بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - As-Saff : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ لِلّٰهِ : تسبیح کی ہے اللہ کے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَمَا فِي الْاَرْضِ : اور جو زمین میں ہے وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
جو چیز آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے سب خدا کی تسبیح کرتی ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے۔
آیات۔ 1۔ 3 تفسیر پہلی آیت کی تفسیر سورة حدید کی پہلی آیت کے تحت گزر چکی ہے۔ دوسری دو آیات کے ضمن میں پانچ مسائل بیان کئے گئے ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ یایھا……۔ داری ابو محمد نے اپنی مسند میں روایت نقل کی ہے کہ محمد بن کثیر، اوزاعی سے وہ یحیٰی بن ابی کثیر سے وہ ابو سلمہ سے وہ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں : ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کی ایک جماعت بیٹھی ہم نے آپس بات چیت کی ہم نے کہا : اگر ہم جانتے کے اعمال میں سے کون سا عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں زیادہ محبوب ہے تو ہم اس پر ضرور عمل کرتے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان آیات سبح اللہ ……۔ ……۔ کو نازل فرمایا۔ ابو سلمہ نے کہا : حضرت ابن سلام نے انہیں ہم پر تلاوت کیا۔ یحییٰ نے کہا : ابو سلمہ نے انہیں ہم پر پڑھا، انہیں یحییٰ نے ہم پر پڑھا، اوزاعی نے انہیں ہم پر پڑھ اور محمد نے انہیں ہم پر پڑھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے کہا : اگر ہم ایسا عمل جانتے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے محبوب ہے تو ہم اس پر عمل کرتے ؟ جب جہاد کا حکمنازل ہوا تو صحابہ نے اس ناپسند کیا (2) ۔ کلبی نے کہا : مومنوں نے کہا : یا رسول اللہ ! اگر ہم ایسے عمل کو جانتے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں زیادہ محبوب ہے تو ہم اس عمل کو بجا لانے میں جلدی کرتے تو یہ آیت نازل ہوئی ھل ادلکم……۔ صحابہ کرام طویل زمانہ تک رکے رہے وہ کہتے : کاش ! ہم جانتے کہ وہ کیا ہے تو ہم انہیں اموال، اپنی جانوں اور اہل کے بدلے خرید لیتے ؟ اللہ تعالٰ نے انہیں اپنے ارشاد کے ساتھ انہیں آگاہ کیا تومنون ………۔ غزوہ احد کے موقع پر آزمایا گیا تو وہ بھاگ گئے اس وعدہ خلاف کرنے پر انہیں عار دلانے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی۔ محمد بن کعب نے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے شہداء بدر کے ثواب کے بارے میں خبر دی تو صحابہ نے کہا : اے اللہ ! گواہ رہنا اگر ہمیں جنگ کا موقع ملا تو ہم اپنی پوری طاقت صرف کردیں گے، وہ غزوہ احد کے موقع پر بھاگ گئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس پر عار دلائی (1) ۔ قتادہ اور ضحاک نے کہا : یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جو یہ کہتے تھے : ہم نے جہاد کیا، ہم نے فلاں کو قتل کیا جبکہ انہوں نے اس طرح نہیں کیا تھا۔ حضرت صہیب رومی نے کہا : ایک آدمی تھا جس نے غزوہ بدر کے موقع پر مسلمانوں کو بڑی مصیبت میں ڈالا اور انہیں زخمی کیا تو میں نے اسے قتل کردیا۔ ایک آدمی نے کہا : اے للہ کے نبی ! میں نے فلاں کو قتل کیا ہے تو نبی کریم ﷺ اس وہ سے خوش ہوئے۔ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا : اے صہیب ! کیا تو نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں بتایا کہ میں نے فلاں کو قتل کیا ہے ؟ فلاں آدمی اس کے قتل کو اپنی طرف منسوب کررہا تھا۔ حضرت صہیب رومی نے بتایا : رسول اللہ ﷺ نے پوچھا ! ” اے ابو یحییٰ ! کیا بات اسی طرح ہے ؟ “ عرض کی : جی ہاں، اللہ کی قسم ! یا رسول اللہ ﷺ ! تو جس نے اس قتل کو اپنی طرف منسوب کیا تھا اس کے بارے میں آیت نازل ہوئی۔ ابن زید نے کہا : یہ آیات منافقین کے حق میں نازل ہوئیں (2) ۔ وہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کو کہا کرتے تھے : اگر تم نکلے اور تم نے جنگ کی تو ہم تمہارے ساتھ نکلیں گے اور جنگ کریں گے۔ جب وہ نکلے تو منافق ان سے پیچھے ہٹ گئے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ یہ آیت اس امر کو ثابت کرتی ہے کہ جس آدمی نے اپنے اوپر کوئی عمل لازم کیا جس میں طاقت ہو تو وہ اس کو پورا کرے صحیح مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے آپ نے اہل بصرہ کے قراء کی طرف پیغام بھیجا تو آپ کی خدمت میں تین سو آدمی حاضر ہوئے جنہوں نے قرآن پڑھ رکھا تھا (3) ۔ فرمایا : تم اہل بصرہ کے بہترین لوگ ہو اور ان کے قاری ہو تم اس کی تلاوت کرو تم پر کوئی عرصہ نہ گزرے کہ تمہارے دل سخت ہوجائیں جس طرح ان کے دل سخت ہوگئے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں، ہم ایک ایسی سورت پڑھتے تھے جو طوالت اور شدت میں سورة براءت جیسی تھی، مجھے وہ بھلا دی گئی مگر مجھے اتنی بات یاد ہے کہ اس میں تھا اگر انسان کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو تیسری وادی کی خواہش کرتا ہے متئی کے سوا کوئی چیز انسان کے پیٹ کو بھر نہیں سکتی۔ ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے جسے ہم مسبحات سورتوں میں سے ایک کے مشابہ خیال کرتے تو وہ مجھے بھلادی گئی مگر مجھے اس میں سے یہ یاد ہے : اے مومنو ! تم وہ کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔ تمہاری گردنوں میں بطور شہادت اسے لکھ دیا جائے گا اور قیامت کے روز تم سے اس بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ابن عربی نے کہا : یہ سب باتیں دین میں ثابت ہیں جہاں تک یایھا الذین ……۔ کا تعلق ہے یہ تو دین میں لفظ اور معنی کے اعتبار سے اس سورت میں ثابت ہے (1) ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ تمہاری گردنوں میں شہادت ہوئی اور قیامت کے روز اس بارتے میں تم سے پوچھا جائے گا، یہ معنی کے اعتبار سے دین میں ثابت ہے کیونکہ جو کسی چیز کو اپنے اوپر لازم کرتا ہے وہ شرعا اس پر لازم ہوجاتی ہے۔ جو چیز لازم ہوتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ ا : نذر، نذر کی بھی دو قسمیں ہیں (1) جو ابتداء عبادت ہو جس طرح کسی کا یہ قول ہے : للہ …… اللہ کے لئے مجھ پر نماز، روزہ، اور صدقہ ہے یا اسی طرح کسی عبادت کا ذکر کرے۔ بالاجماع اس کو پورا کرنا لازم ہے۔ (2) نذر مباح۔ اس سے راد ایسی نذر ہے جس کو اس نے پسندیدہ شرط کے ساتھ معلق کیا ہو جس طرح اس کا قول ہے : اگر میرا غائب آیا تو مجھ پر صدقہ لازم ہے۔ یا کسی خوف والی شرط کے ساتھ معلق کرے جیسے : اگر اللہ تعالیٰ میری فلاں تکلیف کے لئے کافی ہوگیا تو مجھ پر صدقہ لازم ہے۔ علماء نے اس میں اختلاف کیا ہے۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ نے کہا : اس کو پورا کرنا لازم ہے۔ امام شافعی نے اپنے ایک قول میں کہا : اس کو پورا کرنا لازم نہیں آیت کا عموم ہماری دلیل ہے، کیونکہ آیت کا مطلق ہونا ان آدمیوں کی مذمت کو شامل ہے جو کسی طور پر بھی ایسا نہ کرے خواہ وہ مطلق ہو یا شرط کے ساتھ مقید ہو۔ امام شافعی کے اصحاب نے کہا : بیشک وہ نذر جس سے عبادت کا مقصد ہو۔ یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب وہ عبادت کی جنس سے ہو۔ یہ اگرچہ عبادت کی جنس سے تو ہے مگر اس کے ساتھ عبادت کا قصد نہیں کیا گیا بلکہ اس سے یہ قصد کیا گیا ہے کہ اپنے نفس کو کسی فعل سے روکنے یا کسی فعل کے کرنے کا قصد کیا گیا ہے۔ ہم کہتے ہیں : تمام شرعی عبادات حقیقت میں مشقتیں اور مشکل امور ہیں، اگرچہ یہ عبادات ہیں۔ یہ کسی نفع کے حصول یا تکلیف کو دور کرنے کے لئے کسی مشقت کے ساتھ قربت کا لازم کرنا ہے۔ تو یہ امور مکلف بنانے سے خارج نہ ہوں گے۔ ابن عربی نے کہا : اگرچہ جو بات کی گئی ہے وہ وعدہ ہے تب بھی اس سے خالی نہیں کہ یہ کسی سبب پر منحصر ہو جس طرح کوئی کہتا ہے : ان تزوجت……، اگر میں نے شادی کی تو ایک دینار کے ساتھ تیری مدد کروں گا یا اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں تجھے یہ عطا کروں گا۔ یہ لازم ہے فقہاء کا اس پر اتفاق ہے۔ اگر صرف وعدہ ہو تو ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ یہ اپنے مطلق ہونے کی وجہ سے لازم ہوگیا۔ انہوں نے آیت کے سبب سے استدلال کیا گیا ہے۔ کیونکہ روایات کی گئی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے : اگر ہم ایسا عمل جانتے جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب افضل ہے یا اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے محبوب ہے تو ہم ضرور اس پر عمل کرتے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ یہ ایسی حدیث ہے جس میں کوئی کجی نہیں۔ مجاہد سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے جب آیت کو سنا تو کہا : میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے آپ کو روکے رکھوں گا یہاں تک کہ شہید کیا جائوں۔ میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ وعدہ عذر کے بغیر ہر صورت میں پورا کرنا لازم ہے۔ میں کہتا ہوں : امام مالک نے کہا جہاں تک وعدہ کا تعلق ہے جس طرح ایک آدمی کسی سے سوال کرتا ہے کہ وہ اسے کوئی چیز ہبہ کرے تو وہ آدمی کہتا ہے : ہاں ٹھیک ہے۔ پھر اس کے لئے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایسا نہ کرے تو میں اسے نہیں دیکھتا کہ یہ اس پر لازم ہوگا۔ ابن قاسم نے کہا : جب اس نے قرض خواہوں سے وعدہ کیا اور کہا : میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے ہبہ کردیا جو وہ تمہیں دے دے گا۔ یہ اس پر لازم ہوجائے گا، مگر اس کا یہ کہنا : ہاں میں ایسا کروں گا۔ پھر اس کے لئے ظاہر ہوا ( کہ وہ اسے نہ دے) تو میں اس پر کوئی چیز لازم نہیں دیکھتا۔ میں کہتا ہوں : اس پر اس چیز کو لازم نہیں کیا جائے گا۔ جہاں تک مکارم اخلاق اور حسن مروت کا تعلق ہے تو اس حد تک تو ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کی تعریف کی ہے جس نے اپنے وعدے کو سچ کر دکھایا اور اپنی نذر کو پورا کیا فرمایا : و الموفون……(البقرہ : 177) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : واذکر فی الکتب……(مریم :54) اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ امام نخفی نے کہا : تین آیات ایسی ہیں جنہوں نے مجھے منع کر رکھا ہے کہ میں لوگوں کو وعظ و نصیھت کروں اتامروں ………(البقرہ :44) وما ارید ……(ہود : 88) یایھا الذین ……۔ (الصف) ابو نعیم حافط نے مالک بن دینار سے وہ ثمامہ سے وہ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ایسی قوم کے پاس آیا جن کے منہ آگ کی قینچوں سے کاٹے جا رہے تھے جب بھی انہیں کاٹا جاتا تو وہ پھر بڑھ جاتے۔ میں نے پوچھا : اے جبریل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت جبریل امین نے عرض کی : یہ تیری امت کے خطباء ہیں جو کہتے ہیں، عمل نہیں کرتے، وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھتے ہیں اور اس پر عمل نہیں کرتے “ (1) ۔ سلف صالحین کے بارے میں مروی ہے : ان سے عرض کی گئی : ہمیں کچھ بیان کیجئے تو وہ خاومش رہے پھر انہیں کیا گیا : ہمیں کچھ بیان کیجئے۔ فرمایا : کیا تمہاری رائے یہ ہے کہ میں ایسی بات کروں جو میں خود نہ کروں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا جلدی مستحق ہوجائوں۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ لم تقولون مالا تفعلون۔ کلمہ استفہام انکار اور تو بیخ کے لئے ہے کہ انسان بھلائی کا ذکر تو کرے مگر خود اس پر عمل نہ کرے، اگر یہ ماضی سے متعلق ہو تو یہ جھوٹ ہوگا اگر مستقبل سے متعلق ہو تو یہ وعدہ خلافی ہوگی۔ دونوں چیزوں مذموم ہیں۔ سفیان بن عینیہ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی یہ تاویل بیان کی ہے جو معاملہ تمہارے قبضہ میں نہیں تو وہ کیوں کہتے ہو تم نہیں جانتے کہ کیا تم اس کو کرسکو گے یا نہیں کرسکے گے۔ اس صورت میں کلام ظاہر معنی پر محمول ہوگی کہ ایسے قول پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ کبیر مقتا ……۔ امام شافعی کے ایک قول کے مطابق غضب کی حالت میں بھی وفا کرنا ضروری ہے۔ ان ما بعد سے ملکر مبتدا ہے اور ماقبل اس کی خبر ہے گویا فرمایا : تمہارا ایسی بات کرنا جس پر خود عمل نہ کرو یہ مذموم ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ مبتدا مخذوف کی خبر ہو۔ کسائی نے کہا : ان نقل رفع میں ہے کیونکہ کبرا ایسا فعل ہے جس بئس رجلا اخوک کے قائم مقام ہے اور مقتا تمیز کے طور پر منصوب ہے۔ معنی یہ بنتا ہے۔ کجر قولھم مالا یفعمون مقتا ان کا ایسک بات کرنا جا پر وہ عمل پیرا نہ ہوں یہ بری ناراضگی کا باعث ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ حال ہے مقت اور مقاتہ یہ دونوں مصد رہیں یوں کہا جاتا ہے : رجل مقیت و مسقوت جب لوگ اسے پسند نہ کریں۔
Top