Al-Qurtubi - Al-An'aam : 57
قُلْ اِنِّیْ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ كَذَّبْتُمْ بِهٖ١ؕ مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِهٖ١ؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ١ؕ یَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں اِنِّىْ : بیشک میں عَلٰي : پر بَيِّنَةٍ : روشن دلیل مِّنْ : سے رَّبِّيْ : اپنا رب وَكَذَّبْتُمْ : اور تم جھٹلاتے ہو بِهٖ : اس کو مَا عِنْدِيْ : نہیں میرے پاس مَا : جس تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی کر رہے ہو بِهٖ : اس کی اِنِ : صرف الْحُكْمُ : حکم اِلَّا : مگر (صرف) لِلّٰهِ : اللہ کیلئے يَقُصُّ : بیان کرتا ہے الْحَقَّ : حق وَهُوَ : اور وہ خَيْرُ : بہتر الْفٰصِلِيْنَ : فیصلہ کرنے والا
کہہ دو کہ میں تو اپنے پروردگار کی دلیل روشن پر ہوں اور تم اس کی تکذیب کرتے ہو۔ جس چیز (یعنی عذاب) کیلئے تم جلدی کر رہے ہو وہ میرے پاس نہیں ہے (ایسا) حکم اللہ ہی کے اختیار میں ہے وہ سچی بات بیان فرماتا ہے وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
آیت نمبر 57 :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : قل انی علی بینتہ من ربی یعنی میں دلالت، یعقین، محبت اور برہان پر ہوں۔ خواہش پر نہیں ہوں اسی سے البینتہ (گواہی) ہے جس سے حق واضح اور ظاہر ہوتا ہے۔ و کذبتم بہ تم نے اس بینتہ (دلیل) کو جھٹلایا، کیونکہ یہ بیان کے معنی میں ہے اس لیے ضمیر مذکر کی جیسے فرمایا : آیت : واذا حضر القسمتہ اولوا القربی والیتمی والمسکین فارزقوھم منہ (النسائ : 8) یہاں بھی ضمیر مذکر ذکر کردی جب ظاہر مرجع مونث ہے۔ ہم نے اس کی وضاحت اسی آیت کے تحت کردی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : عذاب کی طرف راجع ہے۔ بعض نے کہا : قرآن کی طرف راجع ہے۔ اس آیت او اس سے پہلے والی آیت کے معنی میں معصب بن عبداللہ بن زبیر نے اشعار کہے ہیں وہ ایک عمدہ اور نیک شاعر تھے : ااقعد بعد ما رجعت عظامی وکان الموت اقرب مایلینی اجادل کل معترض خصیم واجعل دینہ غرضا لدینی فاترک ما علمت لرای غیری ولیس الرای کالعلم الیقین وما انا والخصومتہ وھی شی یصرف فی الشمال و فی الیمین وقد سنت لنا سنن قوام یلحن بکل فج او وجین وکان الحق لیس بہ خفائ اغر کغرتہ الفلق المبین وما عوض لنا منھاج جھنم بمنھاج ابن امنتہ الامین فاما ما علمت فقد کفان واما ما جھلت۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : ماعندی ماتستعجلون بہ اس سے مراد عذاب ہے۔ وہ تکذیب میں انتہا کو پہنچے ہوئے تھے وہ استہزا نزول عذاب کا جلدی مطالبہ کرتے تھے جیسے انہوں نے کہا : آیت : او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفا (الاسرائ : 92) یا آپ گرادیں آسمان کو جیسے آپ کا خیال ہے ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے۔ آیت : اللھم ان کان ھذا ھوالحق من عندک فامطر علینا حجارتہ من السمائ (الانفال : 32) اے اللہ اگر ہو یہی (قرآن) سچ تیری طرف سے تو برسا ہم پتھر آسمان سے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب میرے وہ نشانیاں نہیں ہیں جن کا مطالبہ اور تجویز تم کرتے ہو۔ ان الحکم الا للہ عذاب کی تاخیر اور تعجیل کا فیصلہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ بعض نے فرمایا : حق و باطل کے درمیان فاصل حکم اللہ کے لیے ہے۔ یقص الحق یعنی وہ سچے واقعات بیان کرتا ہے۔ جو علماء قرآن مجاز سے منع کرتے ہیں وہ اس سے استدلال کرتے ہیں۔ یہ نافع، ابن کثیر، عاصم، مجاہد، اعرج اور ابن عباس کی قرأت ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آیت : نحن نقص علیک احسن القصص (یوسف : 3) ہم بیان کرتے ہیں ایک بہترین قصہ۔ باقی قراء یقص الحق ضاد کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ حضرت علی، ابوعبدالرحمن، سلمی اور سعید بن مسیب نے اسی طرح پڑھا ہے۔ مصحف میں بغیر یا کے لکھا گیا ہے اس پر وقف مناسب نہیں یہ قضا سے ہے اس پر دلیل بعد والی کلام آیت : وھوخیرالفصلین ہے۔ فیصلہ قضا میں ہوتا ہے نہ کہ قصص میں اس کی تائید اس لیے پہلے والی کلام آیت : ان الحکم الاللہ بھی کرتی ہے اور حضرت ابن مسعود کی قرأت بھی اس کو تقویت دیتی ہے۔ ان الحکم الا للہ یقص الحق۔ با دخول قضا کے معنی کو مؤکد کرتا ہے النحاس نے کہا : یہ لازم نہیں، کیونکہ یقضی کا معنی یاتی اور یضع بھی ہوتا ہے معنی ہو سکتا ہے وہ حق لاتا ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ معنی ہو حق فیصلہ فرماتا ہے۔ مکی نے کہا : ضاد کی قرأت مجھے زیادہ پسند ہے کیونکہ حرمیین اور عاصم کا اس پر اتفاق ہے۔ کیونکہ اگر یہ قضا سے ہوتا تو اس میں با لازم ہوتی جیسا کہ حضرت ابن مسعود کی قرأت ہے۔ نحاس نے کہا : یہ حجت لازم نہیں کیونکہ یہ باء اکثر حذف بھی کی جاتی ہے۔
Top