Al-Qurtubi - Al-An'aam : 121
وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ اِنَّهٗ لَفِسْقٌ١ؕ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِیٰٓئِهِمْ لِیُجَادِلُوْكُمْ١ۚ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ۠   ۧ
وَلَا تَاْكُلُوْا : اور نہ کھاؤ مِمَّا : اس سے جو لَمْ يُذْكَرِ : نہیں لیا گیا اسْمُ اللّٰهِ : اللہ کا نام عَلَيْهِ : اس پر وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَفِسْقٌ : البتہ گناہ وَاِنَّ : اور بیشک الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) لَيُوْحُوْنَ : ڈالتے ہیں اِلٰٓي : طرف (میں) اَوْلِيٰٓئِهِمْ : اپنے دوست لِيُجَادِلُوْكُمْ : تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں وَاِنْ : اور اگر اَطَعْتُمُوْهُمْ : تم نے ان کا کہا مانا اِنَّكُمْ : تو بیشک لَمُشْرِكُوْنَ : مشرک ہوگے
اور جس چیز پر خدا کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھاؤ کہ اس کا کھانا گناہ ہے۔ اور شیطان (لوگ) اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں۔ اور اگر تم لوگ ان کے کے کہے پر چلے تو بیشک تم بھی مشرک ہوئے۔
آیت نمبر : 121 قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تاکلوا ممالم یذکر اسم اللہ علیہ وانہ لفسق اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ ابو داؤد نے روایت بیان کی ہے کہ یہودی حضور نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے : ہم اسے تو کھالیتے ہیں جسے ہم خود مارتے ہیں اور اسے نہیں کھاتے جسے اللہ تعالیٰ مار دے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آیت : ولا تاکلوا ممالم یذکر اسم اللہ علیہ الی آخری الآیۃ (سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب فی ذبائح اھل الکتاب، حدیث نمبر 2436، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اور نسائی نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس قول باری تعالیٰ کے تحت بیان کیا ہے : آیت : ولا تاکلوا ممالم یذکر اسم اللہ علیہ انہوں نے بیان فرمایا : مشرکین نے ان سے جھگڑا کردیا اور انہوں نے کہا : جسے اللہ تعالیٰ ذبح کرے تو اسے تم کھاتے اور جسے تم خود ذبح کرتے ہو اسے تم کھالیتے ہو۔ تو اللہ سبحانہ نے ان کے لیے ارشاد فرمایا : لا تاکلوا تم نہ کھاؤ، کیونکہ تم نے اس پر اللہ تعالیٰ کا نام نہیں لیا ہے۔ اور یہاں ایک اصولی مسئلہ بیان کیا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2 : اور وہ یہ ہے کہ جو لفظ سبب کی بنا پر وارد ہوگیا اسے اسی پر محصور کیا جائے گا یا نہیں ؟ تو ہمارے علماء نے بیان کیا ہے : اس میں دعو ٰی عموم کے صحیح ہونے میں کوئی اشکال نہیں جسے شارع نے ابتداء ہی الفاظ عموم کے ساتھ ذکر کیا ہو، البتہ وہ جسے کسی سوال کے جواب میں ذکر کیا ہو تو اس میں تفصیل ہے، جو اصول فقہ میں معروف ہے۔ مگر یہ کہ اگر اسے بغیر سوال کے لفظ مستقل کے ساتھ ذکر کیا جائے تو پھر وہ تعمیم کے ارادہ کے صحیح ہونے کی صورت میں اول (کلام) کے ساتھ لاحق ہوگا، پس قول باری تعالیٰ آیت : لا تاکلوا مردار کو شامل ہونے میں ظاہر ہے۔ اور اس میں وہ بھی داخل ہوگا جس پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا کیونکہ یہ الفاظ عام ہیں کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا جائے، اور اس پر اللہ تعالیٰ کے نام کے سوا کسی اور کے ذکر کی زدیاتی وہ ہے جس کی تحریم کا تقاضا بطور نص اس ارشاد سے ہوتا ہے : آیت وما اھل بہ لغیر اللہ ( البقرہ : 173) ( اور وہ جانور بلند کی گیا جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام) کیا اس میں وہ جانور بھی داخل ہوگا جس پر ذبح کے وقت یا شکار پر چھوڑتے وقت کسی مسلمان نے تسمیہ جان بوجھ کر چھوڑ دیا ہو تو اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے اور اس میں پانچ قول ہیں۔ اور یہی وہ مسئلہ ہے۔ مسئلہ نمبر 3 : پہلا قول : اگر اس نے تسمیہ سہوا ( بھول کر) چھوڑ دیا تو دونوں جانور کھائے جائیں گے یہی اسحاق کا قول ہے اور امام احمد بن حنبل (رح) سے بھی ایک روایت ہے۔ اور اگر اس نے عمدا ( جان بوجھ کر) چھوڑ دیا تو دونوں نہ کھائے جائیں گے۔ امام مالک اور ابن القاسم نے اپنی کتاب میں یہی کہا ہے اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ (رح)، آپ کے اصحاب، امام ثوری، حسن بن حی، عیسیٰ اور اصبح نے کہا ہے اور سعید بن جبیر اور عطا نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ اور نحاس نے اسے پسند کیا ہے اور کہا ہے : یہ احسن ہے، کیونکہ اسے فاسق کا نام نہیں دیا جاسکتا جب وہ بھول گیا۔ دوسرا قول : اگر اس نے تسمیہ عمدا یا سہوا چھوڑ دیا تو وہ دونوں کو کھالے گا۔ اور امام شافعی اور حسن رحمۃ اللہ علیہما کا قول ہے اور حضرت ابن عباس، حضرت ابوہریرہ ، حضرت عطا، حضرت سعیدبن مسیب، حضرت جابر بن زید، حضرت عکرمہ، حضرت ابو عیاض، حضرت ابو رافع، حضرت طاؤس، حضرت ابراہیم نخعی، حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ اور حضرت قتادہ ؓ سے یہی مروی ہے۔ اور زہراوی نے امام مالک بن انس سے بیان کیا ہے۔ عبدالوہاب نے کہا ہے : تسمیہ سنت ہے، پس جب ذبح کرنے والے نے اسے بھول کر چھوڑ دیا تو امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب کے قول کے مطابق وہ ذبیحہ کھایا جائے گا۔ تیسرا قول : اگر اس نے تسمیہ عمداََ یا بھول کر چھوڑ دیا تو اس کا کھانا حرام ہے۔ محمد بن سیرین، عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ، عبداللہ بن عمر، نافع، عبداللہ بن زید خطمی اور شعبی رحمۃ اللہ علیھم نے یہی کہا ہے : اور اسی طرح ابو ثور اور داؤد بن علی نے کہا ہے اور امام احمد (رح) کی ایک روایت میں یہی ہے۔ چوتھا قول : اگار اس نے عمداََ تسمیہ چھوڑ دیا تو اسے کھانا مکروہ ہے۔ ہمارے علماء میں سے قاضی ابو الحسن اور شیخ ابوبکر نے یہی کہا ہے۔ پانچواں قول : اشہب نے کہا ہے کہ عمداََ تسمیہ چھوڑنے والے کا ذبیحہ کھایا جائے گا ( المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 340) مگر یہ کہ وہ حقیر اور ناپسند کرتا ہو اور اسی طرح علامہ طبری نے کہا ہے ( دلائل یہ ہیں) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : فکلوا مما ذکر اسم اللہ علیہ اور دوسرا ارشاد فرمایا : آیت : ولا تاکلوا ممالم یذکراسم اللہ علیہ پس اللہ تعالیٰ نے دونوں صورتیں بیان فرما دیں اور دونوں کا حکم واضح فرما دیا۔ اس کا قول لا تکلوا نہیں ہے جو تحریم پر دلالت کرتی ہے اسے کرامت پر محمول کرنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ یہ اپنے بعض ایسے مقتضیات کو شامل ہے جو حرام محض ہے اور اس میں تبغض جائز نہیں، یعنی اس سے تحریم اور کراہت ایک ساتھ مراد لیے جائیں۔ اور یہ انتہائی عمداہ اور نفیس اصول ہے۔ اور رہا بھولنے والا تو اس کی طرف خطاب متوجہ ہی نہیں، کیونکہ اسے خطاب کرنا محال ہے، پس شرط اس پر واجب نہیں ہے۔ اور رہا وہ تسمیہ کو جان بوجھ کر ترک کرنے والا ہے تو وہ تین احوال سے خالی نہیں ہوگا یا تو وہ اس وقت تسمیہ ترک کرے تا جب ذبیحہ کو لٹائے گا اور کہے گا : میرا دل اللہ تعالیٰ کے اسماء اور اس کی توحید سے بھرا ہوا ہے لہٰذا میں اپنی زبان کے ساتھ ذکر کرنے کا محتاج نہیں ہوں۔ پس اسے وہ جائز قرار دیتے ہیں، کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا ذکر کیا ہے اور اس کی تعظیم کی ہے۔ یا وہ کہتا ہے : بلاشبہ یہ صریح تسمیہ کا محل نہیں ہے، کیونکہ یہ قربت نہیں ہے، تو اسے بھی وہ جائز قرار دیتے ہیں۔ یا وہ کہتا ہے : میں تسمیہ نہیں پڑھوں گا، اور تسمیہ کی کون سی قدرومنزلت ہے، تو یہ حقیر جاننے والا فاسق ہے اس کا ذبیحہ نہیں کھائے جائے گا۔ علامہ ابن عربی (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 749) نے کہا ہے : مجھے راس المحققین، امام الحرمین پر بڑا تعجب ہے کہ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بلا شبہ قرب کی حالت میں مشروع ہے اور ذبح حالت قربت نہیں ہے۔ یہ نظریہ قرآن وسنت سے معارض آتا ہے۔ آپ ﷺ نے حدیث صحیح میں فرمایا ہے : ” وہ جانور جس کا خون بہایا گیا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا تو اسے کھاؤ“۔ پھر اگر کہا جائے : اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کرنے سے مراد دل میں نام لینا ہے، کیونکہ ذکر نسیان کی ضد ہے اور نسیان کا محل دل ہے پس ذکر کا محل بھی دل ہے۔ اور حضرت براء بن عازب ؓ نے روایت بیان فرمائی :” اللہ تعالیٰ کا نام ہر مومن کے دل میں ہے وہ تسمیہ پڑھے یا نہ پڑھے “ (ایضا، جلد 2، صفحہ 750 ) ۔ تو ہم کہیں گے : ذکر باللسان بھی ہے اور ذکر بالقلب بھی۔ اور وہ عمل جو عرب کرتے تھے وہ زبان سے بتوں کا نام لیتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنا نام زبان کے ساتھ لینے کے ذریعہ اسے ختم کیا اور شریعت میں یہی مشہور ہے یہاں تک کہ حضرت امام مالک (رح) کو کہا گیا : کیا وہ اللہ تعالیٰ کا نام لے گا جب وضو کر (ایضا) ، تو آپ نے فرمایا : کیا وہ ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اور رہی وہ حدیث جس کے ساتھ انہوں نے تعلق قائم کیا ہے ” کہ اللہ تعالیٰ کا نام ہر مومن کے دل میں ہیـ“ (صحیح بخاری، کتاب الصید والذبائح، جلد 2، صفحہ 828 ) ۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔ تحقیق اہل علم کی ایک جماعت نے اس پر استدلال کیا ہے کہ ذبیحہ پر تسمیہ پڑھنا واجب نہیں ہے، کیونکہ حضور ﷺ نے ان لوگوں کو فرمایا جنہوں نے آپ سے سوال کیا اور کہا : یا رسول اللہ ﷺ ایک قوم ہمارے پاس گوشت لے کر آتی ہے اور ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے اس پرا للہ تعالیٰ کا نام لیا ہے یا نہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لے لو اور اسے کھالو “ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 2446۔ سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3164، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اسے دارقطنی نے حضرت عائشہ ؓ سے اور امام مالک (رح) نے ہشام بن عروہ عن ابیہ کی سند سے مرسل روایت کیا ہے اور اسے مرسل بیان کرنے میں آپ پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا اور اس کی تاویل یہ ہے کہ آپ نے اس کے آخر میں کہا : وذالک فی اول الاسلام ( کہ وہ ابتداء اسلام میں ہوا) مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ پر آیت : ولاتاکلو ممالم یذکر اسم اللہ علیہ نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ یہ ضعیف ہے اور فی نفسہ حدیث میں وہ موجود ہے جو اس کا رد کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں اس میں کھانے پر تسمیہ پڑھنے کا حخم ارشاد فرمایا، تو یہ اس پر دلیل ہے کہ آیت آپ پر نازل ہوچکی تھی۔ اور جو کچھ ہم نے کہا ہے اس کو صحیح ہونے پر جو شے دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ حدیث مدینہ طیبہ کی ہے اور علماء کا اس بارے کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قول باری تعالیٰ : آیت : ولاتاکلو ممالم یذکر اسم اللہ علیہ سورة الانعام میں مکہ مکرمہ میں نازل ہوا۔ اور آیت : وانہ لفسق کا معنی ہے کہ یہ معصیت اور گناہ ہے۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے (تفسیر ماوردی، جلد 2، صفحہ 162 ) ۔ اور لفسق کا معنی الخروج ( نکلنا) ہے یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ قولہ تعالیٰ : آیت : وان الشیٰطین لیوحون الی اولیھم، یعنی وہ وسوسہ اندازی کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں باطل طریقہ سے جھگڑا کرنے کی باتیں ڈالتے ہیں۔ ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے آیت : وان الشیٰطین لیوحون الی اولیھم کے تحت روایت کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : جسے اللہ تعالیٰ ذبح کرنے ( یعنی ماردے) تو اس کو تم نہ کھاؤ اور جسے تم خود ذبح کرو تو اسے کھالو، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت : نازل فرمائی : آیت : ولاتاکلو ممالم یذکر اسم اللہ علیہ حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علی (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 340) نے کہا ہے : اس آیت میں شیاطین سے مراد فارس کے مجوسیوں میں سے سرکش انسان ہیں۔ اور حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عبداللہ بن کثیر (رح) نے بیان کیا ہے : بلکہ شیاطین سے مراد جن ہیں اور جنوں میں سے کافر قریش کے اولیاء ( دوست) ہیں۔ اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے مروی ہے کہ انہیں کہا گیا کہ مختار کہتا ہے : میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ تو آپ نے فرمایا : اس نے سچ کہا ہے، بلاشبہ شیاطین اپنے دوستوں کی طرف القا کرتے رہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول : آیت : لیجادلوکم مراد ان کا یہ فقول ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ مار دے تم اسے نہ کھاؤ اور جسے تم مارو تم اسے کھالو۔ اور مجادلہ کا معنی ہے قوت کے ساتھ حجت کے طریقہ پر قل کا دفاع کرنا۔ یہ اجدل سے ماخوذ ہے، اس کا معنی ہے طاقتور پرندہ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ جدالہ سے ماخوذ ہے۔ اور اس سے مراد زمین ہے۔ تو گویا وہ اس پر غلبہ پاتا ہے دلیل کے ساتھ اور وہ اسے اس طرح مغلوب کرلیتا ہے یہاں تک کہ وہ قبضی کی ہوئی زمین کی طرح ہوجاتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ جدال سے ماخوذ ہے۔ اور اس کا معنی ہے بٹائی کا مضبوط ہونا، گویا ان دونوں میں سے ہی ایک اپنے ساتھی کی حجت اور دلیل کو بل دیتا ہے یہاں تک کہ اسے کاٹ دیتا ہے اور وہ حق کی نصرت اور معاونت میں حق ہوتی ہے اور باطل کی نصرت اور مدد میں باطل ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر 5 : قولہ تعالیٰ : آیت : وان اطعتموھم یعنی مردار کو حلال قرار دینے میں اگر تم نے ان کی بات مانی۔ آیت : انکم لمشرکون (تو تم مشرک ہوجاؤ گے) پس آیت اس پر دلیل ہے کہ جس نے ان چیزوں میں سے کسی چیز کو حلال قرار دیا جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے تو وہ اس کے سبب مشرک ہوجائے گا۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے مردار کو حرام قرار دیا ہے اور یہ نص سے ثابت ہے۔ اور جب کسی نے کسی غیر کی حلال کردہ چیز کو قبول کرلیا تحقیق اس نے بھی شرک کیا۔ علامہ ابن عربی (احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 752) نے کہا : بلاشبہ مومن مشرک کی اطاعت کرنے سے مشرک ہوجاتا ہے جب وہ اعتقاد میں اس کی اطاعت و پیروی کرے۔ اور جب وہ فعل اور عمل میں اس کی پیروی کرے اور اس کا عقیدہ صحیح سالم ہو اور توحید وتصدیق پر قائم اور جاری ہو تو گنہگار ہوگا۔ پس تم اسے سمجھ لو اور یہ سورة المائدہ میں گزر چکا ہے۔
Top