Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 16
وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ
وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور یقیناً ہم نے بنائے فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان بُرُوْجًا : برج (جمع) وَّزَيَّنّٰهَا : اور اسے زینت دی لِلنّٰظِرِيْنَ : دیکھنے والوں کے لیے
(بیشک ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور ہم نے آراستہ کردیا ہے آسمان کو دیدہ بینا رکھنے والوں کے لیے۔
وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآئِ بُرُوْجًاوَّزَیَّنّٰھَا لِلنّٰظِرِیْنَ ۔ وَحَفِظْنٰھَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ ۔ اِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیْنٌ۔ (سورۃ الحجر : 16۔ 17۔ 18) (بیشک ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور ہم نے آراستہ کردیا ہے آسمان کو دیدہ بینا رکھنے والوں کے لیے۔ اور ہر شیطانِ مردود کی دراندازی سے ہم نے اس کو محفوظ کردیا ہے۔ ہاں، جو کوئی سن گن لینے کے لیے چوری چھپے کان لگاتا ہے تو ایک دمکتا شہاب اس کا تعاقب کرتا ہے۔ ) آسمانوں میں اللہ تعالیٰ کی پھیلی ہوئی نشانیاں اللہ تعالیٰ کے نبیوں ( علیہ السلام) کی دعوت کے مخالفین نے جس بات سے انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت کو ناکام کرنے کی کوشش کی ہے وہ آئے دن نئی سے نئی نشانیوں کا مطالبہ ہے۔ چناچہ مشرکینِ مکہ بھی آنحضرت ﷺ سے کسی نہ کسی نشانی یعنی معجزے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ معجزات دکھانا اللہ تعالیٰ کے نبی ( علیہ السلام) کا کام نہیں، وہ تو دنیا میں انسانی ہدایت کے لیے مبعوث کیا جاتا ہے۔ البتہ پروردگار اپنے نبی کی تائید کے لیے جب چاہتا ہے کوئی معجزہ دکھا دیتا ہے لیکن امت کے مطالبوں میں کبھی کمی نہیں آتی۔ اس آیت کریمہ میں ان کا مطالبات کے جواب میں یہ فرمایا جارہا ہے کہ تم اگر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں دیکھنا چاہتے ہو تو اور اسی سے تمہارا ایمان وابستہ ہے تو ذرا آنکھیں کھول کے دیکھو کائنات کی وسعتوں میں اس کی کیا کمی ہے۔ سب سے پہلے آسمان کی طرف توجہ دلائی کہ دیکھو ہم نے آسمان میں کیسے برج بنائے اور کس طرح ہم نے دیدہ بینا رکھنے والوں کے لیے آسمان کو آراستہ کیا۔ آسمان سے سورج نکلتا ہے تو خاکدانِ ارضی پر اپنے انوار کی بارش کرتا ہے۔ اپنی کرنوں سے زمین کے ایک ایک انچ کو روشن کردیتا ہے۔ چاند نکلتا ہے تو رات کی تاریکی کو اپنے حسن کی خوبصورتی پہنا دیتا ہے۔ ستاروں کی قندیلیں اپنے حسن کی الگ چمن آرائی کرتی ہیں، پھر ستاروں کا نظم و ترتیب اور ان کا آپس میں دروبست، حیرت انگیز آراستگی اور برجستگی کا اظہار کرتا ہے۔ جب صبح کے مطلع تاباں سے سورج کا ظہور ہوتا ہے تو صبح اس طرح آہستہ آہستہ گھونگٹ اٹھاتی ہے کہ آتش شوق بھڑک بھڑک جاتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عالم بقعہ نور ہوجاتا ہے اور جب سورج واپسیں سفر اختیار کرتا ہے تو اپنے پیچھے لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ جاتا ہے۔ قدم قدم پر دیکھنے والی نگاہ کہیں حیرت زدہ ہوتی ہے اور کہیں اٹک کے رہ جاتی ہے۔ لیکن اس کا معنوی حسن اس کا اندرونی بندوبست، اس کا تکوینی نظام اور اس کے ملکوت جو انسانی حواس سے ماوراء ہیں اور جہاں آج تک سائنس کی نگاہ نہیں پہنچ سکی اور نہ اسے تصور اسے اپنے حصار میں لاسکا ہے۔ قرآن کریم اس سے کبھی کبھی پردہ اٹھاتا ہے، انھیں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں۔ برج سے کیا مراد ہے سوال یہ ہے کہ یہ برج کیا ہیں ؟ برج عربی زبان میں ان چیزوں کو کہتے ہیں جو دور سے نمایاں ہوں۔ اسی لیے قلعہ اور محل پر برج کا لفظ بول دیا جاتا ہے۔ اہل عرب عام طور پر بڑے بڑے ستاروں کو جو دور سے نمایاں دکھائی دیتے ہیں برج کے لفظ سے یاد کرتے تھے۔ اس لیے ان میں سے بعض اہل علم نے اس سے سات بڑے بڑے سیارے مراد لیے ہیں۔ یونان کے ایک علمائے ہیئت نے سورج کے مدار حرکت کو بارہ حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا اور وہ ہر حصے کو برج کہتے تھے جن کے نام یہ ہیں : حمل، ثور، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، جوزا اور حوت۔ اسی وجہ سے بعض مفسرین نے یہ سمجھا کہ قرآن کا اشارہ شاید انہی بروج کی طرف ہے اور بعض مفسرین نے اس سے سیارے مراد لیے، لیکن جب ہم ان آیات کو غور سے پڑھتے ہیں تو خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید اس سے مراد عالم بالا کے وہ خطے ہیں جن میں سے ہر خطے کو نہایت مستحکم سرحدوں نے دوسرے خطے سے جدا کر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ سرحدیں فضاء بسیط میں غیرمرئی کھچی ہوئی ہیں لیکن ان کو پار کرکے کسی چیز کا ایک خطے سے دوسرے خطے میں چلاجانا سخت مشکل ہے۔ یہی وہ فصیلیں ہیں جن کی برکت سے جو شہاب ثاقب 10 کھرب روزانہ کی اوسط سے زمین کی طرف گرتے ہیں وہ سب جل کر بھسم ہوجاتے ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچ سکتا ہے۔ دنیا میں شہابی پتھروں کے جو نمونے پائے جاتے ہیں اور دنیا کے عجائب خانوں میں موجود ہیں جن میں سب سے بڑا 645 پونڈ کا ایک پتھر ہے جو گر کر 11 فیٹ زمین میں دھنس گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک مقام پر ساڑھے 26 ٹن کا ایک آہنی تودہ پایا گیا جس کے وہاں موجود ہونے کی کوئی توجیہ سائنسدان اس کے سوا نہیں کرسکے کہ یہ بھی آسمان سے گرا ہوا ہے۔ اندازہ کیجئے کہ اگر آسمان کے مختلف خطوں میں یہ مضبوط حصار نہ ہوتے جنھیں قرآن کریم نے برج قرار دیا ہے تو یہ برسنے والے شہابی پتھر درجہ بدرجہ ہر خطے کا کیا حشر کرتے اور زمین پر برسنے والی پتھروں کی بارش سے اہل زمین کا کیا انجام ہوتا۔ یہ حصار یعنی برج ہمیں دکھائی نہیں دیتے لیکن قرآن کریم کے انکشاف کے مطابق کائنات کے مختلف حصوں میں یہی حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہیں اور خوبصورتی کا اظہار بھی، کیونکہ پروردگار نے یوں تو تمام آسمان کو نورانی قمقموں سے روشن کر رکھا ہے اور اہل زمین اسے دیکھ کے خوش ہوتے ہیں، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ برج جنھیں ہم دیکھ نہیں سکتے لیکن ان کے اندر جو خاص طور پر حسن آرائی کی گئی ہے وہ بھی آسمان کی زینت اور حسن کا حصہ بن کر ہماری آنکھوں کو روشنی دیتی ہو تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ شیاطین کی شرانگیزی سے بچاؤ کا انتظام دوسری آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات کی سرشت ایسی بنائی ہے کہ بلندی اور رفعت کی طرف اڑنا ان کی شاید سرشت میں داخل ہے۔ اس لیے وہ عموماً آسمان کی وسعتوں میں پرواز جاری رکھتے ہیں لیکن ان کی سرشت میں چونکہ شر کا مادہ غالب ہے اس لیے وہ ہر جگہ شیطنت کے اظہار کی کوشش کرتے ہیں۔ چناچہ پروردگار نے کائنات کو ان کے شر کے اثرات سے بچانے کے لیے وسیع انتظامات کر رکھے ہیں۔ انھیں انتظامات میں سے یہ انتظام بھی ہے کہ ملاء اعلیٰ سے مختلف خطوں پر پتھروں یا شہابیات کی ایسی بارش ہوتی ہے کہ یہ جنات اپنی حدود سے آگے بڑھنے کا حوصلہ نہیں کرپاتے۔ زمانہ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہاب ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں ان کی تعداد کا اوسط 10 کھرب روزانہ ہے جن میں سے 2 کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتے ہیں۔ ممکن ہے یہ انتظام اس لیے کیا گیا ہو تاکہ عالم بالا کی طرف شیاطین کی پرواز ناممکن بنادی جائے۔ سن گن لینے والے تیسری آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت کے بعد شیاطین کی عالم بالا تک رسائی بالکل ناممکن بنادی گئی۔ پہلے وہ فرشتوں سے ملتے جلتے اور ان کے پاس منڈلاتے رہتے تاکہ کسی بات کا اگر علم ہوجائے تو کاہنوں کو جا کے زمین پر بتائیں اور یہ غیب دانی کا مذموم دھندا چلتا رہے، لیکن حضور نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری کے بعد جب شرک کی جڑ مار دی گئی تو اس کے وسائل بھی ختم کردیے گئے، لیکن پھر بھی اگر کوشش کرکے کوئی شیطان کسی بات کی سن گن لینے کے لیے اوپر جانے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے وہ آسمانی قلعے جو آسمانوں میں بنائے گئے ہیں ان میں ملائکہ کی فوجیں برابر مامور رہتی ہیں۔ وہ ان شیاطین کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں اور جب وہ شیطان وہاں سے بھاگتا ہے تو ایک دمکتا شہاب اس کا تعاقب کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک قلعہ کی برجیوں پر مامور سپاہی دشمن کے آدمیوں پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں، کسی اجنبی کو اپنی حدود کے اندر لانگنے کا موقع نہیں دیتے، اسی طرح خدا کے مامور ملائکہ ان جن شیاطین کو شہاب ثاقب کا نشانہ بناتے ہیں۔
Top