Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-An'aam : 141
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍ١ؕ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ١ۖ٘ وَ لَا تُسْرِفُوْا١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَۙ
وَهُوَ
: اور وہ
الَّذِيْٓ
: جس نے
اَنْشَاَ
: پیدا کیے
جَنّٰتٍ
: باغات
مَّعْرُوْشٰتٍ
: چڑھائے ہوئے
وَّ
: اور
غَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ
: نہ چڑھائے ہوئے
وَّالنَّخْلَ
: اور کھجور
وَالزَّرْعَ
: اور کھیتی
مُخْتَلِفًا
: مختلف
اُكُلُهٗ
: اس کے پھل
وَالزَّيْتُوْنَ
: اور زیتون
وَالرُّمَّانَ
: اور انار
مُتَشَابِهًا
: مشابہ (ملتے جلتے)
وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ
: اور غیر مشابہ (جدا جدا)
كُلُوْا
: کھاؤ
مِنْ
: سے
ثَمَرِهٖٓ
: اس کے پھل
اِذَآ
: جب
اَثْمَرَ
: وہ پھل لائے
وَاٰتُوْا
: اور ادا کرو
حَقَّهٗ
: اس کا حق
يَوْمَ حَصَادِهٖ
: اس کے کاٹنے کے دن
وَلَا تُسْرِفُوْا
: اور بیجا خرچ نہ کرو
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
لَا يُحِبُّ
: پسند نہیں کرتا
الْمُسْرِفِيْنَ
: بیجا خرچ کرنے والے
اور خدا ہی تو ہے جس نے باغ پیدا کیے چھتریوں پر چڑھائے ہوئے بھی اور جو چھتریوں پر نہیں چڑھائے ہوئے وہ بھی اور کھجور اور کھیتی جن کے طرح طرح کے پھل ہوتے ہیں اور زیتون اور انار جو (بعض باتوں میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (بعض باتوں میں) نہیں ملتے۔ جب یہ چیزیں پھلیں تو ان کے پھل کھاؤ اور جس دن (پھل توڑو اور کھیتی) کاٹو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو۔ اور بےجا نہ اڑانا۔ کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
آیت نمبر :
141
اس میں تئیس مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ قولہ تعالیٰ آیت : انشا یعنی اس نے پیدا کیا۔ آیت : جنت معروشٰت ایسے باغات کو جو زمین پر بچھے اور چھپروں پر چڑھائے ہوئے ہیں۔ آیت : وغیر معروشٰت اور ایسے جو چھپروں پر نہیں چڑھائے گئے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : معروشت سے مراد وہ ہیں جو زمین پر پھیل جائیں ان میں سے جو بچھ جاتے ہیں مثلا انگور کی بیلیں، کھیتیاں اور تربوز کی بیل وغیرہ۔ اور غیر معروشت سے مراد وہ ہیں جو اپنے تنے پر کھڑے ہوں مثلا کھجور کے درخت اور دیگر تمام درخت۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ معروشات وہ زمین جن کے درخت بلند ہوجائیں اور تعریش کا اصل معنی الرفع ( بلند ہونا) ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ معروشات وہ ہیں جنہیں لوگ لگاتے ہیں اور انہیں اوپر چڑھاتے ہیں اور غیر معروشات وہ ہیں جو پھلوں سے جنگلوں اور پہاڑوں میں خود نکلتے ہیں (
1
) ۔ حضرت علی ؓ کی غین اور سین کے ساتھ قراءت اس پر دلالت کرتی ہے۔ مغروسات وغیر مغروسات۔ مسئلہ نمبر
2
۔ قولہ تعالیٰ : آیت : والنخل والزرع ان دونوں کا علیحدہ ذکر فرمایا حالانکہ یہ دونوں جنات، باغات میں داخل ہیں اس لیے کہ ان دونوں میں فضیلت ہے جیسا کہ سورة البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ آیت : من کان عدوا للہ وملئکتہ الایہ ( البقرہ :
98
) کے تحت اس کا بیا گزر چکا ہے۔ مختلفا اکلہ یعنی اس کا ذائقہ مختلف ہے ان میں سے کچھ جید ( عمدہ) ہیں اور کچھ ردی اور گھٹیا۔ اور اس کا نام اکل رکھا کیونکہ وہ کھائے جاتے ہیں۔ اور اکلہ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور مختلفا اس کی نعت اور صفت ہے۔ لیکن جب یہ اس پر مقدم ہوا اور منصوب کے قریب ہوا تو اسے نصب دی گئی، جیسا کہ آپ کہتے ہیں : عندی طباخاغلام اور شاعر نے کہا ہے : الشر منتشر یلقاک عن عرض والصالحات علیھا مغلقا باب اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مختلفا حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے۔ ابو اسحاق زجا ج نے کہا ہے : یہ مسئلہ علم نحو کے مشکل مسائل میں سے ہے، کیونکہ کہا جاتا ہے : قد انشاء ھا ولم یختلف اکلھا وھو ثمرھا ( تحقیق اس نے اسے پیدا کیا اور اس کے پھل مختلف نہیں) تو جواب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسے پیدا کیا اپنے اس قول کے ساتھ : آیت : خالق کل شیء (الانعام :
102
) تو جان لیجئے کہ اس نے اسے پیدا کیا اس حال میں کہ اس کے پھل مختلف ہیں، یعنی انہ انشاھا مقدار فیہ الاختلاف ( اس نے اسے پیدا کیا اس حال میں کہ اس میں اختلاف مقدر ہے) اسے سیبویہ نے اپنے اس قول کے ساتھ بیان کیا ہے : مررت برجل معہ صقر صائدا بہ غدا یہ حال کی بنا پر ہے۔ ( یعنی میں ایک آدمی کے پاس سے گزرا اس کے ساتھ باز تھا درآنحالیکہ وہ اس سے کل شکار کرے گا) اسی طرح آپ کہتے ہیں : نتدخلن الدار آکلین شاربین ِ ای مقدرین ذالک ( تم گھر میں داخل ہوتے ہو کھاتے پیتے ہوئے ( یعنی حال یہ ہے کہ تم کھا، پی رہے ہو) تیسرا جواب یہ ہے : یعنی لما انشائہ کان مختلفا اکلہ ( جب اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا تو اس کے پھل مختلف تھے۔ یہ اس معنی کی بنا پر ہے لوکان لہ اکل لکان مختلفا اکلہ (یعنی اگر اس کے پھل ہوتے تو اس کا ذائقہ مختلف ہوتا) اور اکلھا نہیں کہا، کیونکہ اس نے اعادہ کے ذکر کر کے وقت ان دو میں سے ایک پر اکتفا کیا ہے، جیسا کہ قول باری تعالیٰ آیت :: واذا راوا تجارۃ او لھوا انفضوا الیھا (الجمعہ :
11
) ، ای الیھما اور یہ معنی پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر
3
۔ قولہ تعالیٰ : آیت : والزیتون والرمان ( ان کا ایک دوسرے پر) عطف کیا گیا ہے۔ آیت : متشابھا و غیر متشابہ یہ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اور اس بارے میں کلام گزر چکی ہے۔ اور اس میں تین دلیلیں ہیں (
1
) جس پر سب سے پہلے دلیل قائم ہوتی ہے وہ یہ کہ متغیرات یعنی تبدیلیوں کے لیے مغیر یعنی تبدیلی لانے والے کا ہونا ضروری ہے (
2
) دوسری دلیل اس پر کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے، پس اگر وہ چاہتا تو جب اس نے ہمیں پیدا کیا تو ہو ہمارے لیے غذا پیدا نہ کرتا اور جب اس نے اسے پیدا کردیا تو وہ دیکھنے میں حسین اور ذائقے میں عمدہ اور طیب نہ ہوتی، اور جب اس نے اسے اس طرح پیدا فرما دیا تو اسے چننا آسان نہ ہوتا۔ پس اس پر ابتداء ایسا کرنا لازم نہیں تھا، کیونکہ اس پر کوئی شی واجب نہیں۔ (
3
