Al-Qurtubi - Al-An'aam : 90
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو هَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ فَبِهُدٰىهُمُ : سو ان کی راہ پر اقْتَدِهْ : چلو قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَسْئَلُكُمْ : نہیں مانگتا میں تم سے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجرت اِنْ : نہیں هُوَ : یہ اِلَّا : مگر ذِكْرٰي : نصیحت لِلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان والے
یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدیات دی تھی تو تم انھی کی ہدایت کی پیروی کرو۔ کہہ دو کہ میں تم سے اس (قرآن) کا صلہ نہیں مانگتا۔ یہ تو جہان کے لوگوں کے لیے محض نصیحت ہے۔
آیت نمبر : 90 قولہ تعالیٰ : آیت : فبھدٰھم اقتدی اقتدا کا معنی ہے : طلب موافقۃ الغیر فی فعلی کسی غیر کے فعل میں اس کی موافقت اور پیروی کرنا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے اصبر کما صبروا تم صبر کرو جیسے انہوں نے صبر کیا۔ اور یہ قول بھی ہے کہ فبھدٰھم اقتدہ کا معنی ہے تم توحید اور احکام شرعیہ میں ان کی پیروی کرو، حالانکہ وہ احکام مختلف ہیں۔ بعض علماء نے اس آیت سے ان انبیاء علیھم السلام کی شرائع کی پیروی اور اتباع واجب ہونے پر استدلال کیا ہے ان امور میں جن میں نص موجود نہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ ربیی کی بہن ام حارثہ نے ایک آدمی کو زخمی کردیا تو ان کا جھگڑا حضور نبی مکرم ﷺ تک جا پہنچا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” قصاص لازم ہے، قصاص لازم ہے “۔ تو ام الربیع نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا فلانہ سے قصاص لیا جائے گا ؟ قسم بخدا اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” سبحان اللہ اے ام الربیع ! قصاص تو کتاب اللہ کا حکم ہے “۔ اس نے عرض کی : قسم بخدا ! اس سے کبھی قصاص نہیں لیا جائے گا۔ راوی نے بیان کیا : پس وہ اپنے (موقف پر) قائم رہی یہاں تک کہ انہوں نے دیت کو قبول کرلیا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ان من عباد اللہ من لو اقسم علی اللہ لا برہ (بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ کسی کام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا لیں تو وہ اسے یقینا پوری فرما دیتا ہے) پس رسول اللہ ﷺ نے اسے اس قول باری تعالیٰ پر موقوف کردیا۔ آیت : وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس (المائدہ : 45) ( اور ہم نے لکھ دیا تھا یہود کے لیے تورات میں (یہ حکم) کے جان کے بدلے جان) اور کتاب اللہ میں اس آیت کے سوا کہیں بھی دانت کے قصاص کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں، اور یہ تورات کے حکم کے بارے خبر ہے اور اس کے باوجود آپ نے اس کے ساتھ فیصلہ کیا اور اس پر اسے موقوف کردیا۔ اور امام مالک اور امام شافعی رحمہما للہ کے بڑے بڑے اصحاب نے یہی موقف اختیار کیا ہے، اور یہ کہ جو کچھ اس میں پایا گیا ہے اس کے مطا ابق عمل کرنا واجب ہے۔ ابن بکیر نے کہا ہے : یہی وہ ہے جس کا تقاضا امام مالک (رح) کے اصول کرتے ہیں اور اس میں بہت سے اصحاب مالک، اصحاب شافعی اور معتزلہ نے اختلاف کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : لکل جعلنا منکم شرعۃ و منھاجا (المائدہ : 48) ( ہر ایک کے لیے بنائی ہے ہم نے تم میں سے ایک شرعیت اور عمل کی راہ) اور اس میں کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے، کیونکہ یہ تقیید کا احتمال رکھتی ہے، سوائے ان امور کے جن کی اخبار تم پر بیان کی گئیں اور ان کا ذکر تمہاری کتاب میں موجود نہیں۔ اور صحیح بخاری میں حضرت عوام ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت مجاہد (رح) سے سورة ص کے سجدہ کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سورة ” ص “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا : کیا تو یہ پڑھتا ہے آیت نمبر 83 تا 90 اور حضرت داؤد (علیہ السلام) ان میں ہیں جن کی پیروی کرنے کا حکم تمہارے نبی مکرم ﷺ کو دیا گیا۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورة ص، حدیث نمبر 4433، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، مسند امام احمد، حدیث نمبر 3388) مسئلی نمبر 2۔ حمزہ اور کسائی نے اقتدہ قل وصل کلام میں بغیر ہا کے پڑھا ہے اور ابن عامر نے قتدھی قل قرأت کی ہے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ غلط ہے، کیونکہ ہا حالت وقف میں بیان حرکت کے لیے ہوتی ہے اور ہا کے ساتھ اور نہ اس کے بعد کوئی واو یا یا مضمر ہے۔ اور اسی طرح یہ بھی جائز نہیں فبھدٰھم اقتدی قل اور جس نے غلطی سے اجتناب کیا ہے اور سواداعظم کی اتباع اور پیروی کی ہے تو اس نے فبھدٰھم اقتدی پڑھا ہے۔ پس اس نے وقف کیا ہے اور وصل نہیں کیا۔ کیونکہ اگر وہ ہا کے ساتھ وصل کرے تو یہ غلطی ہے اور اگر اسے حذف کرے تو یہ سواداعظم کی مخالفت ہے اور جمہور نے حالت وصل میں نیت وقف سے نہ نیت ادراج کی بنا پر رسم الخط میں اس کے ثابت ہونے کی اتباع کرتے ہوئے اسے ہا کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور ابن عیاش اور ہشام نے اقتدی قل ہا کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ غلط ہے عربی میں جائز نہیں ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : قل لا اسلئلکم علیہ اجرا یعنی میں تم سے اس (تبلیغ) قرآن پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ ان ھو یعنی یہ قرآن نہیں ہے۔ آیت : الا ذکری للعلمین مگر یہ مخلوق کے لیے نصیحت ہے۔ اور ہدایت کی نسبت ان کی طرف کی اور فرمایا فبھدٰھم اقتدی ان کے سبب ہدایت واقع ہونے کی وجہ سے (انہیں کے طریقہ کی پیروی کرو) اور فرمایا : آیت : ذلک ھدی اللہ یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے، کیونکہ وہی ہدایت کا خالق ہے۔
Top