Al-Qurtubi - As-Saff : 10
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ : اے لوگو اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے ہو هَلْ اَدُلُّكُمْ : کیا میں رہنمائی کروں تمہاری عَلٰي تِجَارَةٍ : اوپر ایک تجارت کے تُنْجِيْكُمْ : بچائے تم کو مِّنْ عَذَابٍ : عذاب سے اَلِيْمٍ : دردناک
مومنو ! میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں عذاب الیم سے مخلصی دی۔
تفسیر اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ یایھا…… مقاتل نے کہا : یہ آیت حضرت عثما بن مظعون کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی : کاش ! آپ ﷺ مجھے اجازت دیتے تو میں خولہ کو طالق دیتا، رہبانیت اختیار کرتا، اپنے آپ کو خصی کرلیتا، گوشت کو اپنے اوپر حرام کرلیتا، رات کو کبھی بھی نہ سوتا اور دن کو کبھی بھی افطار نہ کرتا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” میری سنت میں سے نکاح بھی ہے، اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں میری امت کی رہبانیت اللہ کی راہ میں جہاد ہے، میری امت کا خصی ہونا روزہ رکھنا ہے، اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تم پر حلال کی ہیں انہیں اپنے اوپر حرام نہ کرو۔ میری سنت یہ بھی ہے کہ میں سوتا ہوں، میں قیام کرتا ہوں، میں روزہ افطار کرتا ہوں اور روزہ رکھتا بھی ہوں۔ جو میری سنت سے اعراض کرے تو وہ مجھ سے نہیں “ (1) ۔ حضرت عثمان ؓ نے عرض کی : اے اللہ کے نبی ! میں پسند کرتا ہوں کہ میں یہ جانوں کہ کونسی تجارت اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب ہے ؟ تو میں وہ تجارت کروں تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ایک قول یہ کہا گیا ہے۔ ادلکم کا معنی ہے میں عنقریب تمہیں بتائوں گا۔ تجارت سے مراد جہاد ہے ؛ اللہ تعالیٰ کا فرمانا ہے : انا للہ ……(التوبہ : 111) یہ خطاب تمام مومنوں کو ہے۔ ایک قول یہ کہا گیا ہے : یہ خطاب اہل کتاب کو ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ تنجیکم من عذاب الیم۔ تمہیں دردناک عذاب سے چھٹکارہ دلائے۔ اس کے بارے میں بحث پہلے گزر چکی ہے۔ عام قراءت تنجیکم ہے۔ حضرت حسن بصری، ابن عامر اور ابو حیوہ نے تنجیکم مشدد پڑھا ہے یہ تنجیہ سے مشتق ہے پتھر تجارت کی وضاحت کی۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ تومنون ……اموال کا پہلے ذکر کیا کیونکہ خرچ کرنے کا سلسلہ اس سے شروع ہوتا ہے۔ ذلکم، خیر لکم تمہارا یہ فعل تمہارے اموال اور تمہاری ذاتوں سے بہتر ہے۔ ان کنتم تعلمون، مبرد اور زجاج کے نزدیک تومنون، امونا کے معنی میں ہے اسی وجہ سے جواب امر کے طور پر یغفرلکم مجروم ہے۔ عبد اللہ کی قراءت میں امنوا باللہ ہے۔ فراء نے کہا یغفرلکم استفہام جواب ہے۔ یہ اس صورت میں صحیح ہوگا جب اسے معنی پر محمول کریں یہ صورت اس وقت ہوگی جب تومنون باللہ وتجاھدون، ھل ادلکم علی تجارۃ ……۔ کا عطف بیان ہوگو یا تجارت کا پتہ نہیں تھا وہ کیا ہے ؟ تو ایمان و جہاد اس کا بیان ہے۔ گویا فرمایا : کیا تم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو اور جہاد کرتے ہو اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے گا۔ زمحشری نے کہا : دلالت کا متعلق تجارت (2) اور تجارت کی تفسیر ایمان و جہاد سے بیان کی گئی ہے گویا فرمایا : کیا تم ایمان و جہاد کے ساتھ تجارت کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے گا۔ مہدوی نے کہا : اگر تو اس کلام کو مقدر نہ کرے تو مسئلہ صحیح نہ ہوگا تقدیر کلام یوں ہوگی، ان دللتم یغفرلکم، غفران کی صفت قبول و ایمان سے لگائی گئی ہے، دلالت کے ساتھ اس کی صفت نہیں لگائی گئی۔ زجاج نے کہا : اس طرح نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ انہیں ایسی چیز پر راہنمائی کرے جو انہیں بخش دے بیشک اللہ تعالیٰ انہیں بخشا جب وہ ایمان لائیں اور جہاد کریں۔ زید بن علی نے تومنو اور وتجاھدوا قرقاء تک ہے یعنی لام امر مضمر ہے ؛ جس طرح شاعر کا قول ہے : اے محمد ! یہ نفس تیرے نفس پر فدا ہوجائے جب تو کسی چیز سے ہلاکت کا خوف کرے۔ مراد لتفد ہے۔ بعض نے ادغام کیا اور کہا : یغفرلکم بہترین ادغام کو ترک کرنا ہے کیونہ راء حرف متکر رہے، قوی ہے اس کا ادغام لام میں اچھا نہیں کیونکہ اقوی کو اضعف میں مدغم نہیں کیا جاتا… مسئلہ نمبر 4 ۔ ومسکن طیبۃ ابو الحسین آضری نے حضرت حسن بصری نے روایت نقل کی ہے کہا : میں نے حضرت عمران بن حصین اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے اس آیت ومسکن طیبۃ کی تفسیر کے بارے میں پوچھا دونوں نے کہا : باخبر آدمی کے پاس تو پہنچا ہے۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا فرمایا :” جنت میں یہ موتی سے بنا محل ہے جس میں سرخ یا قوت کی سر حویلیاں ہونگی اور ہر حویلی میں ستر سبز زجر جد کے کمرے ہونگے، ہر کمرے میں ستر پلنگ ہونگے، ہر پلنگ پر مختلف قسم کے ستر بستر ہونگے اور ہر بستر پر ستر حوریں ہونگی، ہر کمرے میں ستر دستر خوان ہونگے، ہر دستر خوان پر ستر قسم کے کھانے ہونگے، ہر کمرے میں ستر خادم اور خادمائیں ہونگی اللہ تعالیٰ ہر مومن کو ایک دن میں اتنی قوت عطا کرے گا جس کے باعث تمام حوروں کے پاس جاسکے گا “ (1) ۔ فی جنت عدن کا معنی ٹھہرنا ہے۔ زلک الفوز العظیم۔ یہ دائمی اور بڑی سعادت ہے۔ کامیابی کی اصل یہ ہے کہ انسان دائمی چیز حاصل کرے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ واخری تحبونھا فراء اور اخفش نے کہا : اخری کا عطف تجارۃ پر ہے۔ یہ محل جر میں ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا محل رفع ہے، تقدیر کلام یہ ہوگی لکم خسلہ……۔ نصر من اللہ تقدیر کلام یہ ہے۔ ھو نصر من اللہ۔ اس تعبیر کی صورت میں نصر، اخری کی تفسیر ہے۔ ایک قول یہ کیا گی ا ہے۔ نصر، اخری سے بدل ہونے کی حیثیت سے مرفوع ہے، تقدیر کلام یہ ہوگی۔ ولکم ……۔ یعنی دنیا میں غنیمت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد فتح مکہ ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا : مراد ایران اور روم کی فتح ہے (2) ۔ وبشر المومنین۔ مومنوں کو بشارت دو کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے۔
Top