Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 74
وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَكُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًا١ۚ فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ
وَاذْكُرُوْٓا : اور تم یاد کرو اِذْ : جب جَعَلَكُمْ : تمہیں بنایا اس نے خُلَفَآءَ : جانشین مِنْۢ بَعْدِ : بعد عَادٍ : عاد وَّبَوَّاَكُمْ : اور تمہیں ٹھکانا دیا فِي : میں الْاَرْضِ : زمین تَتَّخِذُوْنَ : بناتے ہو مِنْ : سے سُهُوْلِهَا : اس کی نرم جگہ قُصُوْرًا : محل (جمع) وَّتَنْحِتُوْنَ : اور تراشتے ہو الْجِبَالَ : پہاڑ بُيُوْتًا : مکانات فَاذْكُرُوْٓا : سو یاد کرو اٰلَآءَ : نعمتیں اللّٰهِ : اللہ وَلَا تَعْثَوْا : اور نہ پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں مُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے (فساد کرتے)
اور یاد تو کرو جب اس نے تم قوم عاد کے بعد سردار بنایا۔ اور زمین پر آباد کیا کہ نرم زمین سے مٹی لے کر محل تعمیر کرتے ہو اور پہاڑوں کو تراش تراش کر گھر بناتے ہو۔ پس خدا کی نعمتوں کو یاد کرو۔ اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔
آیت نمبر : 74 اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : 1 قولہ تعالیٰ : آیت : وبواکم فی الارض اس میں کلام محذوف ہے، اصل عبارت ہے وبواکم فی الارض منازل ( اور اس نے تمہیں زمین میں گھروں کا ٹھکانا دیا) آیت : تتخذون من سھولھا قصورا یعنی تم ہر جگہ عالیشا محل بناتے ہو۔ آیت : وتنحتون الجبال بیوتا انہوں نے پہاڑوں میں اپنی طویل اور لمبی عمروں کے لیے مکانات بنائے، کیونکہ چھت اور بنیادیں ان کی عمریں ختم ہونے سے پہلے بوسیدہ ہوچکی تھیں۔ حسن نے حاکو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ بھی ایک لغت ہے اور اس میں حروف حلقیہ میں سے ایک ہے، پس اسی لیے یہ باب فعل یفعل کے وزن پر آیا ہے۔ مسئلہ نمبر : 2 جنہوں نے عالی شان اور بلند وبالا محلات بنانے کو جائز قرار دیا ہے انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی : آیت : قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبت من الرزق ( الاعراف : 32) ( آپ فرمائیے : کس نے حرام کیا للہ کی زینت کو جو پیدا کیا اس نے اپنے بندوں کے لیے اور ( کس نے حرام کیے) لذیذ پاکیزہ کھانے ) بیان کیا گیا ہے کہ حضرت محمد بن سیرین (رح) کے صاحبزادے نے گھر تعمیر کیا اور اس پر مال کثیر خرچ کیا، جب اس کا ذکر حضرت محمد بن سیرین (رح) سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا : میں اس میں کوئی حرج نہیں دیکھتا کہ کوئی آدمی ایسا مکان بنائے جو اس کے لے نفع بخش ہو۔ اور روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : اذا انعم اللہ علی عبد احب ان یری اثر النعمۃ علیہ (جامع ترمذی، کتاب الاستیذان والادب، جلد 2، صفحہ 105۔ ایضا، حدیث نمبر 2744، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ( جب اللہ تعالیٰ کسی بندے پر احسان وانعام فرمائے تو پسندیدہ یہ ہے کہ اس پر اس نعمت و احسان کا اثر دکھائی دے) اور نعمت و احسان کے آثار میں سے خوبصورت مکان اور اچھا لباس ہے۔ کیا آپ جانتے نہیں ہیں کہ اگر کوئی مال کثیر کے عوض حسین و جمیل کنیز خریدے تو اس کے لیے جائز ہے، حالانکہ اس سے کمتر بھی اس کے لیے کافی ہو سکتی ہے، تو یہ مکان اور محل بھی اسی طرح ہیں۔ لیکن بعض دوسروں نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔ ان میں امام بصری (رح) وغیرہ ہیں اور انہوں نے اس ارشاد نبوی سے استدلال کیا ہے : اذا اراد اللہ بعبد شرا اھلک مالہ فی الطین واللبن ( جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے بارے شرکا ارادہ فرمائے تو وہ اپنا مال مٹی اور اینٹوں میں ضائع کردیتا ہے) اور دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : من بنی فوق ما یکفیہ جاء بہ یوم القیامۃ یحملہ علی عنقہ (مجمع الزوائد، کتاب البیوع، جلد 1، صفحہ 121، حدیث نمبر 6281) ( جس نے اپنی حاجت اور ضرورت سے زیادہ عمارت بنائی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ وہ اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے ہوگا) ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس کے بارے اسی طرح میں کہتا ہوں، کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : وما انفق المومن من نفقۃ فان خلفھا علی اللہ عزوجل الا ما کان فی بنیان او معصیۃ (سنن دار قطنی، کتاب البیوع، جلد 3، صفحہ 28) ( بندہ مومن جو مال بھی خرچ کرے تو اس کی جگہ اور عطا فرمانا اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہوتا ہے سوائے اس کے جو عمارت یا معصیت ( برائی) میں خرچ ہو) اسے حضرت جابربن عبداللہ ؓ نے روایت کیا ہے اور دارقطنی نے اسے نقل کیا ہے۔ اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے : لیس لابن آدم حق فی سوی ھذہ الخصال بیت یسکنہ وثوب یواری عورتہ وجلف الخبز والمائ، اخرجہ الترمذی (جامع ترمذی، کتاب الزہد، جلد 2، صفحہ 57) ( آدمی کا ان چیزوں کا سوا میں کوئی حق نہیں گھر جو اسے رہائش کافی ہو، کپڑا جو اس کے لیے ستر عورت کا کام دے، خشک روٹی اور پانی ( اسے ترمذی نے نقل کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : 3 قولہ تعالیٰ : آیت : فاذکروا الاء اللہ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو۔ اور یہ اس پر دلیل ہے کہ کفار بھی منعم علیہم ہیں۔ اس کے بارے بحث سورة آل عمران میں گزر چکی ہے۔ آیت : ولاتعثوا فی الارض مفسدین سورة البقرہ میں بحث گزر چکی ہے۔ اس میں العثی اور العثو دو لغتیں ہیں۔ اور اعمش نے تا کے کشرہ کے ساتھ لتعثوا پڑھا ہے انہوں نے اسے عثی یعثی سے لیا ہے نہ کہ عثا یعثو سے۔
Top