Al-Qurtubi - Al-Waaqia : 20
وَ فَاكِهَةٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَۙ
وَفَاكِهَةٍ : اور پھل مِّمَّا يَتَخَيَّرُوْنَ : اس میں سے جو وہ چن لیں گے
اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں
وفاکھۃ مما یتخیرون۔ جو چاہتے ہیں اسے لے لیتے ہیں کیونکہ ان پھلوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ایسا پھل جو پسندیدہ ہے تخیر کا معنی اختیار ہے۔ ولحکم طیر مما یشتھون۔ امام ترمذی نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کوثر کے بارے میں پوچھا گیا ؟ فرمایا :” وہ ایسی نہر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطاء کی ہے یعنی جنت میں جو دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھی ہے، اس میں ایسے پرندے ہیں ان کی گردنیں اونٹوں کی گردنوں جیسی ہیں “ (3) حضرت عمر ؓ نے عرض کی : وہ تو بڑی موٹی تازی ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اس کا کھانا اس گردن کے کھانے سے زیادہ اچھا ہوگا “۔ کہا : یہ حدیث حسن ہے۔ اسے ثعلبی نے حضرت ابو درداء کی حدیث سے نقل کیا ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جنت میں پرندہ ہوں گے جس طرح بختی اونٹوں کی گردنیں ہوتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ولی کے ہاتھ پر صف در صف ہوں گے ان میں سے ایک کہے گا : اے اللہ کے ولی ! میں عرش کے نیچے چراگاہوں میں چراہوں، میں نے تسنیم کا پانی پیا ہے، مجھ سے کھائو وہ اس کے سامنے اٹھیکیاں کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ولی اللہ کے دل میں ان میں سے کسی کو کھانے کا خیال آئے گا تو وہ اس کے سامنے گر پڑے گا۔ ولی اللہ اس سے کھائے گا جتنا ارادہ کرے گا جب وہ سیر ہوجائے گا تو پرندے کی ہڈیاں جمع ہوجائیں گی تو وہ اڑ جائے گا اور جہاں چاہے گا جنت میں چرے گا “ (1) حضرت عمر ؓ نے عرض کی : وہ بڑا لذیز ہوگا۔ فرمایا : اس کو کھانے والا اس سے افضل ہوگا “۔ 1 ؎۔ المحرر الوجیز، جلد 5، صفحہ 242 2 ؎۔ تفسیر ماوردی، جلد 5، صفحہ 451 3 ؎۔ جامع ترمذی، کتاب صفۃ الجنۃ، ما جاء ل صفۃ طیر الجنۃ، جلد 2 صفحہ 77 ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جنت میں پرندہ ہوگا پرندے میں ستر ہزار پر ہوں گے وہ جنت کے پیالے میں آ گرے گا پھر وہ پھٹ جائے گا تو ہر پر سے ایک مقیم کا کھانا نکلے گا جو برف سے زیادہ سفید، مکھن سے زیادہ ٹھنڈا اور ملائم اور شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ اس میں سے کوئی کھانا دوسرے کی مثل نہیں ہوگا۔ اس سے اتنا کھائے گا جتنا ارادہ وہ کرے گا۔ پھر وہ چلا جائے گا اور اڑے گا “ (2) وحورعین۔ اسے رفع، نصب اور جر کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ جس نے اسے جردی وہ حمزہ، کسائی اور دوسرے قراء ہیں۔ یہ جائز ہے کہ اس کا عطف باکواب پر ہو۔ یہ معنی پر محمول ہوگا کیونکہ معنی ہے وہ جاموں، پھلوں، گوشت اور حوروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں : یہ زجاج کا قول ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس کا عطف جنات پر ہو یعنی وہ جناب النعیم میں ہوں گے اور حوروں کی معاشرت میں ہوں گے اس صورت میں حور سے پہلے معاشرہ کا لفظ ہوگا۔ فراء نے کہا : جر لفظ کی اتباع میں ہوگی اگرچہ معنی میں مختلف ہیں کیونکہ حوریں ان پر طواف نہیں کریں گی : ایک شاعر نے کہا : ورایت زوجک فی الوغی متقلدا سیفا ورمحا سب نے تیرے خاوند کو جنگ میں دیکھا جو تلوار اور نیزے سے آراستہ تھا۔ تلوار کو گلے میں لٹکایا جاتا ہے نیزے کو نہیں لٹکایا جاتا۔ قطرب نے کہا : یہ اکواب اور باریق پر معطوف ہیں یعنی پر ان کا حمل نہیں۔ اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان پر حوریں طواف کریں اور ان کے لیے اس میں لذت ہو۔ جس نے اسے نصب دی ہے وہ اشہب عقیلی، نخعی اور عیسیٰ بن عمر ثقفی ہے۔ حضرت ابی کے مصحف میں بھی اسی طرح ہے۔ اس صورت میں فعل مضمر ہوگا۔ گویا ارشاد فرمایا : وزوجون حور اعینا نصب کی صورت اسی معنی پر حمل بھی اچھا ہے کیونکہ یطاف علیھم بہ کا معنی ہے انہیں وہ عطاء کردی جائے گی۔ جنہوں نے اسے رفع دیا ہے جب کہ وہ جمہور ہیں : یہ ابو عبید اور ابو حاتم کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے۔ تو اس صورت میں اس کا معنی ہے وعندھم حورعین کیونکہ حوریں ان پر گردش نہیں کریں گی۔ کسائی نے کہا : جس نے کہا وحورعین۔ اسے رفع دیا ہے۔ اور علت یہ بیان کی ہے کہ وہ ان پر چکر نہیں لگائیں گی یہی چیز فاکھہ اور لحم میں بھی لازم آئے گی کیونکہ یہ چیز بھی اس پر گردش کناں نہیں ہوگی۔ اس پر صرف شراب گردش کناں ہوگی۔ اخفش نے کہا : یہ جائز ہے کہ وہ معنی پر محمول ہو کیونکہ اس کا معنی ہے لھم اکواب ولھم حورعین ان کے لیے جام اور حورعین ہیں۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس کا عطف ثلۃ پر ہو اور ثلۃ مبتداء ہو اور اس کی خبر علی سرر موضونۃ۔ اسی طرح وحورعین۔ ہے نکرہ کے باوجود اسے مبتداء بنایا کیونکہ وہ صفت کی وجہ سے یہ خاص ہوگیا۔ 1 ؎ جامع ترمذی، کتاب صفۃ الجنۃ، ما جاء ل صفۃ طیر الجنۃ، جلد 2 صفحہ 77 2 ؎۔ کنز العمال، فی ذکر اشراط، الساعۃ الکبریٰ ، جلد 14، صفحہ 462۔ 463
Top