) اور تیسری دلیل قدرت پر ہے کہ وہ پانی جس کی شان یہ ہے کہ وہ زمین میں نیچے اتر جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک علام الغیوب کی قدرت سے درخت کی جڑوں سے اسکی شاخوں کی جانب اوپر چڑھ آتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے آخر تک پہنچتا ہے تو اس میں پتے اگتے ہیں جو ان کی جنس سے نہیں۔ اور پھل اپنے خاص وصف کے ساتھ وافر مقدار میں نکلتا ہے اور اس کا رنگ صاف اور حسین ہوتا ہے، اسے چننا آسان ہوتا ہے، اور اس کا ذائقہ لذید ہوتا ہے، تو طبائع اور اس کی اجناس کہاں گئیں ؟ فلاسفہ اور ان کے لوگ کہاں گئے ؟ کہا یہ طبیعت کی قدرت میں ہے کہ وہ اس طرح کی پختگی لا سکے، یا یہ عجیب ترتیب مرتب کرسکے ؟ ہر گز نہیں۔ عقلی اعتبار سے اسے کوئی مکمل نہیں کرسکتا مگر وہی جو حی (زندہ) ہو، عالم ( جاننے والا) ہو، قدیر ( قدرت والا) ہو اور مرید ( ارادہ کرنے والا) ہو، پس پاک ہے وہ ذات جس کے لیے ہر شی میں کوئی نشانی اور دلیل ہے۔ اور اس آیت کو ماقبل کے ساتھ متصل لانے کی وجہ یہ ہے کہ جب کفار نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹے بہتان باندھے اور اس کے ساتھ شریک ٹھہرائے اور کئی چیزوں کو حلال و حرام قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت پر انہیں دلیل دی کہ وہ تمام چیزوں کا خالق ہے، اور یہ کہ اس نے ان چیزوں کو ان کے لیے رزق بنایا ہے۔ مسئلہ نمبر
4
۔ قولہ تعالیٰ : آیت : کلوا من ثمری اذا اثمر واتوا حقہ یوم حصادی یہ دو بنائیں اور اصلیں ہیں اور دونوں افعل ( امر) کے صیغہ کے ساتھ آئی ہیں۔ ان میں سے ایک مباح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فانتشروا فی الارض ( الجمعہ :
10
) اور دوسری واجب ہے۔ اور شریعت میں مباح اور واجب کا ملنا ممتنع نہیں ہے۔ اور حق ادا کرنے کے امر سے پہلے کھانے کی نعمت کے ذکر سے آغاز کیا تاکہ وہ واضح کر دے کہ نعمت کے ساتھ ابتدا، حکم کی پابندی سے پہلے یہ اس کا فضل (اور احسان) ہے۔ مسئلہ نمبر
5
: قولہ تعالیٰ : آیت : واتوا حقہ یوم حصادہ حق کی تفسیر میں لوگوں کا اختلاف ہے کہ وہ کیا ہے ؟ تو حضرت انس بن مالک، حضرت ابن عباس، حضرت طاؤس، حضرت حسن، حضرت ابن زید، حضرت ابن الحنفیہ، حضرت ضحاک اور حضرت سعید بن مسیب نے کہا ہے کہ حق سے مراد وہ زکوۃ (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
757
) جو فرض کی گئی ہے، عشر اور نصف عشر ہے۔ اور اسے ابن وہب اور ابن قاسم نے امام مالک (رح) سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے اور بعض اصحاب شافعی (رح) نے بھی یہی کہا ہے۔ اور زجاج نے بیان کیا ہے کہ اس آیت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت علی بن حسین، حضرت عطا، حضرت حکم، حضرت حماد، حضرت سعید بن جبیر (تفسیر ماوردی، جلد
2
، صفحہ
178
) اور حضرت مجاہد نے کہا ہے : اس سے مراد وہ حق ہے جو زکوۃ کے سوا مال میں ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے ندبا حکم فرمایا ہے۔ اور حضرت ابن عمر اور محمد بن حنفیہ ؓ سے بھی یہ کیا گیا ہے، اور اسے حضرت ابو سعید خدری ؓ نے حضور نبی رحمت ﷺ سے روایت کیا ہے۔ حضرت مجاہد (رح) نے فرمایا : جب تو فصل کی کٹائی کرے اور تیرے پاس مساکین حاضر ہوں تو ان کے لیے کچھ بالیں ( سٹے) چھوڑ دے، اور جب تو (انگور یا کجھوریں وغیرہ) توڑے تو ان کے لیے کچھ خوشے پھینگ دے۔ اور جب تو اپنی کھیتی کو صاف کرے اور اس سے دانے نکال لے تو اس سے ان کے لیے کچھ حصہ چھوڑ دے، اور جب تو اس کا کیل (مقدار) معلوم کرلے تو اس کی زکوٰۃ (عشر) ادا کر۔ اور تیسرا قول زکوٰۃ کے حکم کے ساتھ منسوخ ہے، کیونکہ یہ سورت مکیہ ہے اور آیت زکوٰۃ مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی ہے : آیت : خذ من اموالھم صدقۃ ( توبہ :
103
) ( اے حبیب ! وصول کیجئے ان کے مالوں سے صدقہ) اور آیت : واقیوا الصلوٰۃ واٰتوا الزکوٰۃ ( البقرہ :
43
) ( اور صحیح ادا کرو نماز اور دیا کروزکوٰۃ) یہ حضرت ابن عباس، ابن الحنفیہ، حسن، عطیہ العوفی، نخعی اور حضرت سعید بن جبیر ؓ سے مروی ہے۔ اور حضرت سفیان نے کہا ہے : میں نے سدی سے اس آیت کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : عشر اور نصف عشر کے حکم نے اسے منسوخ کردیا ہے، تو میں نے کہا : یہ کس سے منقول ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : علماء سے۔ مسئلہ نمبر
6
: امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے اس آیت کے سبب اور حضور نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کی عمومیت کے سبب کہ ” وہ زمین جسے بارش سیراب کرے (صحیح بخاری، کتاب الزکوٰۃ، جلد
1
، صفحہ
201
) اس کی پیداوار میں عشر ہے اور جسے بڑے یا چھوٹے ڈولوں کے ساتھ سیراب کیا جائے اس میں نصف عشر ہے “۔ ہر اس پیداوار میں زکوٰۃ کو واجب کیا ہے جسے زمین اگاتی ہے چاہے وہ اناج ہو یا کوئی اور۔ اور حضرت امام ابو یوسف (رح) نے آپ سے بیان کیا ہے : سوائے ایندھن کی لکڑی، گھاس، وہ درخت جس کی شاخوں سے کمانیں بنائی جاتی ہیں۔ القصب، انجیر (بعض نسخوں میں تین ہے۔ ) غاف کے درخت کا چھلکا ( غاف ایک انتہائی میٹھے پھل والا درخت ہے) قصب الذریرہ ( خاص قسم کی خوشبو کے پودے) اور قصب السکر ( گنا) کے۔ اور جمہور نے اس کا انکار کیا ہے۔ اور وہ تاویل یہ کرتے ہیں کہ حدیث طیبہ کا مقصود اس زمین کو بیان کرنا ہے جس سے عشر لیا جائے گا اور جس سے نصف عشر لیا جائے گا۔ ابو عمر نے کہا ہے : اس بارے میں علماء کے بابین کوئی اختلاف نہیں ہے جسے تو جانتا ہے کہ گندم، جو، کھجور اور کشمش میں زکوٰۃ واجب ہے۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : ان کے سوا میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔ اسے حضرت حسن، ابن سیرین اور شعبی (رح) سے روایت کیا گیا ہے۔ اور کو فیوں میں سے ابن ابی لیلی، ثوری، حسن ابن صالح، ابن مبارک اور یحییٰ بن آدم رحمۃ اللہ علیھم نے یہی کہا ہے۔ اور اسی طرفابو عبید بھی گئے ہیں۔ اور اسے حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا گیا ہے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے، اور یہی حضرت ابو موسیٰ ؓ کا مذہب ہے، کیونکہ وہ زکوٰۃ نہیں لیتے تھے مگر گندم، جو، کھجور اور کشمش سے۔ اور اسے وکیع امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب نے کہا ہے : ہر وہ خوراک جو ذخیرہ کی جاسکتی ہو اس میں زکوٰۃ (عشر) واجب ہوتی ہے۔ اور یہی امام شافعی (رح) نے کہا ہے۔ اور امام شافعی نے کہا ہے : زکوٰۃ ان چیزوں میں واجب ہوتی ہے جو خشک ہوجائے اور اسے ذخیرہ کیا جاسکتا ہو اور اسے بطور خوراک کھایا جاسکتا ہو۔ اور زیتون میں کوئی شی نہیں ہے کیونکہ وہ ادام ( سالن) ہے۔ اور اسی کی مثل ابو ثور نے بھی کہا ہے۔ اور امام احمد رحمۃ للہ علیہ نے کئی اقوال کہے ہیں ان میں سے اظہر قول یہ ہے کہ زکوٰۃ ان تمام چیزوں میں واجب ہوتی ہے جن کے بارے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے ذکر کیا ہے جب کہ ان کے وسق بنائے جاسکتے ہوں۔ اور انہوں نے اسے بادام میں واجب کیا ہے کیونکہ یہ کیلی چیز ہے لیکن اخروٹ میں نہیں کیونکہ ان کا شمار عددی چیزوں میں ہے ( یعنی یہ گن کر بیچے جاتا ہیں نہ کہ وزن وکیل کے ساتھ) اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : لیس فیما دون خسمۃ اوسق من تمرا وحب صدقۃ (صحیح بخاری، کتاب الزکوۃ، جلد
