Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 14
وَ لَوْ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْهِ یَعْرُجُوْنَۙ
وَلَوْ : اور اگر فَتَحْنَا : ہم کھول دیں عَلَيْهِمْ : ان پر بَابًا : کوئی دروازہ مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَظَلُّوْا : وہ رہیں فِيْهِ : اس میں يَعْرُجُوْنَ : چڑھتے
اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول بھی دیتے اور وہ سارا دن اس میں سے اوپر چڑھتے رہتے۔
وَلَوْفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآئِ فَظَلُّوْا فِیْہِ یَعْرُجُوْنَ ۔ لَقَا لُوْا اِنَّمَا سُکِّرَتْ اَبْصَارُ نَابَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُرْرُوْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 14۔ 15) ( اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول بھی دیتے اور وہ سارا دن اس میں سے اوپر چڑھتے رہتے۔ تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھیں مدہوش کردی گئیں، ہم ایسی قوم ہیں جن پر جادو کردیا گیا۔ ) نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نصیب نہیں ہوتا جب تک قریش اور دیگر مشرکین سنجیدگی اور متانت سے آنحضرت ﷺ کی دعوت پر غور و فکر کے لیے آمادہ نہیں ہوتے اور وہ دنیا اور آخرت کی حقیقت پر تدبر سے کام نہیں لیتے اور قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے محض آپ ﷺ کو زچ کرنے کے لیے نئے سے نئے معجزے اور نئی سے نئی نشانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر ہم ان کے سامنے آسمان میں کوئی دروازہ بھی کھول دیں کہ تم اگر نبی کریم ﷺ کی حقانیت کی دلیل کے طور پر کوئی نشانی دیکھنا چاہتے ہو تو لو ہم تمہارے لیے یہ دروازہ کھولے دیتے ہیں اور پھر وہ دن کے اجالے میں اس میں آتے جاتے بھی رہیں تب بھی وہ بجائے اس حق کو قبول کرنے کے یہ عذر کریں گے کہ ہم تو یہ جان ہی نہیں سکے کہ ہمیں کیا دکھایا جارہا ہے، ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ ہماری نگاہیں بند کردی گئیں، ان پر جادو کردیا گیا، ہم بظاہر دروازے سے آئے گئے بھی لیکن کچھ نہیں دیکھ سکے بلکہ ہم تو اپنے آپ کو یوں محسوس کرتے ہیں کہ ہم تو مکمل طور پر جادو اور سحر کی زد میں ہیں اور جادو ہم پر غالب آچکا ہے۔ اس لیے ہم یہ اندازہ ہی نہیں کرسکتے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ یہ ہے سوچ ان لوگوں کی جو حقیقت کو حقیقت کے انداز میں دیکھنے کی بجائے ہر چیز کو اپنے مزعومات کی نگاہ سے دیکھتے اور اپنی خواہشات کے ترازو میں تولتے ہیں۔
Top