Al-Qurtubi - Al-An'aam : 61
وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ یُرْسِلُ عَلَیْكُمْ حَفَظَةً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الْقَاهِرُ : غالب فَوْقَ : پر عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَيُرْسِلُ : اور بھیجتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر حَفَظَةً : نگہبان حَتّٰٓي : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَ : آپ پہنچے اَحَدَكُمُ : تم میں سے ایک۔ کسی الْمَوْتُ : موت تَوَفَّتْهُ : قبضہ میں لیتے ہیں اس کو رُسُلُنَا وَهُمْ : ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اور وہ لَا يُفَرِّطُوْنَ : نہیں کرتے کوتاہی
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے
آیت نمبر 61، 62 قولہ تعالیٰ : (آیت) وھو القاھر فوق عبادہ یعنی وہی عظمت اور رتبہ میں فوقیت رکھتا ہے (اس میں) مکان اور جہت کے اعتبار سے فوقیت مراد نہیں ہے، جیسا کہ اس کا بیان سورت کی ابتدا میں گزر چکا ہے۔ ویرسل علیکم حفظۃ یعنی ملائکہ میں سے نگہبان تم پر بھیجتا ہے۔ ارسال کا حقیقی معنی اطلاق الشیء بما حمل من الرسالۃ ہے ( یعنی کسی شی کو اس کے ساتھ چھوڑنا ہے جو وہ پیغام وغیرہ میں سے اٹھائے ہوئے ہو) پس مقصود ملائکہ کو اس حفاظت اور نگہبانی کی ذمہ داری کے ساتھ بھیجنا ہے جس کا انہیں حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : وان علیکم لحفظین (انفطار) یعنی ملائکہ بندوں کے اعمال کی نگہبانی کرتے ہیں اور آفات سے ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور حفظۃ حافظ کی جمع ہے، جیسا کہ کتبۃ کاتب کی جمع ہے۔ اور کہا جاتا ہے : یہ دو فرشتے رات کے وقت ہوتے ہیں اور دو فرشتے دن کے وقت ہوتے ہیں، ان میں سے ایک خیر اور نیکی لکھتا ہے اور دوسرا شر اور برائی لکھتا ہے، اور جب انسان چلتا ہے تو ان میں سے ایک اس کے آگے ہوجاتا ہے اور دوسرا اس کے پیچھے، اور جب بیٹھتا ہے تو ان میں سے ایک اس کی دائیں طرف ہوتا ہے اور دوسرا بائیں طرف۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے (آیت) عن الیمین وعن الشمال قعید الآیۃ (ق) ” (ان میں سے) ایک دائیں جانب اور (دوسرا) بائیں جانب بیٹھا ہوتا ہے “۔ اور کہا جاتا ہے : ہر انسان کے لیے پانچ فرشتے ہیں : دو رات کے وقت ہوتے ہیں اور دو دن کے ساتھ خاص ہیں اور پانچواں رات اور دن میں سے کسی بھی وقت اس سے جدا اور علیحدہ نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا ہے : ومن الناس من یعیش شقیا جاھل القلب غافل الیقظۃ ” اور لوگوں میں سے وہ بھی ہے جو شقاوت، جہالت قلب اور بیداری میں غافل رہتے ہوئے زندگی گزارتا ہے “۔ انما الناس راحل و مقیم فالذی بان للمقیم عظۃ ” بلاشبہ لوگ کوچ کررہے ہیں اور مقیم ہیں پس جو ظاہر ہے وہ مقیم کے لیے نصیحت ہے “ قولی تعالیٰ : (آیت) حتی اذا جآء احدکم الموت مراد موت کے اسباب کا آنا ہے، جیسا کہ سورة البقرہ میں گزر چکا ہے۔ توفتہ رسلنا جماعت کے مؤنث ہونے کی بنا پر فعل مؤنث مذکور ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ولقد جآء تھم رسلنا بالبینٰت (مائدہ : 32) اور کذبت رسل اور حمزہ نے جمع کے مذکر ہونے کی بنا پر اسے توفاہ رسلنا پڑھا ہے۔ اور اعمش نے تتوفاہ رسلنا تاء کی زیادتی کے ساتھ پڑھا ہے اور مراد ملک الموت (علیہ السلام) کے معاونین اور مددگار ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ نے یہی کہا ہے۔ اور روایت ہے کہ وہ روح کو جسم سے آہستہ آہستہ نکالتے ہیں یہاں تک کہ جب اس کے قبض کا وقت ہوتا ہے تو ملک الموت (علیہ السلام) اسے قبض کرلیتے ہیں۔ (تفسیر طبری، جلد 9، صفحہ 291) اور کلبی نے کہا ہے : حضرت ملک الموت (علیہ السلام) جسم سے روح قبض کرتے ہیں پھر اسے ملائکہ رحمت کے حوالے کردیتے ہیں اگر وہ مومن ہو یا ملائکہ عذاب کے سپرد کردیتے ہیں اگر وہ کافر ہو۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک الموت (علیہ السلام) کے ساتھ سات ملائکہ رحمت ہوتے ہیں اور سات ملائکہ عذاب ہوتے ہیں، پس جب وہ کسی مومن کی جان کو قبض کرتے ہیں تو وہ اسے ملائکہ رحمت کے حوالے کردیتے ہیں اور وہ اسے ثواب کی بشارت اور خوشخبری دیتے ہیں اور وہ اسے لے کر آسمان کی طرف بلند ہوجاتے ہیں اور جب وہ کسی کافر کی جان کو قبض کرتے ہیں تو وہ اسے ملائکہ عذاب کے حوالے کردیتے ہیں اور وہ اسے عذاب کی بشارت دیتے ہیں اور اسے خوب خوفزدہ کرتے ہیں، پھر اسے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں، پھر اسے سجین کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے اور بندہ مومن کی روح عیلین کی طرف لوٹا دی جاتی ہے۔ (تفسیر ابی لیث جلد 1، صفحہ 490) اور التوفی (موت دینا) کی نسبت کبھی ملک الموت (علیہ السلام) کی طرف کی جاتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (آیت): قل یتوفکم ملک الموت (سجدہ : 11) ” فرمائیے جان قبض کرے گا تمہاری موت کا فرشہ “ اور کبھی ملائکہ کی طرف کی جاتی ہے، کیونکہ وہی اس کے والی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اس آیت اور دیگر آیات میں ہے۔ اور کبھی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاتی ہے۔ کیونکہ حقیقت میں وہی موت دینے والا ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا : (آیت) اللہ یتوفی الانفس حین موتھا (زمر : 42) ” اللہ تعالیٰ قبض کرتا ہے جانوں کو موت کے وقت “ : (آیت) قل اللہ یحییکم ثم یمیتکم (الجاثیہ : 26) ” فرمائیے اللہ نے زندہ فرمایا ہے تمہیں پھر وہی مارے گا تمہیں “۔ : (آیت) الذی خلق الموت والحیٰوۃ (الملک : 2) ” جس نے پیدا کیا ہے موت اور زندگی کو “۔ پس مالائ کہ میں سے ہر مامور فرشتہ وہی کرتا ہے جس کا اسے حکم دیا گیا ہے۔ وھم لا یفرطون یعنی نہ وہ اسے ضائع کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی ادائیگی میں کو تائی (اور غفلت) کرتے ہیں، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پوری پوری اطاعت اور پیروی کرتے ہیں، اور اس کا اصل معنی تو آگے بڑھنا اور پیش پیش ہونا ہے، جیسا کہ پہلے گز چکا ہے اور فرط کا معنی ہے عجز کو پیش کرنا (اور طاقت نہ ہونے کا اظہار کرنا) ۔ اور ابو عبیدہ نے کہا ہے : (اس کا معنی ہے) وہ کوئی کوتاہی اور لا پرواہی نہیں کرتے۔ عبید بن عمیر نے لا یفرطون تحفیف کے ساتھ پڑھا ہے یعنی وہ اس بارے میں حد سے تجاوز نہیں کرتے اکرام اور اہانت میں سے جس کے بارے میں انہیں حکم دیا جائے۔ : (آیت) ثم ردوا الی اللہ عینی اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ زندہ کر کے حسب کے لیے اٹھائے گا۔ مولھم الحق یعنی وہ ان کا خالق بھی اور رازق بھی، وہ انہیں دوبارہ اٹھانے والا بھی ہے اور ان کا مالک بھی۔ الحق قرات جمہور کے مطابق یہ مجرور ہے، کیونکہ یہ اسم جلالت کی نعت اور صفت ہے اور جس نے اسے الحق منصوب پڑھا ہے یا تو اس بنا پر کہ اس سے پہلے اعنی فعل مضمر ہے، یا پھر یہ مصد ہے یعنی حقا۔ الا لہ الحکم یعنی جان لو اور کہو : قیامت کے دن صرف اسی کا حکم ہوگا، یعنی قضا (فیصلہ) اور فضل صرف اور صرف اسی کا ہو گا۔ وھو اسرع الحسبین یعنی وہ کسی فکر، رؤیت کا محتاج نہیں اور نہ ہی ہاتھ کی گانٹھوں پر گننے کا محتاج ہے۔ اس کی تحقیق پہلے گزر چکی ہے۔
Top