Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 19
وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ
وَالْاَرْضَ : اور زمین مَدَدْنٰهَا : ہم نے اس کو پھیلا دیا وَاَلْقَيْنَا : اور ہم نے رکھے فِيْهَا : اس میں (پر) رَوَاسِيَ : پہاڑ وَاَنْۢبَتْنَا : اور ہم نے اگائی فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شئے مَّوْزُوْنٍ : موزوں
اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں محکم پہاڑ گاڑ دیے اور اس میں ہر قسم کی چیزیں تناسب کے ساتھ اگائیں۔
وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰھَا وَاَلْقَیْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ وَاَمنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ مَّوْزُوْن۔ (سورۃ الحجر : 19) (اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں محکم پہاڑ گاڑ دیے اور اس میں ہر قسم کی چیزیں تناسب کے ساتھ اگائیں۔ ) زمین پر اللہ تعالیٰ کی چند نشانیاں عالمِ بالا میں اپنی قدرت کے کمالات کا ذکر کرنے کے بعد اب انسان کو زمین کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ آسمان کی وسعتیں تمہاری رسائی سے باہر ہیں لیکن زمین کو تم بہت حد تک دیکھ سکتے ہو۔ ذرا اس کی وسعتوں کا اندازہ کرو اور پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دیکھو کہ کیا اس کے ساتھ کسی اور شریک کی گنجائش ہے ؟ زمین اس کی کائنات کا ایک چھوٹا سا کُرّہ ہے لیکن اس کی وسعت کا عالم یہ ہے کہ نہ جانے کب سے اس پر حضرت انسان بس رہا ہے اور کتنی نسلیں اس پر انسان کی گزر چکی ہیں۔ ہر رنگ، ہر نسل اور ہر نوع کی مخلوق اس پر آباد ہے، لیکن آج تک اربوں انسانوں کی موجودگی میں کبھی شکایت پیدا نہیں ہوئی کہ زمین کی وسعت انسانوں کی آبادی کے مقابلے میں تنگ پڑگئی ہے۔ انسانوں کو ظلم خود انسانوں کو عاجز کردے تو وہ ایک دوسری بات ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ وسائل حیرت انگیز حد تک ہمیشہ انسان کی ضرورتوں سے بڑھ کر رہے ہیں۔ اربوں انسان زمین پر بس رہے ہیں اور ابھی مزید کروڑوں کی گنجائش باقی ہے۔ اتنی بڑی زمین اور اس پر انسانی آبادی کا اتنا بوجھ اندیشہ ہوسکتا ہے کہ یہ زمین کسی طرف لڑھک ہی نہ جائے۔ اس کا انتظام پروردگار نے یہ کیا ہے کہ بڑے بڑے پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے جو اس کے اندر میخوں کی طرح گڑے ہوئے ہیں۔ زمین کی مجال نہیں کہ وہ کسی طرف جھک جائے اور انسانی آبادی ناممکن ہوجائے، پھر زمین کے ایک تہائی پر اللہ تعالیٰ نے سمندر بسارکھا ہے، لیکن سمندر کی مجال نہیں کہ وہ زمین پر چڑھ دوڑے۔ انسان نے کبھی غور نہیں کیا کہ سمندر کے کنارے کس نے باندھ رکھے ہیں۔ سمندر کے اندر اٹھتے ہوئے طوفانوں کو دیکھ کر آدمی خوفزدہ ہوجاتا ہے کہ اگر ان کا رخ زمین کی طرف ہوجائے تو اہل زمین کو کون بچا سکتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ انتظام ہے اور اس کی قدرت ہے کہ زمین کی وسعت اور انسان کی ضرورت میں کہیں تصادم نہیں ہوتا اور اگر کہیں ہوتا ہے تو وہ خود انسان کا پیدا کردہ ہوتا ہے اور یا وہ انسان کی عقل و دانش اور اس کے حوصلے کے لیے چیلنج ہوتا ہے۔ چناچہ جب بھی انسان نے اس بات کو سمجھا اور اس چیلنج کو قبول کیا تو سمندر کو ہزاروں میل پیچھے ہٹا دیا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کی ایک اہم نشانی آیت کے دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے ایک اور اہم نشان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی پیدا کی یا اگائی ہے اسے ایک اندازے اور ایک توازن کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ جتنی اس نے جاندار مخلوق پیدا فرمائی ہے یہ دیکھ کے حیرت ہوتی ہے کہ جیسا کسی مخلوق کا ماحول ہے ویسی اسے جسمانی ساخت عطا فرمائی ہے اور ویسی اسے جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں اور جیسا اس کا جسم اور اس کی صلاحیتیں ہیں ویسا اسے ماحول دیا گیا ہے۔ مچھلی کو پانی میں پیدا کیا تو اسے تیرنے کی صلاحیت عطا فرمائی اور پرندے کو خشکی میں پیدا فرمایا تو اسے اڑنا سکھایا گیا۔ اور پھر جن کو پَر دیے گئے انھیں قوت و مہارت پرواز دی گئی۔ اور جن کی روزی فضا میں بکھیری انھیں پر عطا کئے گئے، جنھیں جنگل میں پیدا کیا انھیں دوڑنا بھاگنا، شکار کرنا، اپنے نوکیلے دانتوں یا سینگوں سے دشمن کا مقابلہ کرنا سکھایا، بھٹ میں رہنا سکھایا اور بھٹ بنانا بھی سکھایا۔ پرندوں کو درختوں پر بٹھایا تو گھونسلا بنانے کی صلاحیت بھی عطا فرمائی۔ گرم علاقوں کے جانور آپ دیکھیں گے کہ سرد علاقوں میں نہیں ہوتے اور سرد علاقوں کے گرم علاقوں میں نہیں پائے جاتے۔ منطقہ حارہ کا ریچھ منطقہ باردہ میں نہیں ہوتا اور منطقہ باردہ کا ریچھ منطقہ حارہ میں نہیں ہوتا۔ مزید ایک نشانی نباتات کی ہر نوع میں تناسل کی اس قدر طاقت ہے کہ اگر اس کے صرف ایک پودے ہی کی نسل کو زمین میں بڑھنے کا موقع دے دیا جائے تو چند سال کے اندر روئے زمین پر بس وہی نظر آئے، کسی دوسری قسم کی نباتات کے لیے کوئی جگہ نہ رہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کو دیکھئے کہ بےحساب نباتات اگ رہی ہیں اور ہر نبات کی ایک مقدار مقرر کردی ہے وہ اپنی مخصوص حد پر پہنچ کر رک جاتی ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہر نبات اور ہر پودا اپنا جو مقصد رکھتا ہے اسے کبھی نہیں بھولتا۔ گندم کا پودا ہمیشہ گندم مہیا کرتا ہے، اسے کبھی انار کے دانے نہیں لگتے۔ اور آم کے درخت کو کبھی املی نہیں لگتی۔ ہر جانور کا جو قد و قامت مقرر کردیا گیا ہے، وہ اس سے کبھی تجاوز نہیں کرتا۔ شیر بڑھ کر ہاتھی کا حجم اختیار نہیں کرسکتا اور ہاتھی اپنے حجم کو گھٹا کر بلی کی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔ اس حکیم مطلق کے توازن کے ایسے قوانین ہیں جنھیں کبھی ہم نے بدلتے ہوئے نہیں دیکھا۔
Top