Al-Qurtubi - Al-Waaqia : 29
وَّ طَلْحٍ مَّنْضُوْدٍۙ
وَّطَلْحٍ : اور کیلے مَّنْضُوْدٍ : تہ بہ تہ
اور تہ بہ تہ کیلوں
وطلع منضود۔ طلح کیلے کا درخت ہے اس کا واحد طلحہ ہے : یہ قول اکثر مفسرین نے کیا ہے ان میں حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ اور دوسرے علماء کا نقطہ نظر ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : یہ کیلے کا درخت نہیں بلکہ ایسا درخت ہے جس کا ٹھنڈا اور تر سایہ ہوتا ہے۔ فراء اور ابو عبیدہ نے کہا : مراد درخت ہے جس کا کاٹنا ہوتا ہے : جعدی نے کہا : بشرھا دلیلھا وقالا غدا ترین الطلح والاحبالا اس کی رہنمائی کرنے والے نے اسے بشارت دی اور دونوں نے کہا : کل تم طلح اور بیری کے درخت دیکھو گی۔ طلح سے مراد ہر ایسا بڑا درخت ہے جس کے بہت زیادہ کاٹنے ہوتے ہیں۔ زجاج نے کہا : یہ جائز ہے کہ وہ جنت میں ہو اور اس کے کاٹنے زائل کردیئے گئے ہوں۔ زجاج نے کہا : جس طرح کیکر کا درخت ہوتا ہے اس کی بہت سی عمدہ کلیاں ہوں گی۔ انہیں ایسی چیز کے ساتھ خطاب کیا گیا اور اس چیز کا وعدہ کیا گیا جس کی مثل کو وہ پسند کرتے تھے مگر اس کی دنیا کی چیزوں پر فضلیت ایسی ہوگی جس طرح جنت میں جنتی چیزیں ہیں ان کی فضلیت دنیاوی چیزوں پر ہوتی ہے۔ سدی نے کہا : جنت کا کیلا اس طرح ہوگا جس طرح دنیا کا کیلا ہوگا مگر اس کا پھل شہد سے زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔ حضرت علی شیر خدا ؓ نے وطلع منضود پڑھا ہے یعنی حاء کی جگہ عین پڑھی ہے اور اس آیت کی تلاوت کی ونحل طلعھا ھضیم۔ ( اشعراء) یہ مصحف ہے برعکس ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ان کے سامنے وطلع منضود۔ پڑھا گیا ہے تو انہوں نے کہا : یہ طلح کیا ہے ؟ وہ طلع منضود ہے پھر کہا : لھا طلع نضیدا انہیں کہا گیا : کیا ہم اسے بدل نہ دیں ؟ تو انہوں نے کہا : یہ مناسب نہیں کہ قرآن کے بارے میں جلد بازی کی جائے اور نہ اسے بدلنا مناسب ہے۔ انہوں نے اس قرأت کو پسند کیا مگر اسے مصحف میں لکھنے پر اتفاق نہ کیا کیونکہ یہ اس کے خلاف ہے جس پر سب کا اتفاق ہے : یہ قشیری کا قول ہے۔ ابو بکر انباری نے اس کی سند ذکر کی کہا : سیرے والد نے حسن بن عرفہ سے وہ عیسیٰ بن یونس سے وہ مجاہد سے و حسن بن سعید سے وہ قیس بن عبادہ سے روایت نقل کرتے ہیں قرأت عند علی او قرئت عند علی مجاہد کو شک ہے یعنی میں نے حضرت علی کے ہاں اسے پڑھا حضرت علی ؓ شیر خدا کے ہاں اسے پڑھا گیا : وطلح منضود حضرت علی شیر خدا ؓ نے کہا : یہ طلح کیا ہے ؟ کیا تو اسے وطلع نہیں پڑھتا پھر کہا : لھا طلع نضید اس آدمی نے عرض کی : اے امیر المومنین ! کیا ہم مصحف میں اسے مٹادیں۔ 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 5، صفحہ 243 2 ؎۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 453 3 ؎۔ ایضاً ، جلد 5، صفحہ 395 فرمایا : آج قرآن پر جلدی نہ کی جائے۔ ابوبکر نے کہا : اس کا معنی یہ ہے کہ انہوں نے اس امر کی طرف رجوع کرلیا جو مصحف میں ہے اور انہیں پتہ چل گیا کہ یہ درست ہے اور جس نے آپ کے قول سے تفریط اپنانا چاہی تھی اس کو باطل کردیا۔ منضود سے مراد ہے جس کے آغاز سے لے کر آخرت تک حصہ پھل سے جڑا ہوا ہو، اس کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہو بلکہ اس کا پھل ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ نضد کا معنی جوڑنا اور منتصد کا معنی جڑا ہوا پیوست۔ مسروق نے کہا : جنت کے درخت ابتداء سے لے کر آخر تک پھلوں سے لدے ہوں گے جب بھی اس کا پھل کھایا جائے گا : اس کی جگہ اس سے بہتر پھل آجائے گا۔
Top