Al-Qurtubi - Al-An'aam : 100
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوْا لَهٗ بَنِیْنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیْرِ عِلْمٍ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یَصِفُوْنَ۠   ۧ
وَجَعَلُوْا : اور انہوں نے ٹھہرایا لِلّٰهِ : اللہ کا شُرَكَآءَ : شریک الْجِنَّ : جن وَخَلَقَهُمْ : حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا وَخَرَقُوْا : اور تراشتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے بَنِيْنَ : بیٹے وَبَنٰتٍ : اور بیٹیاں بِغَيْرِ عِلْمٍ : علم کے بغیر (جہالت سے) سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور وہ بلند تر عَمَّا : اس سے جو يَصِفُوْنَ : وہ بیان کرتے ہیں
اور ان لوگوں نے جنوں کو خدا کا شریک ٹھیرایا حالانکہ ان کو اسی نے پیدا کیا اور بےسمجھے (جھوٹ بہتان) اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں بنا کھڑی کیں وہ ان باتوں سے جو اس کے نسبت بیان کرتے ہے پاک ہے۔ اور (اسکی شان ان سے) بلند ہے۔
آیت نمبر : 100 قولی تعالیٰ : آیت : وجعلوا للہ شرکآء الجن یہ ان کی جہالت کی دوسری نوع کا ذکر ہے، یعنی ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے جنات میں سے شرکاء کا اعتقاد رکھ لیے ہے ( یعنی انہوں نے جنوں کو اللہ تعالیٰ بنا لیا ہے) ۔ نحاس نے کہا ہے : ترکیب کلام میں الجن مفعول اول ہے اور شرکاء مفعول ثانی ہے، جیسا کہ ان ارشادات میں ہے : آیت : وجعلکم ملوکا (المائدہ : 20) آیت : وجعلت لہ مالا ممدودا (المدثر) اور قرآن کریم میں اس کی کثیر مثالیں ہیں۔ اور تقدیر کلام اس طرح ہے آیت : وجعلوہ للہ الجن شرکاء اور یہ بھی جائز ہے کہ الجن شرکا سے بدل ہو اور مفعول ثانی للہ ہو۔ اور کسائی نے الجن پر رفع بھی جائز قرار دیا ہے تو پھر کلام اس طرح ہوگی ھم الجن وخلقم اس طرح جمہور کی قرآت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے شریک بنانے والوں کو اسی نے پیدا کیا ہے۔ خلق الجاعلین لہ شرکاء اور یہ بھی کہا گیا ہے : خلق الجن الشرکاء اور اسی نے شریک جنوں کو پیدا کیا ہے ( یہ دراصل ضمیر کے مرجع کی طرف اشارہ ہے ) ۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے ھو کی زیادتی کے ساتھ وھو خلقھم قرأت کی ہے، اور یحییٰ بن یعمر نے وخلقھم لام کے سکون کے ساتھ قرأت کی ہے، اور کہا : ای وجعلوا خلقھم للہ شرکاء ( اور انہوں نے اپنی بنائی ہوئی چیزوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا لیا) کیونکہ وہ چیزوں کو بناتے تھے پھر ان کی پوچا شروع کردیتے تھے۔ یہ آیت مشرکین عرب کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور ان کے جنوں کو شریک ٹھہرانے کا معنی یہ ہے کہ وہ ان کی اطاعت و پیروی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرح کرتے ہیں۔ یہ حضرت حسن وغیرہ سے مروی ہے۔ حضرت قتادہ اور سدی رحمۃ اللہ علیہما نے کہا ہے : یہ وہی ہیں جنہوں نے کہا ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ اور کلبی نے کہا ہے : یہ آیت زنادقہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ کہتے : اللہ تعالیٰ اور ابلیس دونوں بھائی ہیں ( نعوذ باللہ من ذالک) پس اللہ تعالیٰ انسانوں اور جانوروں کا خالق ہے، اور ابلیس جنوں، درندوں اور بچھوؤں وغیرہ کا خالق ہے۔ اور اسی کے قریب قریب مجوسیوں کا قول بھی ہے، کیونکہ انہوں نے کہا : عالم کے دو صانع ہیں : ایک قدیم ہے اور دوسرا شیطان ہے جو الٰہ قدیم کی فکر سے پیدا ہونے والا ہے۔ (یعنی وہ حادث ہے) ۔ اور ان کا گمان یہ ہے کہ شر اور برائی کا صانع حادث ہے۔ اور معتزلہ میں سے حائطیہ جو کہ احمد بن حائط کے اصحاب ہیں نے بھی اسی طرح کہا ہے، ان کا گمان بھی یہ ہے کہ کائنات کو بنانے والے دو ہیں ؛ ایک الہ قدیم ہے اور دوسرا محدث ہے، اسے پہلے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا ہے پھر تدبیر عالم کا فریضہ اس کے سپرد کردیا ہے اور وہی ہے جو آخرت میں مخلوق کا محاسبہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے انتہائی بلند اور عظیم ہے جو کچھ ظالم اور انکار کرنے والے لوگ اس کے بارے کہتے ہیں۔ وخرقوا نافع نے تکثیر کے بنا پر اسے تشدید کے ساتھ (خرقوا) پڑھا ہے، کیونکہ مشرکین نے دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور وہ ملائکہ ہیں اور انہوں نے انہیں چنے جانے کے سبب جن کا نام دیا۔ اور نصاریٰ نے دعویٰ کیا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ اور یہودیوں نے کہا : حضرت عزیر (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں، پس اس طرح ان کا کفر کثیر ہوگیا۔ پس معنی کی مطابقت کی وجہ سے فعل کو مشدد لایا گیا۔ اللہ تعالیٰ اس سے برتر اور بلند ہے جو وہ کہتے ہیں۔ باقیوں نے تقلیل کی بنا پر تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ حضرت حسن بصری (رح) سے وخرقوا لہ کا معنی پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : بلاشبہ یہ اور وخرقوا بالتخفیف، عربی کلمہ ہے، آدمی جب اپنی پکار اور دعویٰ میں جھوٹ بولے تو کہا جاتا ہے : خرقھا ورب الکعبہ (اس نے اسے گھڑ لیا رب کعبہ کی قسم) اور اہل لغت نے کہا ہے : خرقوا کا معنی ہے اختلفوا وافتعلوا (انہوں نے اختلاف کیا اور فعل کیا) اور وخرقوا تکثیر پر دلالت کرتا ہے۔ حضرت مجاہد، قتادہ، ابن زید اور ابن جریج رحمۃ اللہ علیھم نے کہا ہے : خرقوا کا معنی ہے انہوں نے جھوٹ بولا۔ اور کہا جاتا ہے : بیشک خرق، اخترق اور اختلق کا معنی ایک ہی ہے، یعنی احدث ( اس نے گھڑ لیا، اس نے جھوٹ بولا)
Top