1
، صفحۃ
314
) ( پانچ سے کم وسق کھجوروں یا دانوں میں کوئی صدقہ ( زکوٰۃ عشر) نہیں ہے) انہوں نے فرمایا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے وضاحت فرما دی ہے کہ واجب کا محل وسق ہے، اور آپ نے اس مقدار کو بیان کردیا ہے جس سے حق ( زکوۃ) نکالنا واجب ہوتا ہے۔ اور امام نخعی (رح) اس طرف گئے ہیں کہ زکوۃ ہر اس پیداوار میں واجب ہے جسے زمین اگائے، یہاں تک کہ سبزی کی دس گانٹھوں میں سے ایک گانٹھ ( بطور زکوٰۃ) واجب ہوگی اور ان سے اس بارے میں اختلاف کیا گیا ہے، اور یہی حضرت عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے کیونکہ انہوں نے لکھا کہ عشر ہر اس پیداوار سے لیا جائے جسے زمین اگاتی ہے چاہے اس کی مقدار قلیل ہو یا کثیر۔ اسے عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے سماک بن فضل سے ذکر کیا ہے، فرمایا : حضرت عمر نے لکھا۔۔۔ پھر آگے اسے ذکر کیا۔ اور یہی قول حماد بن ابی سلیمان اور آپ کے ش اگر رشید حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا ہے۔ اور ابن عربی کا میلان بھی احکام میں اسی طرف ہے (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
759
) پس فرمایا ہے : اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے آپ کو اپنا آئینہ بنایا اور حق کو دیکھ لیا، اور اسے پکڑا جو مذہب حنفی کو قوت اور طاقت دیتا ہے۔ اور انہوں نے کتاب القبس بما علیہ الامام مالک بن انس میں کہا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت : والزیتون والرمان متشابھا وغیر متشابہ اور لوگوں نے ان تمام میں یا بعض میں زکوٰۃ واجب ہونے میں اختلاف کیا ہے جنہوں آیت متضمن ہے۔ تحقیق ہم نے اس کا خلاصہ ” الاحکام “ میں بیان کردیا ہے کہ زکوٰۃ ان چیزوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جنہیں غذا بنایا جاسکتا ہے جیسا کہ ہم نے بیان کردیا ہے نہ کہ سبزیوں وغیر کے ساتھ۔ اور انار، فرسک ( اخروٹ یا اس قسم کی کوئی اور شی) اور اترج ( لیموں کا درخت) طائف میں تھے اور رسول اللہ ﷺ نے اس پر کوئی اعتراض کیا اور نہ اس کا ذکر کیا اور نہ ہی آپ کے خلفاء میں سے کسی نے اس کا ذکر کیا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اگرچہ احکام میں اس کا ذکر نہیں اور یہی صحیح مسئلہ ہے کہ سبزیوں میں کوئی شی نہیں ہے۔ اور رہی آیت تو اس میں اختلاف ہے، کیا یہ محکم ہے یا منسوخ ہے یا ندب پر محمول ہے ؟ اور ایسی کوئی قطعی دلیل نہیں ہے جو اس کے محتملات میں سے ایک کو بیان کرے، بلکہ جو قاطع معلوم ہے وہ وہ ہے جسے ابن بکیر نے اپنی ” احکام “ میں ذکر کیا ہے کہ کوفہ حضور نبی مکرم ﷺ کے وصال کے بعد اور مدینہ طیبہ میں احکام مضبوط اور پختہ ہونے کے بعد فتح ہوا، تو کیا یہ جائز ہے کہ کوئی وہم میں پڑنے والا وہم میں پڑجائے یا جسے ادنی سی بصیرت ہو کہ شریعت اس کی مثل ہو تو وہ معطل کردی گئی ہے اور اس کے مطابق دارالحجرۃ اور محبط وحی میں عمل نہیں کیا گیا اور نہ ہی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت میں، یہاں تک کہ اس کے مطابق کوفہ کے باسیوں نے عمل کیا ؟ بلاشبہ یہ اس کے بارے میں درست ہے جس نے یہ گمان کیا اور اس طرح کہا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : قرآن کریم کے معنی میں سے اس پر جو شے دلالت کرتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت : یآیھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ (المائدہ :
67
) (اے رسول ! پہنچا دیجئے جو اتارا گیا ہے آپ کی طرف آپ کے پروردگا کی جانب سے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو نہیں پہنچایا آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام) کیا آپ یہ گمان کرسکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے کوئی ایسی چیز چھپا رکھی ہوگی جس کی تبلیغ اور بیان کا آپ کو حکم دیا گیا ؟ حاشا وکلا ( ایسا ہر گز ممکن نہیں) اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ( آج میں نے مکمل کردیا ہے تمہارے لیے تمہارا دین اور پوری کردی ہے تم پر اپنی نعمت) اور دین کے کامل ہونے میں سے یہ ہے کہ آپ نے سبزیوں میں سے کوئی شی نہیں لی۔ اور حضرت جابر بن عبداللہ (دارقطنی، کتاب الزکوٰۃ، جلد
2
، صفحہ
100
) ؓ نے اس روایت میں کہا ہے جسے دار قطنی نے بیان کیا ہے : بیشک ہمارے پاس کھیرے، ککڑیاں، پیدا ہونے کی جگہوں میں سے وہ دس ہزار تک نکالے جاتے تھے اور ان میں کوئی شے ( زکوٰۃ) نہ ہوتی تھی۔ اور زہری اور حسن نے کہا ہے : سبزی جب بیچ دی جائے تو اس سے حاصل ہونے والی رقم کی زکوٰۃ دی جائے گی جب اس کے ثمن ( قیمت) دو سو درہم تک پہنچ جائیں۔ اور پھلوں کے ثمن کے بارے امام اوزاعی (رح) نے یہی کہا ہے۔ ان دونوں کے قول میں اس کے لیے کوئی حضت نہیں ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے۔ اور ترمذی نے حضرت معاذ ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ کی طرف لکھا اور سبزیوں کے بارے ( زکوٰۃ) کا حکم دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : لیس فیھا شی (جامع ترمذی، کتاب الزکوٰۃ، جلد
1
، صفحہ
81
) ان میں کوئی شی نہیں ہے اور اسی معنی کی روایت حضرت جابر، حضرت انس، حضرت علی، حضرت محمد بن عبداللہ بن جحش، حضرت ابو موسیٰ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے۔ ان کی احادیث دارقطنی نے ذکر کی ہیں۔ ترمذی نے کہا ہے : اس باب میں حضور نبی مکرم ﷺ سے کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے بعض اصحاب نے صالح بن موسیٰ عن منصور عن ابراہیم عن الاسود عن عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث سے استدلال کیا ہے انہوں نے ارشاد فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” سبزیوں میں سے جو زمین اگائے اس میں زکوٰۃ ہے “۔ فیما انبتت الارض من الخضر زکاۃ (دار قطنی، کتاب الزکوٰۃ، جلد
2
، صفحہ
195
