Al-Qurtubi - Al-An'aam : 39
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّ بُكْمٌ فِی الظُّلُمٰتِ١ؕ مَنْ یَّشَاِ اللّٰهُ یُضْلِلْهُ١ؕ وَ مَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْهُ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَ : اور الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو کہ كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات صُمٌّ : بہرے وَّبُكْمٌ : اور گونگے فِي : میں الظُّلُمٰتِ : اندھیرے مَنْ : جو۔ جس يَّشَاِ : چاہے اللّٰهُ : اللہ يُضْلِلْهُ : اسے گمراہ کردے وَمَنْ يَّشَاْ : اور جسے چاہے يَجْعَلْهُ : اسے کردے (چلادے) عَلٰي : پر صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ بہرے اور گونگے ہیں (اسکے علاوہ) اندھیرے میں (پڑے ہوئے) جس کو خدا چاہے گمراہ کردے اور جسے چاہے سیدھے راستے پر چلا دے۔
آیت نمبر 39 تا 41 :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : والذین کذبوا بایتنا صم و بکم یہ مبتدا اور خبر ہیں یعنی انہوں نے قوت سماعت اور قوت بصارت سے نفع نہ اٹھایا جانوروں میں سے ہر امت اپنے مصوں کی طرف ہدایت پاتے ہیں اور کفار ہدایت نہیں پاتے یہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ فی الظلمت یعنی کفر کی تاریکیاں۔ ابوعلی نے کہا : اس کا معنی یہ ہو بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آخرت میں گونگے اور بہرے ہوں گے اس صورت میں حقیقی معنی ہوگا، مجازی معنی نہ ہوگا۔ من یشا اللہ یضللہ یہ دلیل ہے کہ اس نے کافر کی گمراہی کو چاہا اور اس نے ارادہ کیا کہ اس میں اس کا عدل نافذ ہو کیا آپ نے ملاحظہ نہیں کیا کہ اس نے فرمایا : آیت : ومن یشا یجعلہ علی صراط مستقیم یعنی جسے چاہے دین اسلام پر اسے لگا دے، تاکہ اس میں اس کا فضل نافذ ہو۔ اس میں قدریہ کے مذہب کا ابطال ہے۔ مشیت ان لوگوں کی طرف راجع ہے جنہوں نے تکذیب کی۔ ان میں سے کچھ کو گمراہ کرتا ہے اور کچھ کو ہدایت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : قل ارائیتکم نافع نے دونوں ہمزوں کو تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے پہلے ہمزہ کی حرکت کو پہلے ہمزہ پر ڈالا ہے اور دوسرے کو بین بین پڑھا ہے۔ ابوعبید نے نافع سے حکایت کی ہے کہ وہ ہمزہ کو ساقط کرتے ہیں اور ان کے عوض الف لگاتے ہیں۔ نحاس نے کہا : یہ اہل عرب کے نزدیک غلط ہے، کیونکہ یا ساکنہ ہے اور الف ساکنہ ہے اور دوساکن جمع نہیں ہوتے۔ مکی نے کہا : ورش سے مروی ہے کہ انہوں نے ہمزہ کو الف سے بدلا، کیونکہ ان سے روایت ہے کہ وہ دوسرے ہمزہ میں مدد کرتے ہیں اور مد نہیں ہوتا مگر بدل کے ساتھ بدل، اصل کی فرع ہے اور اصل یہ ہے کہ ہمزہ، ہمزہ مفتوحہ اور الف کے درمیان ہے۔ ورش کے علاوہ یہ ان کا نظریہ ہے جو دوسرے ہمزہ میں تخفیف کرتے ہیں۔ ہمزہ میں بدل کا جواز بہتر ہے اس کے بعد ساکن ہے، کیونکہ پہلا حرف مد ولین، مد وہ جو ساکن کے ساتھ پیدا ہوتا ہے وہ اس حرکت کے قائم مقام ہوتا ہے جس کے ساتھ دوسرے ساکن کے ساتھ بولنا ممکن ہوتا ہے۔ ابوعمرو، عاصم، حمزہ نے ارئیتکم دونوں ہمزوں کی تحقیق کے ساتھ پڑھا اور انہوں نے کلمہ کو اپنی اصل پر پڑھا ہے۔ اصل ہمزہ ہے، کیونکہ ہمزہ استفہام رایت پر داخل ہوا پس ہمزہ فعل کا عین کلمہ ہے اور یاء ساکن ہے، کیونکہ اس کے ساتھ ضمیرمرفوع متصل ہے۔ عیسیٰ بن عمر اور کسائی نے اریتکم دوسرے ہمزہ کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ نحاس نے کہا : یہ عربی قواعد سے بعید ہے شعر میں جائز ہے عرب کہتے ہیں : ارائیتک زیدا ما شانہ۔ بصریوں کا مذہب یہ ہے کہ حذف اور میم خطاب کے لیے ہے ان کا ترکیب میں کوئی محل نہیں۔ یہ زجاج کا مختار قول ہے۔ اور کسائی اور فراء وغیرہ کا مذہب یہ ہے ان کو نصب، رؤیت کے وقوع کی وجہ سے ہے۔ معنی ہے : ارایتم انفسکم جب خطاب کے لیے ہوں گے تو تاکید کے لیے زائدہ ہوں گے اور ان اتاکم میں ان محل نصب میں ہوگا۔ کیونکہ رایت کا مفعول ہوگا اور اگر کم ضمیر اسم ہوگی تو محل نصب میں ہوگی ان دوسرے مفعول کی جگہ ہوگا پس پہلی صورت میں رویت عین سے ہوگا، کیونکہ ایک مفعول کی طرف متعدی ہے اور بمعنی علم ہوگا تو دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوگا اور اواتتکم الساعت یا تمہارے پاس وہ وقت آجائے جس میں تم اٹھائے جائو گے پھر فرمایا : آیت : اغیر اللہ تدعون ان کنتم صدقین یہ آیت ان مشرکین کے خلاف حجت قائم کرنے کے لیے ہے جو اعتراف کرتے تھے کہ اس کا صانع ہے یعنی تم تکالیف میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہو اور قیامت کے روز بھی تم اس کی طرف لوٹو گے پس تم خوشحالی میں شرک پر کیوں اصرار کرتے ہو، وہ بتوں کی عبادت کرتے تھے اور عذاب ٹالنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو پکارت تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : بل ایاہ تدعون بل پہلی کلام سے اضراب ہے اور دوسرے کے لیے ایجاب ہے۔ ایاہ تدعون کی وجہ سے منصوب ہے۔ آیت : فیکشف ما تدعون الیہ ان شاء یعنی وہ اس تکلیف کو دور کر دے گا جس کو دور کرنے کے لیے تم اسے پکارتے ہو اگر وہ چاہے گا۔ آیت : وتنسون ما تشرکون بعض علماء نے فرمایا : یہ عذاب کے نزول کے وقت ہوگا یعنی اس وقت وہ انہیں بھول جائیں جنہیں وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ حسن نے کہا : تم اس طرح اعراض کرو گے جس طرح بھولنے والا اعراض کرتا ہے یہ اس کی طرف سے نجات سے مایوسی کے وقت ہوگا، کیونکہ اس میں نہ ضرر کی طاقت ہے، نہ نفع کی قوت ہے۔ آیت : ولقد عھدنا الی ادم من قبل فنسی (طہ : 115) اور ہم نے حکم دیا تھا آدم کو اس سے پہلے (کہ وہ اس درخت کے قریب نہ جائیں) سو وہ بھول گا۔
Top