Al-Qurtubi - Al-An'aam : 32
وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ١ؕ وَ لَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
وَمَا : اور نہیں الْحَيٰوةُ : زندگی الدُّنْيَآ : دنیا اِلَّا : مگر (صرف) لَعِبٌ : کھیل وَّلَهْوٌ : اور جی کا بہلاوا وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ : اور آخرت کا گھر خَيْرٌ : بہتر لِّلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو يَتَّقُوْنَ : پرہیزگاری کرتے ہیں اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : سو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے
اور دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور مشغلہ ہے۔ اور بہت اچھا گھر تو آخرت کا گھر ہے (یعنی) ان کے لئے جو (خدا سے) ڈرتے ہیں کیا تم سمجھتے نہیں ؟
آیت نمبر : 32 :۔ اس میں دو مسئلے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : و ما الحیوۃ الدنیا الا لعب و لھو دنیوی زندگی کو لہو اور تماشا اس کی مدت کے کم ہونے کی وجہ کہا گیا ہے جیسے شاعر نے کہا : الا انما الدنیا کا احلام نائم وما خیر عیش لا یکون بدائم تامل اذا ما نلت بالامس لذۃ فاففنی تھا ھل انت الا کحالم ایک اور شاعر نے کہا : فاعمل علی مھل فاتک میت واکدح لنفسک ایھا الانسان فکان ما قدکان لم یک اذ مضی وکان ماھو کائن قد کا نا بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے دنیاوی زندگی متاع لہو ولعب ہے یعنی وہ چیز جس کو وہ دنیا میں چاہتے تھے اس کے لیے کوئی انجام نہیں وہ لہو ولعب کے قائم مقام ہے۔ سلیمان بن عبدالملک نے آئینہ دیکھا اور کہا : میں باشاہ جوان ہوں۔ اس کی لونڈی نے اسے کہا : انت نعم المتاع لو کنت تبقی غیر ان لا بقاء للانسان لیس فیما بدا لنا منک عیب کان فی الناس غیر انک فانی اور بعض علماء نے کہا : لہو ولعب کا معنی باطل اور غرور ہے جیسا کہ فرمایا : آیت : وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور (آل عمران) پس آیت سے مقصد کفار کا جھٹلانا ہے ان کے قول میں ہے : آیت : ان ھی الا حیاتنا الدنیا۔ اللعب (کھیل) معروف ہے التلعابت بہت زیادہ کھیل۔ الملعب کھیل کی جگہ۔ کہا جاتا ہے : لعب یلعب، کھیلنا، اللھو بھی معروف ہے ہر وہ چیز جو تجھے مشغول کرے اس نے تجھے غافل کردیا۔ لھوت، اللھو سے مشتق ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کی اصل کسی شئے سے پھرنا ہے۔ یہ عربوں کے قول : لھیت عنہ سے مشتق ہے۔ مہدوی نے کہا : اس میں بعد ہے، کیونکہ جس کا معنی پھرنا ہے اس کا لام کلمہ یا ہے اس کی دلیل لھیان ہے اور پہلا لام کلمہ واو ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ لہو ولعب سے وہ نہیں ہے جو امور آخرت سے ہے، کیونکہ لعب کی حقیقت وہ ہے جس سے نفع حاصل نہ ہو اور لہو وہ ہے جس کے ذریعے غفلت ہو اور جو کام آخرت کی غرض سے ہو وہ لہو ولعب سے خارج ہے۔ ایک شخص نے حضرت علی ؓ کے سامنے دنیا کی مذمت کی تو حضرت علی ؓ نے فرمایا : دنیا اس شخص کے لیے دارالصدق ہے جو اس میں سچ کہتا ہے اور یہ دار نجات ہے اس شخص کے لیے جو اس کو سمجھ جاتا ہے اور یہ دار فنا ہے اس شخص کے لیے جو اس سے زادہ راہ لیتا ہے۔ محمودوراق نے کہا : لا تتبع الدنیا و ایامھا ذما وان دارت بک الدائرہ من شرف الدنیا ومن فضلھا ان بھا تستدرک الاخرۃ ابوعمر بن عبدالبر نے حضرت ابوسعید خدری سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :" دنیا ملعون ہے اور اس میں جو کچھ ہے وہ بھی ملعون ہے مگر جو اس میں اللہ کے ذکر سے ہے یا جو اللہ کے ذکر تک پہنچائے اور عالم اور متعلم اجر میں دونوں شریک ہیں اور باقی تمام لوگ رذیل ہیں ان میں خیر نہیں ہے " (1) (جامع ترمذی، کتاب الذہد، جلد 2، صفحہ 56) اس حدیث کو ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے کہا یہ حدیث حسن غریب ہے۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے فرمایا :" دنیا کی حقارت اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ نافرمانی نہیں کی جاتی مگر اس میں اور جو اللہ کے پاس ہے اس کو حاصل نہیں کیا جاسکتا مگر دنیا کو ترک کرنے کے ساتھ "۔ ترمذی نے حضرت سہل بن سعد سے روات کیا ہے فرمایا رسول اللہ نے فرمایا :" اگر دنیا اللہ کی بارگاہ میں مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت رکھتی تو وہ اس میں سے کسی کافر کو ایک پانی کا گھونٹ بھی نہ پلاتا " (1) (جامع ترمذی، کتاب الزہد، جلد 2، صفحہ 56 ) ۔ شاعر نے کہا : تسمع من الایام ان کنت حازما فانک منھا بین ناہ و آمر اذا ابقت الدنیا علی المرء دینہ مما فات من شیء فلیس لضائر ولن تعدل الدنیا جناح بعوضت ولا وزن زف من جناح لطائر فما رضی الدنیا ثوابا لمومن ولا رضی الدنیا جزاء لکافر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا : لہو ولعب کافر کی زندگی ہے، کیونکہ وہ دھوکے اور باطل کاموں میں ضائع کرتا ہے لیکن مومن کی زندگی اعمال صالح سے لبریز ہوتی ہے وہ لہو ولعب نہیں ہوتی ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : وللدار الاخرۃ خیرا اس سے مراد جنت ہے۔ خیر اس لیے ہے، کیونکہ یہ باقی اور اس کو آخرت اس لیے کہتے ہیں، کیونکہ یہ ہم سے مؤخر ہے۔ اور دنیا کو دنیا اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ہمارے قریب ہے۔ ابن عامر نے آیت : ولدارالاخرۃ یعنی ایک لام کے ساتھ پڑھا ہے اور اضافت مضاف کی حذف کی تقدیر پر ہے اور صفت کو اس کے قائم مقام رکھا ہے۔ تقدیر یہ ہے ولدار الحیاۃ الاخرۃ اور جمہور کی قراءت پر و للدارالاخرۃ ہے۔ لام، لام ابتدائیہ ہے اور دار کو رفع مبتدا ہونے کے اعتبار سے ہے اور الاخرۃ اس کی صفت ہے اور خبر خیر للذین ہے اس کی تائید آیت : تلک الدار الاخرۃ (القصص : 83) اور آیت : و ان الدار الاخرۃ لھی الحیوان (العنکبوت : 64) سے ہوتی ہے ان دونوں جملوں میں الآخرۃ، الدار کی صفت ہے۔ آیت : للذین یتقون یعنی شرک سے بچتے ہیں۔ افلا تتقون یا اور تا کے ساتھ پڑھا گیا ہے یعنی کیا وہ نہیں جانتے کہ معاملہ اس طرح ہے تاکہ وہ دنیا سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ؟ واللہ اعلم۔
Top