) ابو عمر نے کہا ہے : اس حدیث کو منصور کے ثقہ اصحاب میں سے کسی نے اس طرح روایت نہیں کیا، بلکہ یہ ابراہیم کا قول ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : جب سنت کی جہت سے اسانید ضعیف ہونے کے سبب استدلال ساقط ہوگیا تو پھر کچھ باقی نہ رہا مگر وہی جو ہم نے ذکر کیا ہے کہ آیت کے عموم میں تخصیص مراد ہے۔ اور حضور نبی کریم ﷺ کے ارشاد فیما سقت السماء العشر (صحیح بخاری کتاب الزکوۃ، جلد
2
، صفحہ
201
) کے عموم کے بارے میں جو ہن نے ذکر کیا ہے (وہ ثابت ہوگیا) امام ابو یوسف اور اما محمد رحمۃ اللہ علیہما نے کہا ہے : سبزیوں میں سے کسی میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے سوائے ان کے جن کا پھل باقی رہنے والا ہے اور سوائے زعفران وغیر کے کہ اس کا شماروزنی چیزوں میں ہوتا ہے اور اس میں زکوٰۃ ہے۔ اور امام محمد (رح) عصفر ( زرد رنگ) اور کتان (السی) میں بیج کا اعتبار کرتے ہیں، پس جب ان دونوں کا بیج قرطم ( کڑکے بیج) اور کتان (السی) میں سے پانچ وسق تک پہنچ جائے تو عصفر اور کتان بیج کے تابع ہوں گے، اور اس سے عشر یا نصف عشر لیا جائے گا۔ اور رہی ورئی تو اس میں ان کے نزدیک پانچ سے کم گانٹھوں میں کوئی شی نہیں ہے اور ایک گا نتھ تین سو سیر عراقی کی ہوگی۔ اور ورس ( ایک قسم کی گھاس جو رنگائی کے کام آتی ہے) اور زعفران جب پانچ سیر سے کم ہوں تو ان میں کوئی شی ( زکوٰۃ) نہ ہوگی۔ اور جب ان میں سے کوئی ایک پانچ سیر تک پہنچ جائے تو اس میں صدقہ ( زکوٰۃ) ہوگا، چاہے وہ عشر ہو یا نصف عشر۔ اور امام یوسف (رح) نے فرمایا : اسی طرح ( حکم) اس گنے کا ہے جس سے شکر ( اور چینی) بنتی ہے، اور وہ عشری زمین میں ہو نہ کہ خراجی زمین میں، تو اس میں وہی حکم ہے جو زعفران میں ہے۔ عبد الملک بن ماجشون نے پھلوں کی جڑوں میں زکوٰۃ واجب کی ہے نہ کہ سبزیوں میں۔ اور یہ اس کے خلاف ہے جو موقف امام مالک اور آپ کے اصحاب نے اختیار کیا ہے، ان کے نزدیک کوئی زکوٰۃ نہیں نہ بادام میں، نہ اخروٹ میں اور نہ ہی بندق میں اور جو بھی ان کی مثل ہے، اگرچہ انہیں ذخیرہ کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ ان کے نزدیک ناشپاتی، سیب اور امرود میں کوئی زکوۃ نہیں ہے اور نہ ہی ان چیزوں میں جو ان کی مثل ہیں نہ خشک ہوتی ہے اور نہ ذخیرہ کی جاسکتی ہے، البتہ انجیر میں اختلاف ہے۔ اور اہل مغرب میں سے جو امام مالک (رح) کا مذہب رکھتے ہیں ان کے نزدیک مشہور قول یہ ہے کہ انجیر میں زکوۃ نہیں ہے، مگر عبدالملک بن حبیب یہ رائے رکھتے ہیں کہ امام مالک (رح) کے مذہب کے مطابق اس میں زکوۃ ہے۔ وہ اسے کجھور اور کشمش پر قیاس کرتے ہیں اور بغداد کے مالکی مذہب رکھنے والے اہل علم کی ایک جماعت نے یہی موقف اختیار کیا ہے، ان میں اسماعیل بن اسحاق اور ان کے متبعین ہیں۔ امام مالک (رح) نے مؤطا میں کہا ہے : وہ سنت جس میں ہمارے نزدیک کوئی اختلاف نہیں، اور وہ جو میں نے اہل علم سے سنا ہے کہ ہر قسم کے پھلوں میں سے کسی میں کوئی زکوٰۃ نہیں، انار، خرسک اور انجیر اور جو ان کے مشابہ ہیں۔ اور جو ان کے مشابہ نہیں بشرطیکہ وہ فواکہ ( پھلوں) میں سے ہوں۔ ابو عمر نے کہا ہے : پس آپ نے انجیر کو اس باب میں داخل کیا ہے اور میرا گمان ہے ( واللہ اعلم) آپ کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ اسے خشک کیا جاتا ہے اور ذخیر کیا جاتا ہے اور اسے خوراک بنایا جاتا ہے، اگر آپ کو اس کا علم ہوتا تو آپ اسے اس باب میں داخل نہ کرتے۔ کیونکہ یہ انار سے بڑھ کر کھجور اور کشمش کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے۔ اور مجھے علامہ ابہری اور آپ کے اصحاب کی ایک جماعت سے یہ خبر پہنچی ہے کہ وہ اس میں زکوۃ کے وجوب کا فتویٰ دیتے ہیں، اور وہ اپنے نزدیک اسے امام مالک (رح) کے مذہب کے اصول پر دیکھتے ہیں۔ اور انجیر اکیلی شی ہے اس میں پانچ وسقوں کی رعایت کی جائے گی اور وہ شے جو وزن کے اعتبار سے ان کی مثل ہو اور ان کے نزدیک انجیر میں کھجور اور کشمش کا حکم لگایا جائے گا جن پر تمام کا اجماع ہے۔ اور امام شافعی نے کہا ہے : کھجور اور انگور کے سوا پھلوں میں سے کسی شی میں کوئی زکوۃ نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں سے زکوۃ وصول کی ہے اور یہ دونوں اہل حجاز کی خوراک تھی جسے ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ انہوں نے فرمایا : کبھی اخروٹ اور بادام کو بھی ذخیرہ کیا جاتا ہے لیکن ان دونوں میں زکوۃ نہیں، کیونکہ یہ دونوں چیزیں حجاز میں خوراک نہیں بنیں، جتنا مجھے علم ہے، بلاشبہ یہ دونوں پھل ہیں۔ اور زیتون میں زکوۃ نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد آیت : والزیتون والرمان پس اسے رمان ( انار) کے ساتھ ملایا ہے اور اس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہ انجیر غذا اور خوراک میں اس سے زیادہ نفع بخش ہے اور اس میں زکوۃ نہیں ہے۔ اور امام شافعی (رح) کا ایک قول یہ ہے کہ زیتون میں زکوۃ ہے انہوں نے یہ عراق میں کہا اور پہلا قول مصر میں کہا : پس زیتون کے بارے میں امام شافعی (رح) کا قول مضطرب ہوگیا، اور اس میں امام مالک (رح) کا قول مختلف نہیں، تو یہ اس پر دلیل ہے کہ ان دونوں کے نزدیک آیت محکم ہے منسوخ نہیں۔ اور دونوں نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ انار میں زکوۃ نہیں ہے اور اس میں زکوٰۃ کو واجب کرنا دونوں کو الزام دینا ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے : اگر انار اس اتفاق سے نکل چکا ہے تو اس سے یہ معنی ظاہر ہوا کہ آیت اپنے عموم پرن ہیں ہے اور ضمیر عائد مذکور چیزوں میں سے بعض کی طرف راجع ہے اور بعض کی طرف نہیں۔ واللہ اعلم میں (مفسر) کہتا ہوں : اس سے انہوں نے استدلال کیا ہے جنہوں نے سبزیوں میں عشر واجب کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : واتوا حقہ یوم حصادی اور اس سے پہلے زیتون اور انار کا ذکر کیا گیا ہے اور جس کا ذکر جملہ کے بعد ہو وہ بلا اختلاف اخیر کی طرف پھرجاتا ہے۔ ال کیا طبری نے یہ کہا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں نے کبھی بھی انار کو پیوند نہیں لگایا مگر باغ کے پانی میں سے ایک قطرہ کے ساتھ۔ اور حضرت علی کر ما للہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب تم انار کو کھاؤ تو تم اسے دانوں کے باریک چھلکے سمیت کھاؤ، کیونکہ وہ معدے کو صاف کرتا ہے۔ اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں حضرت ابن عباس ؓ سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا تم انار کو اس کے سرے سے نہ توڑو کیونکہ اس میں ایک کیڑا ہوتا ہے جس سے جذام کی بیماری لگ جاتی ہے۔ زیتون کے تیل کے فوائد عنقریب سورة المومنون میں آئیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور جنہوں نے کہا ہے کہ زیتون میں زکوٰۃ واجب ہے ان میں سے زہری، اوزاعی، لیث، ثوری، امام اعظم ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیھم ہیں۔ زہری، اوزاعی اور لیث نے کہا ہے : زیتون کا تخمینہ لگایا جائے گا اور اس سے صاف تیل لے لیا جائے گا۔ اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : اندازہ نہیں لگایا جائے گا، البتہ اس کا تیل نکالے جانے کے بعد اس سے عشر لیا جائے گا، جب کہ اس کا ماپ پانچ وسق تک پہنچ جائے۔ اور امام اعظم اور ثوری رحمۃ اللہ علیہما نے کہا ہے : اس کے دانوں سے عشر لیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر
7
: قولہ تعالیٰ : آیت : یوم حصادی ابو عمرو، ابن عمر اور عاصم نے حصادی حا کے فتحہ کے ساتھ قرا ئت کی ہے، اور باقیوں نے کسرہ کے ساتھ، اور یہ دونوں لغتیں مشہور ہیں۔ اور اسی کی مثل الصرام اور الصرام، الجذاذ اور الجذاذ، القطاب اور القطاب ہیں۔ زکوٰۃ واجب ہونے کے وقت کے بارے میں علماء کے تین مختلف قول ہیں : (
1
) زکوٰۃ واجب ہونے کا وقت فصل کاٹنے کا وقت ہے۔ محمد بن مسلمہ نے یہی کہا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : یوم حصادہ۔ (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
762
) (
2
) اس کا وقت پکنے کے ایام ہیں، کیونکہ (کھیتی) پکنے سے پہلے پہلے نہ چارہ ہوتی ہے، نہ غذا اور نہ ہی طعام اور جب وہ پک جائے اور وہ اس کھانے کے وقت کو پہنچ جائے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے تو پھر وہ حق واجب ہوجاتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، کیونکہ نعمت مکمل ہوجانے کے ساتھ اس نعمت کا شکر ادا کرنا واجب ہوجاتا ہے، اور اس کی ادائیگی کٹائی کے وقت ہوگی جب کہ وہ واجب پکنے کے وقت ہوجاتا ہے (ایضا) ۔ (
3
) حق کا وجوب اندازہ مکمل کرنے کے بعد ہوتا ہے، کیونکہ اس وقت اس میں واجب زکوۃ ثابت ہوجاتی ہے اور یہ زکوٰۃ کے وجوب کے لیے شرط ہے۔ اس کی اصل زکوٰۃ وصول کرنے والے کا ریوڑ میں آنا (ایضا، جلد
2
، صفحہ
763
) ، یعنی حضرت مغیرہ ؓ نے کہا ہے۔ نص قرآنی کے مطابق پہلا قول صحیح ہے۔ اور مذہب ثانی مشہور ہے اور یہی امام شافعی (رح) نے کہا ہے۔ اور اس اختلاف کا فائدہ یہ ہے کہ جب کوئی فصل پکنے کے بعد فوت ہوگیا تو اس کی زکوٰۃ اس کی ملکیت سے ادا کی جائے گی یا وہ اندازہ لگانے سے پہلے فوت ہوگیا تو اس کی زکوٰۃ اس کے وارثوں پر ہوگی۔ اور حضرت محمد بن مسلمہ نے کہا ہے : پھل کے مالکوں کو وسعت دینے کے لیے اندازہ لگانے کو مقدم کیا گیا ہے اور اگر کسی آدمی نے اندازہ لگانے کے بعدا پنی زکوٰۃ کو مقدم کیا اور کاٹنے سے پہلے پہلے ادا کردی تو وہ اس کی طرف سے جائز نہ ہوگی، کیونکہ اس نے اسے واجب ہونے سے پہلے نکال دیا ہے۔ اور اندازہ لگانے کے بارے علماء کے مختلف قول ہیں۔ اور وہ یہ ہیں۔ مسئلہ نمبر
8
۔ ثوری نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور کسی حال میں اس کی اجازت نہیں دی ہے، اور انہوں نے فرمایا : اندازہ لگانا مستعمل نہیں۔ انہوں نے فرمایا : بلاشبہ باغ کے مالک پر لازم ہے کہ وہ اس کا عشر مساکین کو ادا کرے جو اس کے قبضے میں ہو جب وہ پانچ وسق تک پہنچ جائے۔ اور شیبانی (رح) نے حضرت شعبی (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : موجودہ دور میں اندازہ لگانا بدعت ہے۔ اور جمہور اس کے خلاف ہیں۔ جس پر ان کا اختلاف ہوا ہے اور اس کے جواز پر اسب سے بڑی دلیل کھجور اور انگور کے بارے میں ہے کہ حضرت عتاب بن اسید ؓ (سنن ابی داؤد، کتاب الزکوٰۃ، جلد
1
، صفحہ
226
) کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں بھیجا اور حکم فرمایا کہ وہ اسی طرح انگوروں کا اندازہ لگا لیں جس طرح کھجوروں کا تخمینہ لگاتے ہیں۔ اور اس کی زکوٰۃ میں کشمش لے لی جائے جس طرح کھجوروں کی زکوٰۃ میں تمر ( پکی کھجوریں) لے لی جاتی ہیں۔ اسے ابو داؤد نے بیان کیا ہے۔ اور داؤد بن علی نے کہا ہے : زکوٰۃ کے لیے کھجوروں میں اندازہ لگانا جائز نہیں ہے اور انگور میں جائز نہیں ہے اور حضرت عتاب بن اسید ؓ کی حدیث کا جواب یہ ہے کہ کہ حدیث منقطع ہے اور صحیح سند سے متصل نہیں ہے ابو محمد عبدالحق نے یہی کہا ہے۔ مسئلہ نمبر
9
۔ اندازہ لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی مقدار کا اندازہ لگایا جائے جو کھجور کے درخت پر تر کھجوریں ہیں اور ان کی مقدار کا اندازہ لگایا جائے جو ان میں ناقص ہوں اگر وہ پک کر تیار ہوتیں پھر نقصان کے بعد جو ما بقی ہیں انہیں شمار کیا جائے اور ان بعض کو بعض سے ساتھ ملایا جائے گا یہاں تک کہ باغ مکمل ہوجائے، اور اسی طرح انور کا بھی اندازہ لگایا جائے گا۔ مسئلہ نمبر
10
۔ اندازے لگانے کے لیے ایک آدمی ہی کافی ہوتا ہے جیسا کہ حاکم۔ اور جپ پکی ہوئی کھجوریں اس کے اندازہ سے بڑھ جائیں تو پھر باغ کے مالک پر ان میں سے ( مزید زکوٰۃ) نکالنا لازم نہیں، کیونکہ اب فیصلہ نافذ ہوچکا ہے، عبدالوہاب نے یہی کہا ہے اور اسی طرح جب مقدار کم ہوجائے تو پھر زکوٰۃ کم نہیں ہوگی۔ حسن نے کہا ہے : مسلمانوں پر اندازہ لگایا جاتا تھا اور پھر اسی اندازہ کے مطابق ان سے زکوٰۃ وصول کی جاتی تھی۔ مسئلہ نمبر
11
۔ اگر باغ کا مالک اندازے میں کثرت اور زیادتی کا مطالبہ کرے تو اندازے لگانے والا اسے اس بارے میں اختیار دے دے کہ وہ اسے اس کے مطابق زکوٰۃ ادا کرے جتنا اس نے اندازہ لگایا ہے اور وہ اس کے اندازہ کے مطابق لے لے۔ اسے عبدالرزاق نے ذکر کیا ہے۔ ہمیں ابن جریج نے حضرت ابو الزبیر ؓ سے خبر دی ہے کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت ابن رواحہ ؓ نے چالیس ہزار وسق کا اندازہ لگایا اور یہ گمان کیا گیا ہے کہ یہودیوں کو جب آپ نے اختیار دے دیا تو انہوں نے کھجوریں لے لیں اور انہیں بیس ہزار وسق دے دیئے۔ انن جریج نے کہا ہے : تو میں نے حضرت عطا کو کہا : تو (کیا) اندازے لگانے والے پر لازم ہے کہ جب مال کا مالک اندازے میں زیادتی اور کثرت کا مطالبہ کرے تو وہ اسے اختیار کر دے دے جیسا کہ حضرت ابن روحہ ؓ نے یہودیوں کو اختیار دیا ؟ تو انہوں نے فرمایا : مجھے میری عمر کی قسم ! کون سی سنت رسول اللہ ﷺ کی سنت سے بہتر اور افضل ہے۔ مسئلہ نمبر
12
۔ اور اندازہ نہیں ہوتا مگر پکنے کے بعد، کیونکہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث ہے انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ حضرت ابن رواحہ ؓ کو یہودیوں کی طرف بھیجتے تھے (دار قطنی، کتاب الزکوٰۃ، جلد
2
، صفحہ
134
