Al-Qurtubi - Al-An'aam : 18
وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ١ؕ وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْخَبِیْرُ
وَهُوَ : اور وہ الْقَاهِرُ : غالب فَوْقَ : اوپر عِبَادِهٖ : اپنے بندے وَهُوَ : اور وہ الْحَكِيْمُ : حکمت والا الْخَبِيْرُ : خبر رکھنے والا
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ دانا اور خبردار ہے۔
آیت 18 تا 19 :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت ؛ وھو القاھرفوق عبادہ، القھر کا معنی غلبہ ہے۔ القاھر کا معنی غالب ہے۔ اقھر الرجل بولا جاتا ہے جب کوئی مجبور کر کے ذلیل کیا جائے۔ شاعر نے کہا۔ تمنی حصین ان یسود جذاعہ فامسی حصین قد اذل و اقھرا قھر کا معنی ہے مغلوب کیا گیا۔ فوق عبادہ غلبہ کے ساتھ فوقیت مراد ہے، یعنی تمام بندے اس کے حکم کے تحت مسخر ہیں۔ فوقیت سے مراد فوقیت مکانی مراد نہیں ہے، جیسے تو کہتا ہے : السلطان فوق رعیتہ یعنی سلطان منزل و رفعت کے اعتبار سے رعیت سے بلند ہے۔ قہر میں ایک زائد معنی ہے جو قدرت میں نہیں ہے وہ ہے کسی کو مراد حاصل کرنے سے روک دینا۔ وھو الحکیم وہ اپنے امر میں حکیم ہے۔ الخبیر اپنے بندوں کے اعمال سے باخبر ہے یعنی جو ان صفات سے متصف ہو واجب ہے کہ اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرایاجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : قل ای شیء اکبر شھادۃ اس کا واقع یہ ہے کہ مشرکین نے نبی کریم ﷺ سے کہا : کون تمہاری گواہی دیتا ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حسن وغیرہ سے مروی ہے یہاں لفظ شی اللہ کی اسم کی جگہ واقع ہوا ہے معنی یہ ہے کہ اللہ اکبر شھادۃ یعنی وہ ربوبیت کے ساتھ منفرد ہے اپنی توحید پر براہین کا قیام بہت بڑی شہادت ہے وہ تمہارے اور میرے درمیان گواہ ہے کہ میں نے تبلیغ کی اور میں نے جو کچھ کہا اور جو میں نے رسالت کا دعوی کیا ہے میں اس میں سچا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : واوحی الی ھذا القرآن قرآن میری نبوت کا گواہ ہے۔ آیت : لانذرکم بہ اے اہل مکہ ! میں تمہیں اس کے ساتھ ڈراتا ہوں اور من بلغ جس کو قرآن پہنچا ہے۔ کلام کی طوالت کی وجہ سے ھاحذف کی گئی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے جو بالغ ہوا۔ اس سے دلیل پکڑی جاتی ہے کہ جو بالغ نہیں ہوا وہ مخاطب نہیں ہے اور وہ مکلف نہیں ہے۔ قرآن وسنت کی تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے فرمایا : آیت : یا یھا الرسل بلغ ما انزل الیک من ربک (المائدہ : 67) اے رسول ! پہنچا دیجیے جو اتارا گیا ہے آپ کی طرف آپ کے پروردگار کی جانب سے۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا :" میری طرف سے پہنچائواگرچہ ایک آیت ہی ہو اور بنی اسرائیل کے متعلق بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں اور جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولاوہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں تلاش کرے ـ" (1) (جامع ترمذی، کتاب العلم، جلد 2، صفحہ 91) ۔ خبر میں ہے جس کو کتاب اللہ کی ایک آیت پہنچی تو اسے اللہ کا امر پہنچا اسے وہ اپنائے یا اسے ترک کرے (اس کی مرضی) مقاتل نے کہا : جن وانس میں سے جس کو قرآن پہنچا وہ اس کے لیے نذیر (ڈرانے والا) ہے۔ قرطبی نے کہا : جس کو قرآن پہنچا گویا اس نے حضرت محمد ﷺ کو دیکھا اور ان سے سنا۔ ابونہیک نے کہا : آیت : واوحی الی ھذا القرآن پڑھا یعنی معروف کا صیغہ پڑھا۔ یہ جماعت کی قراءت کا معنی ہے۔ آیت : ائنکم لتشھدون ان مع اللہ الھۃ اخریاستفہام توبیخ و تقریع کے لیے ہے۔ ائنکم اصل پر دو ہمزوں کیساتھ بھی پڑھا گیا ہے جب تو دوسرے ہمزہ میں تخفیف کرے گا تو تو کہے گا : ننکم، اصمعی نے ابو عمرو اور نافع سے آئنکم روایت کیا ہے یہ لغت معروفہ ہے دو ہمزوں کے درمیان الف لگایا جاتا ہے، کیونکہ دو ہمزے جمع کرنا ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا : ایا ظیبۃ الوعساء بین جلاجل و بین النقا آ انت ام ائم سالم اور جنہوں نے انکم پڑھا خبر کی بنا پر تو اس نے ان پر شرک ثابت کیا۔ اور فرمایا : الھتہ اخری، نہیں فرمایا۔ فراء نے کہا : اس کی وجہ یہ ہے کہا لھتہ جمع ہے اور جمع پر تانیث واقع ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ارشاد ہے : آیت : و للہ الاسماء الحسنی فادعوہ بھا (الاعراف : 180) اور ارشاد ہے : آیت : فما بال القرون الاولی (طہ : 50) اور اگر الاول اور آخر ہوتا تو بھی صحیح ہوتا۔ قل لا اشھد یعنی میں تمہارے ساتھ گواہی نہیں دیتا، کلام کی دلالت کی وجہ سے معکم کو حذف کیا گیا اس کی مثال یہ ہے : آیت : فان شھدوا فلا تشھد معھم اگر وہ گواہی دیں تو تم ان کے ساتھ گواہی نہ دو
Top