہیں یا اس لیے کہ یہ بادلوں میں اس رطوبت کو ملاتی ہیں جس سے ان سے بارش ہونے لگتی ہے۔ اور یا اس لیے لَوَاقِحَ کہا گیا کہ یہ درختوں کو بارآور کرتی ہیں۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ پانی جو تمہاری ضرورت ہے اور تمہاری کھیتیوں کی سیرابی کا ذریعہ ہے اور تمہاری خوراک کا دارومدار بالواسطہ اسی پر ہے تو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی یہ کرم فرمائی ہے کہ اس نے حیرت انگیز طریقے سے سمندر سے پانی اٹھایا، فضا میں ابر کی چادریں پھیلائیں اور پھر ہَوائوں نے انھیں باردار کیا اور انھیں وہاں پہنچایا جہاں زمین کو پانی کی ضرورت تھی۔ اگر پروردگار یہ سارا پر اسس (Process) اپنی قدرت اور اپنی ربوبیت سے وجود میں نہ لاتا تو تمہاری کھیتیوں کی سیرابی کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا۔ ہر جگہ زمین پانی نہیں دیتی یا بعض دفعہ پانی اتنا گہرا ہوتا ہے کہ اس کا نکالنا آسان نہیں ہوتا۔ پانی نکل بھی آئے تو ضروری نہیں کہ وہ کھیتیوں کی سیرابی کے قابل بھی ہو۔ اور یہ بھی ممکن نہ تھا کہ تم اس پانی کے ذخیرے جمع کرکے رکھ چھوڑتے اور جب ضرورت پڑتی تو پانی برسا لیتے۔ یہ خدا ہی کا انتظام اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے یہ حیرت انگیز انتظام کر رکھا ہے۔
Top