) اور وہ ان پر کھجوروں کا تخمینہ لگاتے تھے جس وقت پہلی کھجوریں پک جاتیں اس سے پہلے کہ ان میں سے کچھ کھائی جائیں۔ پھر آپ یہودیوں کو اختیار دیتے تھے کہ چاہے تو وہ انہیں اس اندازے کے مطابق لے لیں یا وہ انہیں آپ کو دے دیں۔ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے اندازے لگانے کا حکم دیا تاکہ زکوٰۃ شمار کرلی جائے اس سے پہلے کہ پھل کھایا جائے اور اسے تقسیم کیا جائے۔ اسے دارقطنی نے ابن جریج عن الزہری عن عروہ عن عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث سے بیان کیا ہے۔ فرمایا : اور صالح بن ابی الاخضر نے اسے زہری عن ابن مسیب کی سند سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے۔ اور مالک، معمر اور عقیل نے اسے زہری عن سعید عن النبی ﷺ کی سند سے مرسل ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
13
۔ جب تخمینہ لگانے والا تخمینہ لگا لے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کے اندازہ میں سے کچھ مقدار ساقط کردی جائے، کیونکہ ابو داؤد، ترمذی اور بستی نے اپنی صحیح میں حضرت سہل بن ابی حثمہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ فرماتے تھے : ” جب تم تخمینہ لگاؤ تو لے لو اور تیسرا حصہ چھوڑ دو اور اگر تم تیسرا حصہ نہ چھوڑو تو چوتھا حصہ چھوڑ دو “ (سنن ابی داؤد، کتاب الزکوٰۃ، جلد
1
، صفحہ
226
) ۔ یہ ترمذی کے الفاظ ہیں۔ بو داؤد نے کہا ہے : اندازہ لگانے والا تیسرا حصہ خرفہ ( چنا ہوا میوا) کے لیے چھوڑدے گا۔ اور اسی طرح یحییٰ القطان نے کہا ہے۔ اور ابو حاتم البستی نے کہا ہے : اس خبر کی دو صفتیں ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عشر میں سے تہائی یا چوتھائی چھوڑدے اور دوسری یہ ہے کہ وہ عشر لگانے سے پہلے کل کھجوروں میں سے اتنی مقدار چھوڑ دے، جب کہ وہ بہت بڑا باغ ہو اس کا احتمال رکھتا ہو۔ الخرفۃ کاء کے ضمہ کے ساتھ ہے یعنی کھجوروں میں سے وہ جنی جاتی ہیں جس وقت وہ اپنے پھل کو پاتا ہے۔ کہا جاتا ہے : التمرخرفۃ الصائم ( کجھور روزے دار کا چنا ہوا پھل ہے) یہ جوہری اور ہر وی سے منقول ہے۔ اور امام مالک (رح) کا مشہور مذہب یہ ہے کہ اندازہ لگانے والا اپنے اندازہ لگانے کے وقت کھجوروں اور انگوروں میں سے کوئی شی نہیں چھوڑے گا مگر وہی جو اس نے اندازہ لگایا۔ اور مدینہ طیبہ کے بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ وہ اندازے میں تخفیف کرے گا اور وہ محتاجوں کے لیے صلہ رحمی وغیرہ کے لیے کچھ چھوڑ دے گا ( یعنی غربا و مساکین کو دینے کے لیے اور رشتہ داروں اور دوست احباب کو دینے کے لیے) مسئلہ نمبر
14
اگر اندازے لگائے جانے کے بعد اور انہیں توڑنے سے پہلے پھل پر کوئی آفت آجائے ( اور وہ خراب ہوجائے) تو اس سے زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی اس پر اہل علم کا اجماع ہے، مگر اس صورت میں کہ اس میں سے پانچ وسق یا اس سے زیادہ مقدار باقی رہ جائے (تو اس مطابق اس پر زکوٰۃ ہوگی) ۔ مسئلہ نمبر
15
۔ اور پانچ وسقوں سے کم مقدار میں کوئی زکوٰ ۃ نہیں ہے، اسی طرح حضور نبی مکرم ﷺ سے واضح طور پر مروی ہے۔ اور یہ کتاب اللہ میں مجمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : یایھا الذین امنوا انفقوا من طیبٰت ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض ( البقرہ :
267
) ( اے ایمان والو ! خرچ کیا کرو عمدہ چیزوں سے جو تم نے کمائی ہیں اور اس سے جو نکالا ہے ہم نے تمہارے لیے زمین سے) اور مزید ارشاد فرمایا : آیت : واتوا حقہ پھر عشر اور نصف عشر کے ساتھ اس اجمال کا بیان واقع ہوا، پھر جب وہ مقدار کہ جب مال اس تک پہنچ جائے تو اس سے حق (زکوٰۃ) لیا جائے گاج، وہ مجمل تھے تو اس کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیا اور فرمایا : لیس فیما دون خمسۃ اوسق من تمر اوحب صدقۃ ( صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ، جلد
1
، صفحہ
316
) (کہ کھجور یا دانوں ( اناج) کی وہ مقدار جو پانچ اوسق سے کم ہو اس میں صدقہ ( زکوۃ) نہیں ہے) ۔ اور یہ ارشاد سبزیوں میں زکوٰۃ کی نفی کرتا ہے، کیونکہ وہ ان چیزوں میں سے نہیں ہیں جن کے وسق بنائے جاتے ہیں۔ پس جسے اپنے حصہ میں کھجوروں یا اناج میں سے پانچ وسق حاصل ہوجائیں اس پر زکوٰۃ واجب ہے، اور اسی طرح حکم کشمش کا ہے۔ اور یہی علماء کے نزدیک نصاب کے نام کے ساتھ موسوم ہے۔ کہا جاتا ہے : وسق ووسق ( یعنی واؤ مکسور بھی ہے اور مفتوح بھی) اس کی مقدار ساٹھ صاع ہے، اور ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں اور ایک مد میں ایک رطل بغدادی اور اس کا تہائی حصہ۔ اور مجموعی طور پر پانچ اوسق کی مقدار مد کے اعتبار سے ایک ہزار دو سومد ہے اور یہ وزن کے اعتبار سے ایک ہزار چھ سو رطل ہے۔ مسئلہ نمبر
16
۔ اور جسے کھجور اور کشمش کے مجموعی طور پر پانچ وسق حاصل ہوں اس پر بالاجماع زکوٰۃ لازم نہیں، کیونکہ یہ دو مختلف جنسیں ہیں اور اسی طرح علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ کھجور کو گندم کے ساتھ اور گندم کو کشمش کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا اور نہ ہی اونٹ کو گائے کے ساتھ اور نہ گائے کو بکری کے ساتھ ملایا جائے گا، البتہ بکریوں کو بھیڑوں کے ساتھ ملا دیا جائے گا اس پر اجماع ہے اور گندم کو جو اور بغیر چھلکے والے جو کے ساتھ ملانے میں اختلاف ہے۔ اور وہ یہ ہے : مسئلہ نمبر
17
۔ امام مالک (رح) نے صرف ان تین میں اس کی اجازت دی ہے، کیونکہ یہ ایک قسم (جنس) کے معنی میں ہیں اس لیے کہ ان کی منفعت اور فواہد ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں اور یہ اگنے اور کٹائی میں بھی آپس میں جمع ہیں۔ اور ان میں افتراق نام کے اعتبار سے ہے اور یہ حکم میں ان کے الگ الگ ہونے کو ثابت نہیں کرتا جیسا بھینسیں اور گائیں، بھیڑیں اور بکریاں۔ اور امام شافعی (رح) وغیرہ نے کہا ہے : انہیں جمع نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ مختلف اقسم ہیں، ان کی صفات جدا جدا ہیں، ان کے نام ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان کا ذائقہ الگ الگ ہے۔ اور یہی ان کے افتراق کو ثابت کرتا ہے۔ واللہ اعلم امام مالک (رح) نے کہا ہے : دالیں تمام کی تمام ایک نوع ہیں، ان میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : ایسے دانے جن کے نام کی دوسرے سے الگ پہنچان ہو اسے نہیں ملایا جائے گا، کیونکہ وہ خلقت (بناوٹ) اور ذائقے وغیرہ میں دوسرے سے جدا اور مختلف ہوتا ہے اور ہر قسم کو آپس میں ملا دیا جائے گا، یونی اس کی ردی قسم کو جید کے ساتھ، جیسا کہ کھجور اور اس کی انواع، کشمش سیاہ رنگ کی اور سرخ رنگ کی، گندم اور اس کی اقسام گندمی وغیرہ۔ اور یہی ثوری، امام اعظم ابو حنیفہ، آپ کے صاحبین امام یوسف اور امام محمد اور ابو ثور (رح) کا قول ہے۔ اور لیث نے کہا ہے : تمام دانوں کو آپس میں ملا دیا جائے گا یعنی دالیں وغیرہ انہیں زکوٰۃ میں ایک دوسرے میں ضم کردیا جائے گا۔ اور حضرت امام احمد بن حنبل (رح) سونے کو چاندی کے ساتھ ملانے سے اور دانوں میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملانے سے ہچکچاتے تھے، پھر اپنے حکم کے آخر میں کہا کرتے تھے، وہ اس میں امام شافعی (رح) کے قول کے مطابق کہہ رہے ہیں۔ مسئلہ نمبر
