Al-Qurtubi - Al-An'aam : 63
قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ۚ لَئِنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں مَنْ : کون يُّنَجِّيْكُمْ : بچاتا ہے تمہیں مِّنْ : سے ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْبَرِّ : خشکی وَالْبَحْرِ : اور دریا تَدْعُوْنَهٗ : تم پکارتے ہو اس کو تَضَرُّعًا : گڑگڑا کر وَّخُفْيَةً : اور چپکے سے لَئِنْ : کہ اگر اَنْجٰىنَا : بچا لے ہمیں مِنْ : سے هٰذِهٖ : اس لَنَكُوْنَنَّ : تو ہم ہوں مِنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر ادا کرنے والے
کہو بھلا تم کو جنگلوں اور دریاؤں کے اندھیروں سے کون مخلصی دیتا ہے (جب) کہ تم اس سے عاجزی اور نیاز پنہانی سے پکارتے ہو (اور کہتے ہو) اگر خدا ہم کو اس تنگی سے نجات بخشے تو ہم اسکے بہت شکرگزار ہوں
: (آیت) 63، 64۔۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) قل من ینجیکم من ظلمٰت البر والبحر (اس میں ظلمات سے مراد) خشکی اور سمندر کی تکالیف اور مصیبتیں ہیں : کہا جاتا ہے : یوم مظلم یعنی شدید اور مشقت آمیز دن۔ نحاس نے کہا ہے : عرب کہتے ہیں : یوم مظلم جب دن شدید اور سخت ہو، اور اگر دن کی شدت بہت زیادہ بڑھ جائے تو پھر کہتے ہیں : یوم ذوکواکب (یعنی ایسا دن جس میں ستارے نظر آئیں، اس میں مراد شدت اور تکلیف ہوتی ہے) اور سیبویہ نے کہا ہے : بنی اسد ھل تعلمون بلائنا اذا کان یوم ذوکواکب اشنعا ” اے بنی اس ! کیا تم ہماری آزمائش اور مصیبت کو جانتے ہو، جب دن ستاروں والا ہو تو وہ انتہائی شنیع اور تکلیف دہ ہوتا ہے “۔ ظلمٰت کو جمع اس بنا پر لایا گیا ہے، کیونکہ اس سے مراد خشکی کی تاریکی، سمندر کی تاریکی، رات کی تاریکی اور بادلوں کی تاریکی ہے، یعنی جب تم غلب راستے پر گامزن ہوجاؤ اور تمہیں ہلاکت کا خوف اور ڈر ہو تو تم اسے چھوڑ دو ۔ لئن انجٰنا من ھذہ اگر تو نے ہمیں ان مصائب سے نجات دی۔ لنکونن من الشٰکرین تم ہم ضرور شکر گزار اور فرمانبردار بندے ہوجائیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے شدائد و مصائب کے وقت اسے پکارنے پر انہیں ملامت کی اور جھڑکا۔ کیونکہ وہ آرام اور خوشحالی کی حالت میں اس کے ساتھ اوروں کو بھی پکارتے ہیں۔ جیسا کہ اس نے فرمایا۔ : (آیت) ثم انتم تشرکون (پھر تم شریک ٹھہراتے ہو) اعمش نے وخیفۃ پڑھا ہے یہ خوف سے ماخوذ ہے، اور ابوبکر نے حضرت عاصم سے خفیۃ خاء کے کسرہ کے ساتھ قرآت کی ہے اور باقیوں نے اسے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ دونوں لغتیں ہیں اور فراء نے خفوۃ اور خفوۃ کا اضافہ کیا ہے اور کہا ہے : اس کی نظیر حبیہ، حبیۃ، حبوۃ اور حبوۃ ہے۔ اور اعمش کی قرأت بہت بعید ہے۔ کیونکہ تضرعا کا معنی ہے کہ تم گڑ گرا نے (اور انتہائی عجز و انکساری) کا اظہار کرو اور خفیۃ کا معنی ہے کہ تم اسی کی مثل چھپاؤ (اور پانے اندر رکھو) اور کو فیوں نے لئن أنجانا پڑھا ہے۔ اور معنی کا سیاق تو تا کے ساتھ ہے جیسا کہ اہل مدینہ اور اہل شام نے قرآت کی ہے۔ قولہ تعالیٰ :: (آیت) قل اللہ ینجیکم منھا ومن کل کرب کو فیوں نے اسے تسدید کے ساتھ ینجیکم پڑھا ہے اور باقیوں نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ کہا گیا ہے : دونوں کا معنی ایک ہے جیسا کہ نجا، أنجیتہ اور نجتہ ہم مینی ہیں۔ اور کہا گیا ہے : تشدید، کثرت کا معنی بیان کرنے کے لیے ہے۔ اور الکرب کا معنی وہ غم ہے جو نفس کر پکڑ لیتا ہے، اسی سے کہا جاتا ہے : رجل مکروب (غمزدہ آدمی) ۔ عنترہ نے کہا ہے : و مکروب کشفت الکرب عنہ بطعنۃ فیعل لما دعانی اور کر بۃ اسی سے مشتق ہے۔ قولہ تعالیٰ :: (آیت) ثم انتم تشرکون اس میں انہیں دھمکانا اور جھڑکنامقصود ہے، جیسا کہ سورت کی ابتدا میں ہے۔ : (آیت) ثم انتم تمترون۔ کیونکہ حجت جب معرفت کے بعد قائم ہو تو اخلاص واجب ہوتا ہے، اور انہوں نے اس کا بدل بنا لیا اور وہ اشراک (شرک کرنا) ہے۔ پس یہ اچھا ہے کہ انہیں اس جہت پر جھڑکا جائے اور انہیں ڈرایا دھمکایا جائے اگرچہ وہ نجات سے پہلے مشرک تھے۔ : (آیت) یعنی وہ تمہیں کرب اور مصیبت سے نجات دلانے پر بھی قادر ہے اور تمہیں عذاب دینے پر بھی۔ اور : (آیت) من فوقکم کا معنی ہے (اوپر سے) پتھر برسانا، طوفان، سخت چیخ اور ہوا، جیسا کہ اس نے عاد، ثمود، حجرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم، حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم، اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے ساتھ کیا۔ یہ حضرت مجاہد اور حضرت انب جبیر وغیرہما سے مروی ہ۔ : (آیت) اومن تحت ارجلکم اس سے مراد خسف (زمین میں دھنسانا) اور زلزلہ وغیرہ ہے جیسا کہ اس نے قرون اور اصحاب مدین کے ساتھ کیا۔ اور یہ بھی کیا گیا ہے کہ : (آیت) من فوقکم سے مراد ظلم کرنے والے امراء (اور حکمران) ہیں۔ اور : (آیت) اومن تحت ارجلکم سے مراد سفلہ مزاج اور برائی کرنے والے غلام ہیں۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت مجاہد (رح) سے بھی مروی ہے۔ او یلبسکم شعیا اور ابو عبداللہ مدنی سے او علبسکم یا کے ضمہ کے ساتھ مروی ہے۔ یعنی وہ تمہیں عذاب کے ساتھ ڈھانپ دے (تم پر عذاب مسلط کر دے) اور اسے تم پر عام کر دے، اور یہ لفظ اللبس (لام کے ضمہ کے ساتھ) سے ماخوذ ہے۔ اور فتحہ کر قرأت اللبس سے ماخوذ ہے یہ مشکل مقام ہے اور اعراب اس کی وضاحت کر رہا ہے۔ یعنی وہ تم پر تمہارا معاملہ خلط ملظ کر دے، پس دو مفعولوں میں سے ایک کو اور حرف جر کو حذف کردیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے : (آیت) واذا کالوھم او وزنوھم (مطففین : 3) (یعنی ان میں بھی مذکورہ حذف موجود ہے) اور یہ اختلاط یہ ہے کہ وہ ان کے معاملے کو خلط ملط کر دے اور ان کی خواہشات اور چاہت میں اختلاف پیدا کر دے۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ یلبسکم شیعا کا معنی ہے کہ وہ تمہارے دشمن کو قوی کر دے یہاں تک کہ وہ تم میں مخلوط ہوجائے اور جب وہ تمہارے ساتھ آ ملے تو تحقیق وہ تم میں خلط ملط ہوگیا (اور تم پر قوت پکڑ گیا) ۔ شیعا کا معنی مختلف گروی اور فرقے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تمہارے مختلف گروہ بنا دے اور تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ قتال کرنے لگو۔ اور یہ ان کا معاملہ خلط ملط ہوجانے اور طلب دنیا پر ان کے امراء کے متفرق ہونے کے سبب ہے۔ اور اس ارشاد گرامی : (آیت) ویذیق بعضکم باس بعض کا یہی معنی ہے یعنی فتنہ میں جنگ و قتل کے ساتھ تم میں سے بعض کو دوسروں کی شدت چکھائے۔ یہ حضرت مجاہد ؓ سے مروی ہے۔ یہ آیت مسلمانوں اور کفار تمام کو عام ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کفار کے بارے میں خاص ہے اور حسن نے کہا ہے : یہ اہل صلوٰۃ (اہل قبلہ) کے بارے میں ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہی صحیح ہے کیونکہ عملا اور وجودا اس کا مشاہدہ کیا گیا ہے، ہم نے اپنے شہروں میں دشمن کے ساتھ اختلاط کیا اور اپنی جانوں اور اپنے مالوں کے والی بنے، ایسے فتنہ کے ساتھ جو ہم پر غالب اور مسلط رہتا کہ ہمارے بعض نے بعض کو قتل کیا اور بعض نے دوسروں کے مالوں کو مباح سمجھا۔ نعوذ باللہ من الفتن ما ظھر و ما بطن (ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں ایسے فتنوں سے جو ظاہر ہوئے اور جو ابھی تک ظاہر نہیں ہوئے۔ اور حضرت حسن سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے اس کی تاویل کی ہے جو کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے درمیان ہوا (تفسیر قرطبی، جلد 9، صفحہ 305) مسلم نے حضرت ثوبان ؓ سے روایت بیان کی ہے قال قال رسول اللہ ﷺ ان اللہ زوی لی الأرض فرأیت مشارقھا و مغاربھا وان أمتی سیبلغ ملکھا ما زوی لی منی و أعطیت الکننرین الأحمر والابیض الی آخر الحدیث۔ حضرت ثوبان ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین لپیٹ دی تو میں نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا اور عنقریب میری امت کی سلطنت اور حکومت وہاں تک پہنچ جاے گی۔ جہاں تک میرے لیے اسے لپیٹا گیا اور مجھے دو خزانے سرخ وسفید (سونا اور چاندی) عطا فرمائے گا اور میں نے اپنے پروردگار سے اپنی امت کے لیے یہ التجا کی ہے کہ وہ اسے عام قحط سالی کے سبب ہلاک نہ کرے اور یہ کہ وہ ان پر ایسے دشمن کو مسلط نہ کرے جو ان میں سے نہ ہو اور وہ ان کی اجتماعیت اور محل سلطانی کو مباح سمجھنے لگے۔ اور میرے رب نے فرمایا ہے : اے محمد ﷺ بلا شبہ میں جب کوئی فیصلہ کرلیتا ہوں تو اسے رد نہیں کیا جاتا۔ میں نے آپ کو آپ کی امت کے لیے یہ عطا فرما دیا کہ میں انہیں عام قحط سالی کے سبب ہلاک نہیں کروں گا اور یہ کہ میں ان پر کسی بیرونی دشمن کو مسلط نہیں کروں گا جو ان کی اجتماعیت اور محل سلطانی کو مباح سمجھ لے اگرچہ وہ ان پر اطراف واکناف سے جمع ہوجائے۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض بعض کو ہلاک کرنے لگیں اور بعض بعض کو قیدی بنالیں “۔ نسائی نے حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں حاضر تھے اور وہ ساری رات رسول اللہ ﷺ کی نگہبانی کرتے رہے یہاں تک کہ فجر ہوگئی، تو جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی نماز سے سلام پھیرا تو جناب خباب ؓ حاضر ہوئے اور عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں آُ نے آج کی رات ایسی نماز ادا کی ہے میں نے آپ کو اس طرح کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جی ہاں بلاشبہ یہ انتہائی عجز اور خوف کی نماز تھی میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین چیزوں کی التجا کی ہے کہ وہ ہمیں اس کے ساتھ ہلاک نہ کرے جس کے ساتھ اس نے پہلی امتوں کو ہلاک کیا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ مجھے عطا فرما دیا ہے (یعنی میری التجا کو قبول کرلیا ہے) اور میں نے اپنے رب سے یہ التجا کی ہے کہ وہ ہم پر کسی بیرونی دشمن کو غلبہ نہ دے، تو اس نے یہ بھی مجھے عطا فرما دیا ہے اور میں نے اپنے رب سے التجا کی ہے کہ وہ ہمیں مختلف گروہوں میں خلط ملط نہ کرے تو اللہ تعالیٰ نے اسے قبول نہیں فرمایا “۔ ہم نے یہ اخبار کتاب ” التذکرہ “ میں ذکر کی ہیں۔ والحمدللہ اور یہ روایت بھی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت جبریل امین (علیہ السلام) سے کہا : ” اے جبریل ! کیا میری امت کی بقا اسی پر ہے “ ؟ تو حضرت جبریل امین (علیہ السلام) نے عرض کی : بلا شبہ میں آپ کی مثل بندہ ہوں آپ اپنے رب سے دعا کیجئے اور اپنی امت کے لیے التجا کیجئے “۔ پس رسول اللہ ﷺ اٹھے، وضو فرمایا اور خوب اچھی طرح وضو کیا (نفل) نماز پڑھی اور خوب اچھی طرح نماز پڑھی، پھر (رب کریم کی بارگاہ میں) دعا کی تو حضرت جبریل امین (علیہ السلام) حاضر خدمت ہوئے اور عرض کی : یا محمد ان اللہ تعالیٰ سمع مقالتک واجارھم من خصلتین وھو العذاب من فوقھم ومن تحت أرجلھم (اے محمد ! ﷺ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو سنا ہے اور انہیں دو خصلتوں سے پناہ عطا فرما دی ہے اور عذاب ہے ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے) تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اے جبریل ! کیا میرے امت باقی رہے گی جب ان میں خواہشات مختلف ہیں اور وہ ان کے بعض کو بعض کی شدت چکھائے گا “۔ تو حضرت جبرئی امین (علیہ السلام) یہ آیت لے کر نازل ہوئے : : (آیت) احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا، الآیۃ (عنکبوت : 2) (الف لام، میم کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انہیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہیں ہم ایمان لے آئے اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا) ۔ حضرت عمرو بن دینار نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) قل ھو القادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم او من تحت ارجلکم تو رسول اللہ ﷺ نے کہا : اعوذ بوجہ اللہ (میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں (اس عذاب سے) اور جب یہ نازل ہوئی۔ : (آیت) او علبسکم شیعا ویذیق بعضکم باس بعض تو آپ نے کہا : ھاتان اھون ( یہ دونوں بہت آسان ہیں) اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ صبح و شام ان کلمان کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے : اللھم انی أسئلک العافیۃ فی الدنیا والآخرۃ (اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کی التجا کرتا ہوں) اللھم انی اسئلک العفو و العافیۃ فی دینی و دنیای اھلی ومالی (اے اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین، اپنی دنیا، اپنے گھر والوں اور اپنے مال کے لیے عفو اور عافیت کی التجا کرتا ہوں) ۔ اللھم استرعوراتی وآمن روعاتی وأحفظنی من بین دیدی ومن خلفی وعن یمینی وعن شمالی ومن فوقی وأعوذبک أن أغتال من تحتی (سنن ابن ماجہ، کتاب الدعائ، باب ما یدعوببہ الرجل اذا اصبح اذا امنی، حدیث نمبر 3860، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ ) (اے اللہ ! مجھے بےپردگی سے محفوظ فرما، مجھے خوف سے ِ ڈر سے امن عطا فرما، میرے سامنے سے، پیچھے سے، میرے دائیں اور بائیں سے اور میرے اوپر سے میری حفاطت فرما اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ میں اپنے نیچے کی جانب سے ہلاک ہوں) وکیع نے کہا ہے : اس سے مراد خسف (زمین میں دھنسنا) ہے۔ قولہ تعالیٰ :: (آیت) انظر کیف نصرف الایٰت دیکھو کیونکر ہم ان کے لیے حجتیں اور دلائل بیان کرتے ہیں۔ : (آیت) لعلھم یفقھون اس سے مراد اس شرک اور گناہوں کا بطلان ہے جن میں وہ مبتلا تھے۔
Top