Al-Qurtubi - Nooh : 4
یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُؤَخِّرْكُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ١ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يَغْفِرْ لَكُمْ : بخش دے گا تمہارے لیے مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ : تمہارے گناہوں میں سے وَيُؤَخِّرْكُمْ : اور مہلت دے گا تم کو اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : مقرر وقت تک اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ : بیشک اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت اِذَا جَآءَ : جب آجاتا ہے لَا يُؤَخَّرُ : تو ڈھیل نہیں دی جاتی۔ تاخیر نہیں کی جاتی لَوْ كُنْتُمْ : اگر ہو تم تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے
وہ تمہارے گناہ بخش دیگا اور (موت کے) وقت مقرر تک تم کو مہلت عطا کرے گا جب خدا کا مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے تو تاخیر نہیں ہوتی کاش تم جانتے ہوتے
ویوخرکم الی اجل مسمی حضرت ابن عباس نے کہا : تمہاری عمروں میں مہلت دے گا۔ اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی تخلیق سے پہلے ہی فیصلہ کردیا تھا کہ اگر وہ ایمان لائے تو اللہ تعالیٰ ان کی عمروں میں برکت ڈال دے گا۔ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر عذاب کو جلدی لے آئے گا۔ مقاتل نے کہا : تمہاری عمر کے آخری حص تک صحت و سلامتی کے ساتھ تمہیں ملہت دے گا اور قحط وغیرہ کے ساتھ سزا نہیں دے گا۔ اس تاویل کی بنا پر معنی یہ بنے گا تمہاری عمروں کے اختتام تک تمہیں عقوبات اور شدائد سے محفوظ رکھے گا۔ زجاج نے کہا : عذاب سے تمہیں مہلت دے گا تم کو ایسی موت نہیں مارے گا جو عذاب کے ساتھ جڑ کو ہی ختم کر دے، اس وجہ سے فرمایا : اجل مسمی یعنی ایسی موت تک جس کو تم پہچانتے ہو۔ وہ تمہیں غرق کر کے جلانے کے ساتھ اور قتل کر کے نہیں مارے گا، فراء نے اس کا ذکر کیا۔ پہلے قول کی بنا وہ مدت اللہ تعالیٰ کے ہاں معروف ہے۔ ان اجل اللہ اذا جآء لایوخر جب موت آجاتی ہے اسے موخر نہیں کیا جاتا وہ موت عذاب کی صورت میں ہو یا عذاب کے بغیر ہو۔ اجل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی کیونکہ اسی ذات نے انہیں ثابت کیا۔ بعض اوقات اس کی نسبت قوم کی طرف کی جاتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فاذا جآء اجلھم (الاعراف : 34) کیونکہ یہ اجل ان کے لیء بیان کر دیگئی ہے۔ لو، ان کے معنی میں ہے یعنی اگر تم جانتے ہو۔ حضرت حسن بصری نے کہا : اس کا معنی ہے اگر تم جانتے ہوتے تو اس کو جان لیتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ وقت جب آ جائیتو اس میں تاخیر نہیں کی جاتی (1)
Top