18
امام مالک (رح) نے بیان کیا ہے : ( کھیتی کی) وہ مقدار جسے ان کے مالک نے اس کے پکنے کی صلاحیت ظاہر ہونے کے بعد یا اس کے بعد کہ اسے ہاتھ میں مل کردانے نکال کر کھایا جاسکے، ضائع کردیا تو اس کا حساب اس پر ڈالا جائے گا اور اس کی وہ مقدار جو اس کے مالک نے اسے کاٹنے اور اسے توڑنے کے دوران کسی کو دی اور زیتون میں سے اسے چننے کی حالت میں کسی کو دی، اسے تلاش کر کے اس پر حساب ڈالا جائے گا۔ اور اکثر فقہاء اس مسئلہ میں ان سے اختلاف کرتے ہیں اور وہ زکوٰۃ واجب نہیں کرتے مگر صرف اسی مقدار پر جو گاہنے کے بعد اس کے قبضے میں موجود ہو۔ حضرت لیث (رح) نے دانوں کی زکوٰۃ کے بارے کہا ہے : نفقہ ( خرچہ) سے پہلے اس (زکوٰۃ) سے آغاز کیا جائے گا اور چھلکوں سے نکلے ہوئے دانے اس نے اور اس کے گھر والوں نے کھا لیے تو ( ان کا) اس پر حساب نہیں لگایا جائے گا، یہ ان تازہ پکی کھجوروں کے قائم مقام ہیں جو باغ کے مالک کے اہل کے لیے چھوڑ دی جاتی ہیں وہ اسے کھاتے ہیں اور ان پر ان کا تخمینہ نہیں لگایا جاتا۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : تخمینہ لگانے والا باغ کے مالک کے لیے اتنی کھجوروں کی مقدار چھوڑ دے گا جسے وہ خود اور اس کے گھر والے کھائیں گے اور وہ اس کا تخمینہ ان پر نہیں لگائے گا۔ اور تازہ پکی کھجوروں کی جو مقدار اس نے خود کھالی اس کا حساب اس پر نہیں ڈالا جائے گا۔ ابو عمر نے کہا ہے : امام شافعی (رح) اور آپ کی موافقت کرنے والوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : آیت : کلوا من ثمری اذا اثمرواتوا حقہ یوم حصادی اور انہوں نے اس پر استدلال کیا ہے کہ اس آیت کے مطابق کٹائی سے پہلے کھائی جانے والی مقدار کا حساب نہیں لگایا جائے گا۔ اور انہوں نے آپ ﷺ کے اس ارشاد سے بھی استدلالا کیا ہے : ” جب تم تخمینہ لگاؤ تو تہائی چھوڑ دو اور اگر تم تہائی نہ چھوڑو تو چوتھائی چھوڑدو “ (سنن ابی داؤد، کتاب الزکوٰۃ، جلد
1
، صفحہ
226
) ۔ اور جتنی مقدار جوپاؤں اور بیلوں نے گاہنے کے وقت کھالی امام مالک (رح) وغیر کے نزدیک اس میں سے کسی شی کا حساب اس کا مالک پر نہیں ڈالا جائے گا۔ مسئلہ نمبر
19
۔ لوبیا، چنے اور مڑ میں سے سبز حالت میں جو بیچ دیئے گئے، خشک حالت میں اس کی مقدار کا اندازہ لگایا جائے اور دانوں کی صورت میں اس کی زکوٰۃ نکالی جائے۔ اس طرح پھل میں سے جو سبز حالت میں بیچ دیا گیا تو اس کی چھان بین کی جائے اور اس کی (تلاش کا) قصد کیا جائے اور خشک حالت میں اس کا اندازہ لگایا جائے اور پھر اس اندازے کے مطابق کشمش اور پکی کھجوروں کی صورت میں اس کی زکوٰۃ نکالی جائے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے ثمن ( قیمت) سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔ مسئلہ نمبر
20
۔ اور کھجور کے پھل میں سے جو پکی کھجور نہ بنے اور انگور میں سے جو کمشمش نہ بنے جیسا کہ مصر کا انگور اور وہاں کے ڈو کے ( کچی کھجور) اور اسی طرح وہاں کا زیتون جس سے تیل نہیں نکالا جاتا، تو اس کے بارے امام مالک (رح) نے فرمایا : اس کی زکوۃ اس کے ثمن سے نکالی جائے گی اور اس کے سوا اس کے مالک کو کسی شی کا مکلف اور پابند نہیں بنایا جائے گا۔ اور نہ ہی اس میں اس کے ثمن کے بیس مثقل یا دو سو درہم تک پہنچنے کی رعایت کی جائے گی، بلکہ اس میں صرف اتنا دیکھا جائے گا کہ اس کی مقدار پانچ اوسق اور اس سے زیادہ تک پہنچ جائے۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : اس کے درمیان سے پکی کھجوروں کی صورت میں اس کا عشر یا نصف عشر نکالا جائے گا، جب اس کے گھر والوں نے انہیں تازہ حالت میں کھایا یا وہ کسی کو کھلائیں۔ مسئلہ نمبر
21
۔ ابو داؤد نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” وہ زمین جس بارش، دریاؤں اور چشموں کے پانی سے سیراب کیا جائے یا وہ بارانی زمین ہو تو اس کی پیداوار میں عشر ہوگا اور جسے اونٹنیوں یا اونٹوں کے ساتھ سیراب کیا جائے تو اس میں نصف عشر ہوگا اور اسی طرح اگر وہ جاری پانی سے سیراب ہوئی ہو تو اس میں عشر ہو گاـ“ (سنن ابی داؤد، کتاب الزکوٰۃ، جلد
1
، صفحہ
225
) اور سیح سے مراد وہ پانی جو سطح زمین پر جاری ہو۔ ابن السکیت نے یہی کہا ہے۔ اور سیح کا لفظ حدیث میں مذکور ہے، اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔ اور اگر وہ جاری پانی سے سیراب ہوئی ہو لیکن زمین کا مالک پانی کا مالک نہ ہو بلکہ وہ اس کے لیے اس کا کرایہ دیتا ہو تو وہ آسمان کے پانی ( بارش) کی طرح ہے۔ مشہور مذہب یہی ہے۔ اور ابو الحسن لحمی نے کہا ہے کہ وہ نضح ( اونٹ کے ساتھ سیراب کرنے) کے حکم میں ہے، پس اگر ایک بار اسے آسمان کے پانی کے ساتھ سیراب کیا گیا اور ایک بار ڈول ( راہٹ) کے ساتھ۔ تو امام مالک (رح) نے کہا ہے : تو اس کی طرف دیکھا جائے گا جس کے ساتھ کھیتی مکمل ہوئی ہے اور وہ بڑھتی اور نشوونما پاتی رہی ہے اور حکمک اسی پر معلق ہوگا۔ یہ ابن القاسم کی ان سے روایت ہے۔ اور ابن وہب نے ان سے یہ روایت بیان کی ہے کہ جب نصف سال چشموں کے ساتھ سیراب کیا گیا پھر وہ پانی منقطع ہوگیا اور بقیہ سال اسے اونٹوں کے ساتھ سیراب کیا گیا تو بلاشبہ اس پر اس کی نصف زکوٰۃ عشر ہوگی اور نصف آخر نصف عشر ہوگی۔ اور ایک بار کہا ہے : اس کی زکوۃ اس کے مطابق ہوگی جس کے ساتھ اس کی حیات مکمل ہوئی۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : وہ ان دونوں میں سے ہر ایک کی اس کے حساب سے زکوٰۃ دے گا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ وہ دو مہینے کے ساتھ پانی پلائے اور چار مہینے آسمان کا پانی، تو اس میں آسمان کے پانی کی وجہ سے عشر کے دو مثلث ہوں گے اور اونٹ کے ساتھ سیراب کرنے کی وجہ سے عشر کا چھٹا حصہ ہوگا۔ اور اسی کے مطابق بکار بن قتیبہ فتوی دیتے تھے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف (رح) نے کہا ہے : اغلب کی طرف دیکھا جائے گا اور اسی کے مطابق زکوٰۃ دی جائے گی اور ماسوٰی کی طرف توجہ نہیں کی جائے گدی۔ اور یہی امام شافعی (رح) سے مروی ہے۔ امام طحاوی (رح) نے کہا ہے : تمام نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ اگر اس نے اسے ایک دن یا دو دن بارش کے پانی کے ساتھ سیراب کیا تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور اس کے لیے کوئی حصہ نہیں رکھا جائے گا، تو یہ اس پر دلیل ہے کہ اعتبار اغلب کا ہے۔ واللہ اعلم میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ تمام کے تمام اس آیت کے احکام میں سے ہیں، شاید ہمارے سوا کوئی اور اس سے زیادہ بھی بیان کرے گا جتنا اللہ تعالیٰ اس کے لیے منکشف فرمائے گا۔ اس آیت کے تمام معنی سورة البقرہ میں گزر چکے ہیں۔ والحمد اللہ مسئلہ نمبر
