Al-Qurtubi - Al-An'aam : 137
وَ كَذٰلِكَ زَیَّنَ لِكَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ شُرَكَآؤُهُمْ لِیُرْدُوْهُمْ وَ لِیَلْبِسُوْا عَلَیْهِمْ دِیْنَهُمْ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح زَيَّنَ : آراستہ کردیا ہے لِكَثِيْرٍ : بہت کیلئے مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْن : مشرک (جمع) قَتْلَ : قتل اَوْلَادِهِمْ : ان کی اولاد شُرَكَآؤُهُمْ : ان کے شریک لِيُرْدُوْهُمْ : تاکہ وہ انہیں ہلاک کردیں وَلِيَلْبِسُوْا : اور گڈ مڈ کردیں عَلَيْهِمْ : ان پر دِيْنَهُمْ : ان کا دین وَلَوْ شَآءَ : اور اگر چاہتا اللّٰهُ : اللہ مَا فَعَلُوْهُ : وہ نہ کرتے فَذَرْهُمْ : سو تم انہیں چھوڑ دو وَمَا : اور جو يَفْتَرُوْنَ : وہ جھوٹ باندھتے ہیں
اسی طرح بہت سے مشرکوں کو ان کے شریکوں نے ان کے بچّوں کو جان سے مار ڈالنا اچھّا کر دکھایا ہے۔ تاکہ انہیں ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے دین کو ان پر خلط ملط کردیں اور خدا چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور ان کا جھوٹ۔
آیت نمبر 137 قولہ تعالیٰ : آیت : وکذلک زین لکثیر من المشرکین قتل اولادھم شرکاؤ ھم اس کا معنی ہے جس طرح انہوں نے ان کے لیے اسے خوشنما بنایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے ایک حصہ مقرر کردیں اور ایک حصہ اپنے بتوں کے لیے مقرر کردیں اسی طرح ان کے شریکوں نے بہت سے مشرکین کے لیے اپنی اولاد کے قتل کرنے کو خوشنما بنا دیا۔ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : ان کے لیے فقر وفاقہ کے خوف سے بیٹیوں کے قتل کو خوشنما بنا دیا گیا۔ فراء اور زجاج نے کہا ہے : یہاں ان کے شریکوں سے مراد وہ ہیں جو بتوں کی خدمت میں رہا کرتے تھے (تفسیر ماوردی، جلد 2، صفحہ 174) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے ( ایضا) کہ مراد لوگوں میں گمراہ اور خواہش پرست لوگ ہیں۔ اور یہ قول بھی ہے کہ مراد شیاطین ہیں۔ اور اس سے اشارہ الواو کی طرف ہے اور وہ فقروفاقہ کے خوف سے اور اس مددونصرت کے نہ ہنوے کی وجہ سے جس سے انہیں محروم رکھا گیا بیٹی کو زندہ درگور کرنا ہے۔ اور شیاطین کو شرکاء کا نام اس لییے دیا گیا ہے، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی معصیت ونافرمانی میں ان کی اطاعت وپیروی کی ہے تو انہوں نے انہیں طاقت وفرمانبرداری کی وجوب میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرلیا۔ اور یہ بھی کہا کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ایک آدمی اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا تھا کہ اگر اس کے اتنے بچے پیدا ہوئے تو وہ ان میں سے ایک قربانی دے گا، جیسا کہ حضرت عبدالمطلب (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 754) نے ایسا کیا جب انہوں نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو ذبح کرنے کی نذر مانی۔ پھر کہا گیا ہے : آیت میں چار قراءتیں ہیں، ان میں سے اصح جمہور کی قراءت ہے آیت : وکذلک ذین لکثیر من المشرکین قتل اولادھم شرکا ؤھم اور یہ اہل حرمین، اہل کوفہ اور اہل بصرہ کی قراءت ہے۔ شرکاؤھم، زین کی وجہ سے مرفوع ہے، کیونکہ انہوں نے خوشنما بنایا اور انہوں نے قتل نہ کیا اور قتل، زین کے سبب منصوب ہے۔ اور اولادھم مفعول کی طرف مضاف ہے (متن میں عبارت اسی طرح ہے جب کہ مراد یہ ہے لفظ قتل اپنے مفعول ” اولادھم “ کی طرف مضاف ہے) ۔ اور مصدر میں اصل یہ ہے کہ اسے فاعل کی طرف مضاف کیا جائے، کیونکہ اسی نے اسے بنایا ہے اور اس لیے کہ وہ اس سے مستغنی نہیں اور وہ مفعول سے مستغنی ہوتا ہے۔ اور وہ یہاں لفظا مفعول کی طرف مضاف ہے لیکن معنا فاعل کی طرف مضاف ہے، کیونکہ تقدیر کلام ہے : زین لکثیر من المشرکین قتلھم اولادھم شرکاء ھم ( بہت سے مشرکین کے لیے ان کے شرکاء نے یہ خوشنما بنا دیا کہ وہ اپنی اولاد کو قتل کریں۔ پھر مضاف کو حذف کردیا گیا اور وہ فاعل ہے جس طرح اس قول باری تعالیٰ سے حذف کیا گیا ہے۔ آیت : لا یسم الانسان من دعآء الخیر (فصلت : 49) یعنی یہ من دعائہ الخیر ہے۔ اس میں ہا ضمیر دعا کا فاعل ہے، یعنی انسان خیر اور بھلائی کی دعا مانگنے سے نہیں اکتاتا۔ اور اسی طرح یہ ارشاد ہے : آیت : زین لکثیر من المشرکین قتل اولادھم شرکاؤھم مکی نے کہا ہے : یہ قراءت ہی پسندیدہ ہے، کیونکہ اس میں اعراب صحیح ہے اور اس لیے بھی کہ اس پر جمہور کا عمل ہے۔ اور دوسری قراءت زین فعل مجہول کے ساتھ ہے۔ لکثیر من المشرکین قتل یہ فرع کے ساتھ ہے۔ اولادھم جر کے ساتھ ہے۔ اور شرکاؤھم رفع کے ساتھ ہے۔ یہ حسن کی قرأت ہے اور ابن عامر اور اہل شام نے زین زامضموم کے ساتھ آیت : لکثیر من المشرکین قتل اولادھم، قتل کو رفع کے ساتھ اور اولادھم کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ شرکاؤھم اس میں مجرور ہے جو ابوعبید نے بیان کیا ہے، اور ان کے علاوہ کسی اور نے اہل شام سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے اس طرح قراءت کی ہے۔ آیت : وکذلک زین لکثیر من المشرکین قتل اولادھم شرکاؤھم ( یعنی اس میں زا مضموم، قتل مضموم اور اولادھم اور شرکائھم دونوں مکسور ہیں) پس دوسری قراءت (یعنی) حسن کی قراءت جائز ہے اس میں قتل نائب الفاعل ہوگا، اور شرکاؤھم اس فعل مضمر کے سبب مرفوع ہوگا جس پر زین دلالت کرتا ہے یعنی زینہ شرکاؤھم اور اسی وجہ سے ضرب زید عمرو پڑھنا جائز ہوتا ہے، بمعنی ضربہ عمرو اور سیبویہ نے بیان کیا ہے۔ لیبک یزید ضارع لخصومۃ یعنی یبکیہ ضارع (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 349 ) ابن عامر اور عامر نے ابوبکر کی روایت سے اس طرح قراءت کی ہے : آیت : زین لکثیر من المشرکین قتل اولادھم شرکاؤھم یسبح لہ فیھا بالغدو والاصال رجال (النور) تقدیر کلام ہے یسبحہ رجال اور ابراہیم بن ابی عبلہ نے پڑھا ہے : آیت : قتل اصحٰب الاخدود النار ذات الوقود البروج : 5) بمعنی قتلھم النار۔ نحاس نے کہا ہے : اور وہ جو ابو عبید نے ابن عامر اور اہل شام سے بیان کیا ہے وہ نہ کلام میں جائز ہے اور نہ ہی شعر میں، البتہ نحویوں نے ظرف کے ساتھ مضاف اور مضاف الیہ کے ساتھ تفریق کو جائز قرار دیا ہے، کیونکہ اس طرح فاصلہ نہیں ہوتا، اور رہے ظروف کے علاوہ دوسرے اسماء تو ان کے ساتھ فرق کرنا غلطی ہے۔ مکی نے کہا ہے : اس قراءت میں مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان تفریق کی وجہ سے ضعف اور کمزوری ہے، کیونکہ شعر میں اس قسم کی تفریق ظرفوں کے ساتھ جائز ہوتی ہے کیونکہ ان میں اتنی وسعت پائی جاتی ہے اور وہ مفعول بہ میں شعر میں بھی بعید ہے۔ لہذا قراءت میں اس کو جائز قرار دینا اس سے بھی بعید تیر ہے۔ اور مہدوی نے کہا ہے : ابن عامر کی یہ قراءت مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان تفریق ہونے کی بنا پر ہے، اور اس کی مثل شاعر کا قول بھی ہے۔ فزجج تھا بزجۃ زض القلوص ابی مزادۃ (ایضا، جلد 2، صفحہ 350 ) اس میں مراد زض مزادہ القلوص ہے۔ اور دوسرا شعر ہے : تمر علی ما تستمر وقد شفت غلائل عبد القیس منھا صدورھا اس میں مراد شفت عبد القیس غلائل صدورھا ہے۔ (پہلے شعر میں مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان مفعول بہ کا اور دوسرے میں فاعل کا فاصلہ ہے) ابو غانم احمد بن احمد ان نحوی نے کہا ہے : ابن عامر کی قراءت عربی لغت میں جائز ہے اور یہ ایک عالم کی پھسلاہٹ ہے اور جب ایک عالم ( راہ راست سے) پھسل جائے تو اس کی اتباع اور پیروی جائز نہیں ہوتی، اور اس کے قول کو اجماع کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے اور اسی طرح واجب ہوتا ہے کہ اسے بھی اجماع کی طرف لوٹا دیا جائے جو ان میں پھسل جائے یا بھول جائے اور یہ غیر صحیح پر اصرار کرنے سے اولیٰ اور بہتر ہوتا ہے، البتہ انہوں نے شاعر کو ضرورت کے تحت اجازت دی ہے کہ وہ ظرف کے ساتھ مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان فرق کرے کیونکہ یہ فاصلہ شمار نہیں ہوتا۔ جیسے کسی نے کہا : کما خط الکتاب بکف یوم یھودی یقارب او یزیل (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 350 ) اور دوسرے نے کہا : کان اصوات من ایغالھن بنا اواخر المیس اصوات الفراریج اور ایک اور شاعر نے کہا : لما رات ساتیدما استعبرت للہ در الیوم من لامھا (مذکورہ تینوں اشعار میں مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان ظرف کے ساتھ فاصلہ کیا گیا ہے) اور علامہ قشیری نے کہا ہے : ایک قوم نے کہا ہے کہ قبیح ہے اور یہ محال ہے، کیونکہ جب ایک قراءت تواتر کے ساتھ حضور نبی کریم ﷺ سے ثابت ہو تو وہ فصیح ہوتی ہے نہ کہ قبیح۔ اور کلام عرب میں یہ موجود ہے اور مصحف حضرت عثمان ؓ میں شرکائھم یا کے ساتھ موجود ہے (معانی القرآن للفرا، جلد 1، صفحہ 357، تفسیر الرازی، جلد 13، صفحہ 206) اور یہ ابن عامر کی قراءت کرنا ہے۔ اور اس قراءت میں قتل کی اضافت شرکاء کی طرف کی گئی ہے، کیونکہ شرکاء وہی ہیں جنہوں نے اسے خوشنما بنایا اور اس کی دعوت دی، پس فعل اپنے فاعل کی طرف مضاف اور اصل میں یہی واجب ہوتا ہے لیکن انہوں نے مضاف اور مضاف الیہ کے درمیان فرق کردیا ہے اور مفعول کو مقدم کیا ہے اور اسے اپنے حال پر منصوب چھوڑ دیا ہے، جب کہ معنی میں وہ متاخر ہے، اور مضاف الیہ کو موخر کیا ہے اور اسے اپنے حال پر مجرور چھوڑ دیا ہے، جب کہ وہ متقدم اور قتل کے بعد تھا اور تقدیر عبارت ہے : آیت : وکذٰلک زینی لکثیر من المشرکین قتل اولادھم شرکآؤھ یعنی ان قتل شرکاؤھم اولادھم ( یعنی ان کے شریکوں نے ان کی اولاد کو قتل کیا) نحاس نے کہا ہے : جو کچھ ابو عبید کے سوا نے بیان کیا ہے وہ چوتھی قراءت ہے اور وہ جائز ہے اس بنا پر کہ ان کے شرکاء ان کی اولاد کا بدل ہوگئے، کیونکہ وہ نسب اور میراث میں ان کے شریک تھے۔ لیردوھم اس میں لام کی ہے اور اداء کا معنی ہلاک کرنا ہے۔ آیت : ولیلبسوا علیھم دینھم اور وہ ان پر مشتبہ کریں ان کا وہ دین جو ان کے لیے پسندیدہ ہے، یعنی وہ انہیں باطل کا حکم دیتے ہیں اور انہیں اپنے دین کے بارے میں شک میں ڈالتے ہیں۔ اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے دین پر تھے اور اس میں اولاد کا قتل نہیں تھا، پس حق پر پردہ ڈال دیا جائے گا تو اس کے سبب وہ شک اور التباس میں واقع ہوجائیں گے۔ آیت : ولو شاء اللہ مافعلوہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ ان کا کفر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ ہے۔ اور یہ قدریہ کا رد ہے۔ آیت : فذرھم وما یفترون اس افترا اور بہتان سے مراد ان کا یہ قول ہے ان للہ شرکاء ( کہ اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں)
Top