Al-Qurtubi - Al-An'aam : 69
وَ مَا عَلَى الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ لٰكِنْ ذِكْرٰى لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَمَا : اور نہیں عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَّقُوْنَ : پرہیز کرتے ہیں مِنْ : سے حِسَابِهِمْ : ان کا حساب مِّنْ : کوئی شَيْءٍ : چیز وَّلٰكِنْ : اور لیکن ذِكْرٰي : نصیحت کرنا لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : ڈریں
اور پرہیزگاروں پر ان لوگوں کے حساب کی کچھ بھی جواب دہی نہیں ہاں نصیحت تاکہ وہ بھی پرہیزگار ہوں
آیت :69 حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : جب یہ حکم نازل ہوا کہ آپ مشرکین کے ساتھ نہ بیٹھیں اور ارشاد باری تعالیٰ : آیت : فاعرض عنی۔ سے یہی مراد ہے تو مسلمانوں نے کہا : ہمارے لیے مسجد میں داخل ہونا اور طواف کرنا ممکن نہ رہے گا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت : ولکن ذکری یعنی اگر مومنین ان کے پاس بیٹھیں تو پھر چاہیے کہ وہ انہیں نصیحت کریں۔ آیت : لعلھم یتقون تاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اسے ترک کرنے کے بارے ڈرتے رہیں جس میں وو واقع ہوئے ہیں۔ (المحرر الوجیز) پھر بھی کہا گیا ہے کہ یہ حکم اس ارشاد ربانی کے ساتھ منسوخ ہے : آیت : وقد نذل علیکم فی الکتٰب ان اذا سمعتم ایت اللہ یکفربھا ویستھزا بھا فلا تقعدوا معھم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ (النسائ : 140) اور تحقیق اتارا ہے اللہ تعالیٰ نے تم پر (حکم) کتاب میں کہ جب تم سنو اللہ کی آیتوں کو کہ انکار کیا جا رہا ہے ان کا تو مت بیٹھو ان (کفر و استہزا کرنے والوں) کے ساتھ کہ وہ مشغول ہوجائیں کسی دوسری بات میں “ (تفسیر طبری، جلد 9، صفحہ 315) یہ فتح (مکہ) سے پہلے رخصت تھی اور وہ وقت احتیاط و تحفظ کا وقت تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول کے ساتھ اس طرف اشارہ کیا ہے ؟ آیت : وقد نزل علیکم فی الکتٰب تا قولہ وزر الذین اتخذوا دینھم لعبا ولھوا۔ علامہ قشیری نے کہا ہے : اظہر یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے اور معنی یہ ہے : مشرکین کے حساب میں سے کوئی شی تم پر واجب نہیں ہے، پس تم پر انہیں نصیحت کرنا لازم ہے اور انہیں زجر ونتبیہ کرنا لازم ہے، پھر اگر وہ انکار کردیں تو ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ ذکری مصدر ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ محل رفع میں ہو۔ ای ولکن الذی یفعلونہ ذکری، ای ولکن علیھم ذکری اور کسائی نے کہا ہے : معنی یہ ہے ولکن ھذی ذکری (البتہ یہ نصیحت ہے)
Top