Al-Qurtubi - Nooh : 10
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ
فَقُلْتُ : پھر میں نے کہا اسْتَغْفِرُوْا : بخشش مانگو رَبَّكُمْ : اپنے رب سے اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ غَفَّارًا : بخشنے والا ہے
اور کہا اپنے پروردگار سے معافی مانگو کہ وہ بڑا معاف کرنیوالا ہے
اس میں تین مسائل ہیں۔ استغفار کی فضیلت مسئلہ نمبر 1 :۔ فقلت استغفروا ربکم ایمان کے اخلاص کے ساتھ اپنے سابقہ گناہوں سے مغفرت کا سوال کرو۔ انہ کان غفاراً ۔ یہ اس کی جانب سے توبہ میں ترغیب ہے۔ حضرت حذیفہ بن یمان نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے فرمایا : الاستغفار ممعاۃ للذنوب (2) استغفار گناہوں کو مٹانے والی ہے۔ فضیل نے کہا : بندہ کہتا ہے : استغفر اللہ اس کی تفسیر اقلنی ہے یعنی میری غلطیوں سے درگزر فرما۔ توبہ کی فضیلت مسئلہ نمبر 2۔ یرسل السمآء علیکم مدراراً ۔ وہ آسمان کا پانی برساتا ہے۔ اس کلام میں اضمار ہے۔ اصل یہ ہے یرسل ماء السماء۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : السماء کا معنی ہی بارش ہے (1) ۔ شاعر نے کہا : اذا سقط السماء بارض قوم رعیناہ وان کانوا غصاباً جب بارش کسی قوم کے علاقہ میں ہوتی ہے تو ہم اس کے سبزہ کو چرتے ہیں اگرچہ وہغضب ناک ہوں۔ مدراراً کثیر بارش والی۔ یرسل کو جزم دی گی ہے۔ کیونکہ یہ جواب امر ہے۔ مقاتل نے کہا، جب انہوں نے طویل عرصہ تک حضرت نوح (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بارش کو روک لیا۔ چالیس سال تک ان کی عورتوں کے رحموں کو بانجھ کردیا، ان کے جانور ہلاک ہوگئے اور کھیتیاں برباد ہوگئیں۔ وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے بارش کے برسنے کی التجا کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا : اپنے رب سے بخشش طلب کرو، بیشک وہی بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔ یعنی جو بھی اس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ اس کے ساتھ ہمیشہ اسی طرح کا سلوک کرتا ہے۔ پھر ایمان میں ترغیب دیتے ہوئے کہا : وہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا، بیٹوں اور اموال کے ساتھ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارے لئے باغات بنا دے گا اور تمہارے لئے نہریں بنا دے گا (2) قتادہ نے کہا : اللہ تعالیٰ کے نبی کو علم تھا کہ وہ دنیا کے بارے بڑیحریص ہیں تو فرمایا : اللہ تعالیٰ کی طاعت کی طرف آئو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طاعت میں دنیا و آخرت ملتی ہے۔ استغفار پر مترب ہونے والے نتائج مسئلہ نمبر 3۔۔ آیت اور سورة ہود کی آیت میں یہ دلیل موجود ہے کہ استغفار کے ذریعے رزق اور بارش کو طلب کیا جاتا ہے۔ امام شعبی نے کہا : حضرت عمر استقاء کے لئے نکلے تو استغفار سے زائد کچھ عمل نہ کیا یہاں تک کہ واپس آگئے تو لوگوں پر بارش ہوگئی۔ لوگوں نے عرض کی : ہم نے آپ کو استقاء کرتے ہوئے تو نہیں دیکھا ؟ فرمایا : میں نے آسمان کے مجادیح سے بارش طلب کی جن کے ساتھ بارش کے برسنے کو طلب کیا جاتا ہے، پھر پڑھا استغفروا ربکم انہ کان غفاراً ۔ یرسل السمائٓ علیکم مدراراً ۔ امام اوزاعی نے کہا : لوگ بارش کو طلب کرنے کے لئے نکلے۔ ان میں بلال بن سعد بھی نکلے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد ثناء کی پھر یوں گویا ہوئے : اے اللہ ! ہم نے تجھ یہ کہتے ہوئے سنا ما علی المحسنین من سبیل (التوبہ : 91) ہم نے گناہ کا اعتراف کرلیا۔ تیری مغفرت نہیں مگر ہماری مثل لوگوں کے لئے۔ اے اللہ ! ہمیں بخش دے، ہم پر رحم فرما اور اور ہمیں سیراب کر۔ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دیئے اور لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ اٹھا دیئے تو ان پر بارش کی گئی۔ ابن صبیح نے کہا : ایک آدی نے حضرت حسن بصری کی خدمت میں خشک سالی کا شکایت کی۔ آپ نے اسے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرو۔ ایک اور آدمی نے فقر کی شکایت کی۔ آپ نے اسے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرو۔ ایک اور آدمی نے عرض کی : اللہ تعالیٰ کے حضور التجاء کیجیے کہ وہ بچہ عطا فرمائے۔ آپ نے اسے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے حضور بخشش کی التجاء کر۔ ایک اور آدمی نے باغ کے خشک ہونے کی شکایت کی۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کر۔ ہم نے اس بارے میں ان سے عرض کی ؟ فرمایا : میں نے اپنی جانب سے تو کچھ نہیں کہا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کر۔ ہم نے اس بارے میں ان سے عرض کیڈ فرمایا : میں نے اپنی جانب سے تو کچھ نہیں کہا۔ اللہ تعالیٰ سورة نوح میں ارشاد فرماتا ہے : استغفرواربکم انہ کان غفار۔ یرسل السمآء علیکم مدراراً ۔ ویمددکم یاموال دبنین ویجعل لکم جنت ویجعل لکم انھراً ۔ سورة آل عمران میں استغفار کی کیفیت گزر چکی ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ ہو اور گناہوں کو ختم کرنے کی صورت میں ہو۔ قبولیت میں یہی اصل ہے۔
Top