Al-Qurtubi - Al-An'aam : 75
وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُرِيْٓ : ہم دکھانے لگے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم مَلَكُوْتَ : بادشاہی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلِيَكُوْنَ : اور تاکہ ہوجائے وہ مِنَ : سے الْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور ہم اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھانے لگے تاکہ وہ خوب یقین کرنے والوں میں ہوجائیں
قولہ تعالیٰ : آیت : وخذلک نری ابراھیم ملکوت السموٰت والارض یعنی ملکوت بمعنی ملک ( بادشاہی) ہے اور معنی صفت میں اظہار مبالغہ کے لیے واؤ اور تا کا اضافہ کردیا گیا ہے اور اسی کی مثل رغبوت، رھبوت اور جبروت ہیں (معانی القرآن للزجاج، جلد 2، صفحہ 265 ) ۔ اور ابو السمال العدوی نے لام ساکن کے ساتھ ملکوت پڑھا ہے۔ اور سیبویہ کے نزدیک فتحہ کو خفیف ہونے کی بنا پر حذف کرنا جائز نہیں ہے۔ اور شاید یہ اس میں ایک لغت ہے اور نری بمعنی أرینا ہے، پس یہ ماضی کے معنی میں ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد آسمانوں میں ملائکہ کی عبادت اور دیگر عجائب قدرت (کا دکھانا) ہے اور زمین میں اولاد آدم کی عصیاں شعاری (دکھانا) ہے، پس آپ جسے گناہ اور نافرمانی کرتے ہوئے دیکھتے تھے اس کے لیے بددعا کرنے تو اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کردیتا، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی : اے ابراہیم ! میرے بندوں سے رک جا، ( یعنی ان کی ہلاکت کی دعا نہ کیا کر) کیا تم جانتے نہیں کہ میرے اسماء میں سے الصبور (بہت زیادہ صبر کرنے والا) بھی ہے ؟ اسی کے ہم معنی روایت حضرت علی ؓ نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کی ہے۔ (تفسیر الدر المثور، جلد 3، صفحہ 24 ) اور یہ بھی کہا گیا ہے : اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے آسمانون اور زمین کو ظاہر فرمادیا یہاں تک کہ عرش اور سب سے نیچے والی زمین کو بھی۔ اور ابن جریج نے قاسم سے اور انہوں نے حضرت ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : آپ (علیہ السلام) کے لیے ساتوں آسمان کھول دئیے گئے تو آپ نے ان کی طرف دیکھا یہاں تک کہ آپ کی نظر عرش تک پہنچ گئی اور آپ (علیہ السلام) کے لیے زمینوں کو کھول دیا گیا اور آپ نے ان کی طرف دیکھ لیا (معانی القرآن للنحاس، جلد 2، صفحہ 449، تفسیر طبری، جلد 9، صفحہ 349) اور آپ نے جنت میں اپنا محل بھی ملاحظہ فرمایا۔ پس اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت : واتینٰہ اجرہ فی الدنیا ( العنکبوت : 27) ( اور ہم نے دیا ان کو ان (کی جانثاری) کا اجر اس دنیا میں) یہ حضرت سدی (رح) سے مروی ہے اور حضرت ضحاک (رح) نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان کی بادشاہی میں سے وہ دکھائی جو کچھ اس نے ستاروں کے بارے بیان کیا ہے اور زمین کی بادشاہی میں سے سمندر، پہاڑ اور درخت دکھائے اور اسی طرح کی چیزوں کے بارے استدلال کیا گیا ہے۔ اور اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے اور فرمایا : جب آپ کی ولادت ہوئی تو آپ کو تہہ خانہ میں رکھا گیا اور آپ کا رزق آپ کی انگلیوں کے اطراف (پوروں) میں رکھ دیا گیا پس آپ انہیں چوستے رہتے تھے، نمرو لعین نے ایک خواب دیکھا تھا اور اس کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ اس کی بادشاہی اس بچے کے ہاتھوں ختم ہوجائے گی جو ابھی پیدا ہوگا، تو اس نے مردوں کو عورتوں سے الگ رہنے کا حکم دے دیا۔ اور یہ بھی قول ہے کہ اس نے پیدا ہونے والے ہر بچے کو قتل کرنے کا حکم دے۔ آزر نمبرود کے مقربین میں سے تھا اس نے اسے ایک دن اپنے کسی کام کے لیے بھیجا تو اس دوران اس نے اپنی بیوی سے مجامعت کرلی اور وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے حاملہ ہوگئی۔ اور یہ قول بھی ہے : بلکہ اس نے بت خانہ میں اس کے ساتھ مجامعت کی اور وہ حاملہ ہوگئی اور اسی وقت اس کے سامنے بت گر گئے، پس اس نے اسے ایک قبیلے میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جنم دیا، اور آزر نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے زمین میں ایک تہہ خانہ کھودا اور اس کے دروازے پر ایک چٹان رکھ دی تاکہ درندے اسے پھاڑ نہ دیں۔ آپ کی ماں آپ کے پاس آتی رہتی تھی اور دودھ پلا دیتی تھی اور وہ انہیں اپنی انگلیاں چوستے ہوئے پاتی تھیں، ان میں ایک میں شہد تھا، ایک میں پانی تھا اور ایک میں دودھ آتا تھا، اور آپ نشوونما پاتے گئے، پس آپ ایک سال کی عمر میں تین سال کے لگتے تھے۔ پس جب اس نے آپ کو تہہ خانہ سے نکالا تو لوگوں کو اس سے وہم ہوا کہ یہ تو دو سال قبل پیدا ہوئے، تو آپ نے اپنی ماں سے پوچھا : میرا رب کون ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : میں۔ پھر آپ نے پوچھا : تیرا رب کون ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : تیرا باپ۔ آپ نے پھر سوال کیا : اس کا رب کون ہے ؟ اس نے جواب دیا : نمبرود۔ آپ نے پھر کہا : اور اس کا رب کون ہے ؟ تو اس نے آپ کو تھپڑ دے مارا اور وہ جان گئی کہ یہی وہ بچہ ہے جس کے ہاتھوں ان کی بادشاہی ختم ہوجائے گی۔ امام کسائی کی کتاب ” قصص الانبیائ “ میں یہ مکمل قصہ موجود ہے اور قصص میں اسی کتاب کی پیروی کی جاتی ہے۔ اور بعض نے کہا ہے : آپ کا مولد حران ہے لیکن آپ کے باپ نے آپ کو سر زمین بابل کی طرف منتقل کردیا۔ اور اسلاف میں سے عام اہل علم نے کہا ہے : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نمرود بن کنعان بن سخا ریب بن کوش بن سام بن نوح کے زمانہ میں پیدا ہوئے۔ اس کا ذکر سورة البقرہ میں گزر چکا ہے۔ طوفان نوح اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت کے درمیان ایک ہزار دو سو تریسٹھ برس کا فاصلہ تھا۔ اور وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے تین ہزار تین سو اکتیس برس بعد تھا۔
Top