Al-Qurtubi - Al-An'aam : 8
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌ١ؕ وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْ : کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہیں اتارا گیا عَلَيْهِ : اس پر مَلَكٌ : فرشتہ وَلَوْ : اور اگر اَنْزَلْنَا : ہم اتارتے مَلَكًا : فرشتہ لَّقُضِيَ : تو تمام ہوگیا ہوتا الْاَمْرُ : کام ثُمَّ : پھر لَا يُنْظَرُوْنَ : انہیں مہلت نہ دی جاتی
اور کہتے ہیں کہ ان (پیغمبر ﷺ پر فرشتہ کیوں نازل نہ ہوا (جو انکی تصدیق کرتا) اگر ہم فرشتہ نازل کرتے تو کام ہی فیصل ہوجاتا پھر انھیں (مطلق) مہلت نہ دی جاتی
آیت نمبر : 8 تا 10۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وقالوا لولاانزل علیہ ملک “۔ یہ بھی انہوں نے تجویز کی۔ لولا بمعنی ھلا ہے، (آیت) ” ولو انزلنا ملکا نقضی الامر “۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اگر وہ فرشتے کو اپنی صورت میں دیکھتے تو مر جاتے کیونکہ وہ اس کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے، مجاہد اور عکرمہ نے کہا : تو قیامت قائم ہوجاتی، حسن اور قتادہ نے کہا : وہ عذاب کے ساتھ ہلاک کیے جاتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری فرمائی ہے کہ جس نے کوئی نشانی طلب کی پھر وہ اس کے لیے ظاہر کردی گئی اور وہ ایمان نہ لایا تو اللہ تعالیٰ نے اسے فورا ہلاک کردیا (آیت) ” ثم لا ینظرون “۔ یعنی انہیں مہلت نہیں دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولو جعلنہ ملکا لجعلنہ رجلا “۔ یعنی وہ فرشتے کو دیکھنے کی طاقت نہ رکھتے مگر مجسم ہونے کے بعد کو ین کہ ہر جنس اپنی جنس سے مانوس ہوتی ہے اور دوسری جنس سے دور ہوتی ہے، اگر اللہ تعالیٰ انسانوں کا رسول فرشتہ کو بناتا تو وہ اس کے قرب سے دور ہوتے اور اس سے مانوس نہ ہوتے اور اس کی کلام سے رعب داخل ہوتا تو یہ چیز انہیں اس سے کلام کرنے اور سوال کرنے انہیں روک دیتی اور مصلحت عام نہ ہوتی۔ اور اگر اللہ تعالیٰ اسے ملائکہ کی صورت سے انسانوں کی صورت کی طرف منتقل کرتا تاکہ وہ اس سے مانوس ہوں اور اس سے سکون پائیں تو تو یہ کہتے تو فرشتہ نہیں ہے تو تو بشر ہے ہم تجھ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ پہلے حال کی طرف لوٹ جاتے، ملائکہ انبیاء کرام کے پاس انسانی شکل میں آتے تھے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آدمیوں کی شکل میں آئے تھے اور جبریل امین نبی مکرم ﷺ کی خدمت میں حضرت دحیہ کلبی کی شکل میں کی شکل آتے تھے یعنی اگر فرشتہ نازل ہوتا تو وہ اسے انسانی شکل میں دیکھتے جیسا کہ انبیاء کی عادت جاری ہے اور اگر وہ اپنی عادت پر نازل ہوتا تو وہ اسے نہ دیکھ سکتے اور جب ہم اسے انسان بنا کر بھیجتے تو ان مشتبہ ہوجاتا اور وہ کہتے : یہ تو تیری طرح جادوگر ہے۔ زجاج نے کہا : (آیت) ” وللبسنا علیھم “ یعنی ہم ان کے رؤساء پر مشتبہ کردیتے جس طرح وہ اپنے کمزور لوگوں پر مشتبہ ہوتے تھے وہ انہیں کہتے تھے : محمد ﷺ بشر ہیں اس کے اور تمہارے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ اس طرح ان پر معاملہ مشتبہ کرتے اور وہ انہیں شک میں مبتلا کرتے اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ اگر وہ انسانی شکل میں فرشتہ نازل کرتا تو وہ التباس کا راستہ پاتے جیسا کہ وہ کرتے ہیں اللبس کا معنی مشتبہ کرنا اور خلط ملط کرنا ہے، لبست علیہ الامر، البسہ لبسا یعنی میں نے اس پر خلط ملط کردیا، اس کا اصل معنی کپڑے کے ساتھ ڈھانپنا ہے اور فرمایا للبسنا اپنی طرف نسب کی تخلیق کی جہت پر اور (آیت) ” یلبسون “ فرمایا ان کی طرف نسب کی اکتسباب کی جہت پر پھر اپنی نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : (آیت) ” ولقداستھزی برسل من قبلک فحاق “ یعنی جنہوں نے اپنے انبیاء استہزاء کیا اس کی سزا کے طور پر عذاب نازل کرکے انہیں ہلاک کیا گیا، حاق بالشی یحیق حیقا وحیوقا وحیقانا “ اس کا معنی ہے اترنا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا یحیق المکر السیء الا باھلہ “۔ (فاطر : 43) اور نہیں گھیرتی گھناؤنی سازش بجز سازشیوں کے۔ (آیت) ” ماکانو ا “ میں ما بمعنی الذی ہے بعض نے فرمایا : مامصدریہ ہے یعنی اس کے استہزا کے انجام نے انہیں گھیر لیا
Top