22
۔ اور رہا حضور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد گرامی : لیس فی حب ولا تمر صدقۃ ( سنن نسائی، کتاب الزکوٰۃ، جلد
5
، صفحہ
39
) ( دانوں اور کھجوروں میں صدقہ ( زکوٰۃ) نہیں ہے) اور اسے نسائی نے نقل کیا ہے۔ تو حمزہ کنانی نے کہا ہے : اس حدیث میں فی حب کے الفاظ اسماعیل بن امیہ کے بغیر کسی نے ذکر نہیں کیے اور وہ ثقہ اور قریشی ہے اور سعید خدری ؓ کے سوا کسی نے روایت نہیں کیا۔ ابو عمر نے کہا ہے : یہ ایسے ہی ہے جیسے حمزہ نے کہا ہے اور یہ بہت بڑی اور عظیم سنت ہے جس کو تمام نے قبولیت کے ساتھ لیا ہے، اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کے سوا کسی نے ثابت اور محفوظ سند کے ساتھ اسے حضور نبی کریم ﷺ سے روایت نہیں کیا۔ اور حضرت جابر ؓ نے حضور نبی مکرم ﷺ سے اس کی مثل روایت بیان کی ہے، لیکن وہ غیرب ہے اور ہم نے اسے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے اسناد حسن کے ساتھ پایا ہے۔ مسئلہ نمبر
23
۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تسرفوا اسراف کا لغوی معنی خطا ( غلطی) کرنا ہے۔ ایک اعرابی نے ایک قوم کے ارادہ سے کہا : طلبکم فسرفتکم یعنی میں نے تمہاری جگہ (پانے میں) غلطی کھائی۔ اور شاعر نے کہا : وقال قائلھم والخیل تخبطھم اسرفتم فاجبنا اننا سرف اور نفقہ اور خرچہ میں اسراف کرنے کا معنی ہوتا ہے فضول خرچی کرنا۔ اور مسرف لقب ہے مسلم بن عقبہ مری کا جو کہ واقعہ حرہ میں قائد تھا، کیونکہ اس نے اس میں انتہائی اسراف ( فضول خرچی) کی۔ علی بن عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا ہے : ھم منعوا ذماری یوم جاءت کتائب مسرف وبنی اللکیعہ اور آیت میں معنی مقصود یہ ہے کہ تم کسی شی کو بغیر حق کے نہ لو کہ پھر تم اسے ایسی جگہ رکھو جو اس کا حق نہیں۔ اصبغ بن فرج نے یہ کہا ہے۔ اور اسی طرح ایاس بن معاویہ کا قول ہے : جس شی کے ساتھ بھی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے تجاوز کرے تو وہی سرف اور اسراف ہے۔ اور ابن زید نے کہا ہے : یہ والیوں کے لیے خطاب ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تم اپنے حق سے زیادہ کوئی شی نہ لو اور نہ وہ شے جو لوگوں پر واجب اور لازم نہیں ہوئی۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ان دونوں معنوں کا احتمال رکھتا ہے : المعتدی فی الصدقۃ کما نعھا (جامع الترمذی، کتاب الزکوٰۃ، جلد
1
، صفحہ
82
) (صدقہ میں زیادتی کرنے والا اسے روکنے والے کی طرح ہے۔ ) اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : اگر ابو قبیس (پہاڑ) کسی آدمی کے لیے سونا ہوجائے اور وہ اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں خرچ کر دالے تو وہ اسراف (فضول خرچی) کرنے والا نہیں ہوگا اور اگر اس نے ایک درہم یا ایک مد اللہ تعالیٰ کی معصیت میں خرچ کیا ترو وہ مسرف ہوگیا۔ اور اسی معنی میں حاتم کو کہا گیا : لا خیر فی السرف فضول خرچی میں کوئی خیر نہیں ہے تو اس نے جواب دیا : لا سرف فی الخیر ( خیر اور نیکی میں کوئی فضول خرچی نہیں ہے) میں ( مفسر) کہتا ہوں : یہ قول ضعیف ہے اور اسے وہ حدیث رد کرتی ہے جسے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ نے روایت کیا ہے کہ ثابت بن قیس بن شماس ؓ نے پانچ سو کھجور کے درختوں کا قصد کیا اور انہیں توڑا پھر انہیں ایک دن میں تقسیم کردیا اور اپنے گھر والوں کے لیے کوئی شی نہ چھوڑی، تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی : آیت : ولا تسرفوا یعنی تم سارے کا سارا مال نہ دو ۔ اور عبدالرزاق نے ابن جریج سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا : حضرت معاذ بن جبل ؓ نے کھجور کا ایک درخت توڑا اور اسے صدقہ کرتے رہے یہاں تک کہ اس سے کوئی شی باقی نہ رہی، تو یہ حکم نازل ہوا : ولا تسرفوا (اور تم اسراف نہ کرو) ۔ حضرت سدی نے کہا ہے : ولا تسرفوا کا معنی ہے : تم اپنے مال اس طرح (دوسروں کو) نہ دو کہ تم خود فقیر ہو کر بیٹھ رہو۔ اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے مروی ہے کہ ان سے قول باری تعالیٰ : ولا تسرفوا کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : الاسراف ما قصرت عن حق اللہ تعالیٰ ( کہ اسرف وہ ہے جو تو نے اللہ تعالیٰ کے حق سے کو تائی اور غفلت کی) میں ( مفسر) کہتا ہوں : اس بنا پر تو تمام مال صدقہ کرنا اور مسکینوں کا حق نکالنے سے روکنا دونوں سرف کے حکم میں داخل ہیں اور عدل اس کے خلاف ہے کہ وہ صدقہ بھی کرے اور باقی بھی رکھے جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا : خیر الصدقۃ ما کان عن ظھر غنی (صحیح بخاری، کتاب الزکوٰۃ، جلد
1
، صفحہ
192
) ( بہترین صدقہ ہو ہے جو حاجات سے فالتو مال سے ہو) مگر یہ کہ اس کا نفس قوی ہو، غنی ہو، اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والا ہو اور منفرد ہو اس کے اہل و عیال نہ ہوں، تو پھر اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنا تمام مال صدقہ کر دے۔ اور اسی طرح وہ مال میں سے وہ حق نکالے جو اس پر واجب ہو مثلا زکوٰۃ وغیر اور بعض احوال میں جو اسے مال میں متعینہ حقوق میں پیش آتے رہتے ہیں (انہیں وہ ادا کرے) ۔ اور عبدا لرحمن بن زید بن اسلم نے کہا ہے : اسراف وہ ہے جسے وہ صلاح اور درستگی کی طرف لوٹا نے پر قادر نہ ہو۔ اور سرف وہ ہے جسے وہ صلاح کی طرف لوٹانے کی قدرت رکھتا ہو۔ اور نضر بن شمیل نے کہا ہے : اسراف کا معنی فضول خرچی کرنا اور زیادتی کرنا ہے اور سرف کا معنی غفلت اور جہالت ہے ( آدمی اس کام سے غافل اور جاہل ہوتا ہے اس لیے وہ اس پر خرچ کر ڈالتا ہے) جیسا کہ جریر نے کہا ہے : اعطوا ھیدۃ یحدوھا ثمانیۃ مافی عطائھم من ولا سرف ای اغفال ( یعنی ان کی عطا میں نہ احسان جتلانا ہے اور نہ اس سے غافل رہنا ہے) اور رجل سرف الفواد، یعنی اس کا دل خطا کرنے والا غافل ہے۔ طرفہ نے کہا ہے : ان امرا سرف الفؤاد یری عملا بماء سحابۃ شتی
Top