Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 21
وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُهٗ١٘ وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْ شَيْءٍ : کوئی چیز اِلَّا : مگر عِنْدَنَا : ہمارے پاس خَزَآئِنُهٗ : اس کے خزانے وَمَا : اور نہیں نُنَزِّلُهٗٓ : ہم اس کو اتارتے اِلَّا : مگر بِقَدَرٍ : اندازہ سے مَّعْلُوْمٍ : معلوم۔ مناسب
اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، لیکن ہم اس کو ایک معین اندازے کے ساتھ ہی اتارتے ہیں۔
وَاِنْ مِّنْ شَیْ ئٍ اِلاَّ عِنْدَنَا خَزَآئِنُہٗ ز وَمَا نُنَزِّلُہٗ ٓ اِلاَّ بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ ۔ (سورۃ الحجر : 21) (اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، لیکن ہم اس کو ایک معین اندازے کے ساتھ ہی اتارتے ہیں۔ ) توازن و تناسب کی طرف اشارہ ہم چونکہ تمام مخلوقات کے رازق ہیں اس لیے رزق کے حوالے سے جن جن نعمتوں کی ضرورت ہے ان کے خزانے ہمارے پاس ہیں۔ کسی مخلوق کو کبھی اس کا گمان نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس اس کے رزق میں کمی آجائے گی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ کوئی آبی مخلوق ہو یا جنگلوں کی مخلوق، کیڑے مکوڑے ہوں یا فضائی جانور، کبھی کسی کو یہ شکایت پیدا نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے رزق میں کمی کردی ہے یا اس کے خزانوں میں کوئی کمی آگئی ہے اور ہمیں مناسب رزق نہیں پہنچ رہا۔ البتہ جب بھی کبھی شکایت پیدا ہوتی ہے تو انسانوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایک تو انسان کی ناشکری اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی، دوسرا وہ اس بات کو سمجھ نہیں پا رہا کہ زمین پر عدل و احسان کی حکومت قائم کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا نہیں بندوں کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خزانوں کی حفاظت اس کے دیے ہوئے رزق کی منصفانہ تقسیم یہ انسانوں کے فرائض میں شامل ہے۔ جب انسان انھیں بجا لانے میں کوتاہی کرتا ہے تو وہیں انسان کے رزق میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ کسی کے گودام بھرے رہتے ہیں اور کوئی نان شبینہ کا محتاج ہوتا ہے ورنہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے خزانوں کا تعلق ہے آپ دیکھ لیجئے کہ انسانی ضرورتوں میں جو ضرورت سب سے مقدم ہے اور سب سے زیادہ ہے اس کے خزانے بھی سب سے زیادہ ہیں۔ پانی انسانی کی پہلی ضرورت ہے تو کون سی جگہ ایسی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے پانی پیدا نہیں فرمایا۔ زمین کے نیچے پانی کے سوتے رواں ہیں، میدانی علاقوں میں دریا بہہ رہے ہیں، پہاڑی علاقوں میں چشمے ابلتے اور آبشاریں گرتی ہیں اور پھر مسلسل بارشوں سے ندی نالے بھی سیراب رہتے ہیں اور ہر جگہ کی ضرورتیں بھی پوری ہوتی ہیں۔ مزیدبراں یہ کہ پہاڑوں پر موسم سرما میں برف جما دی جاتی ہے جو موسم گرما میں پگھلتی ہے اور اس کا بہتا ہوا پانی ہر علاقے کی سیرابی کا کام کرتا ہے۔ انسان کی دوسری ضرورت اس کی خوراک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو جس پر انسان بستا ہے قوت روئیدگی سے معمور کر رکھا ہے۔ آپ اس کے پیٹ میں غلہ دفن کر کے دیکھئے، بجائے اس کو مارنے کے اسی سے زندگی اور روئیدگی کے آثار پیدا کردیتا ہے جو بڑھتے بڑھتے پودا اور تنا بنتا ہے۔ پھر اسے خوشے لگتے ہیں اور ایک ایک دانہ سات سات سو دانے تک بارآور ہوتا ہے اور پھر اس غلے کی بارآوری اور غذا کی بہم رسانی میں عناصرِ قدرت میں سے کون سا ایسا عنصر ہے جو شریک نہیں ہوتا۔ پانی، بادل، ہوا، سورج اور چاند، آسمان، زمین اور فضا کون سی چیز ہے جو اس خدمت میں لگی ہوئی نظر نہیں آتی تاکہ انسان کو اس کی روزی میسر آئے اور وہ زندگی کے فرائض ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔ مختصر یہ کہ تمام مخلوقات کی روزی دینے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس کے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں۔ نہ کوئی چیز کم ہوتی ہے اور نہ کوئی زیادہ ہوتی ہے۔ جب کمی ہوتی ہے تو اسی کے حکم سے ہوتی ہے اور جب زیادتی ہوتی ہے تو تب بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے۔ البتہ اس کے نتیجہ میں اس دنیا میں بڑی بڑی آفتیں برپا ہوجاتی ہیں۔ اور اس سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ دنیا نہ تو کسی اتفاقی حادثہ کے طور پر ظہور میں آگئی ہے اور نہ یہ مختلف دیویوں اور دیوتائوں کی بازی گاہ ہے۔
Top