Al-Qurtubi - An-Nisaa : 7
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ١ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا
لِلرِّجَالِ : مردوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار وَلِلنِّسَآءِ : اور عورتوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا الْوَالِدٰنِ : ماں باپ وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار مِمَّا : اس میں سے قَلَّ : تھوڑا مِنْهُ : اس سے اَوْ كَثُرَ : یا زیادہ نَصِيْبًا : حصہ مَّفْرُوْضًا : مقرر کیا ہوا
جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تھوڑا ہو یا بہت اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی۔ یہ حصے (خدا کے) مقرر کیے ہوئے ہیں۔
آیت نمبر : 7۔ اس آیت میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) جب اللہ تعالیٰ نے یتامی کے امر کا ذکر کیا تو ساتھ ہی مواریث کا ذکر فرمایا۔ اور یہ آیت اوس بن ثابت انصاری کے بارے میں نازل ہوئی وہ فوت ہوا اور ایک بیوی چھوڑی جس کو ام کجۃ کہا جاتا ہے اور اس عورت نے تین بیٹیاں چھوڑی دو آدمی کھڑے ہوئے، وہ دونوں میت کے چچا کے بیٹے تھے، اور اس کے وصی تھے ان کو سوید اور عرفجہ کہا جاتا ہے ان دونوں نے مال لے لیا اور اس کی بیوی اور اس کی بیٹیوں کو کچھ نہ دیا اور وہ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کو وارث نہیں بناتے تھے اور نہ چھوٹے کو وارث بناتے تھے اگرچہ وہ مذکر بھی ہوتا وہ کہتے : میراث صرف اسے ملے گی جو گھوڑوں کی پیٹھ پر بیٹھ کر جنگ کرے گا اور نیزہ زنی کرسکتا ہوگا اور تلوار چلا سکتا ہوگا اور غنیمت جمع کرسکتا ہوگا، ام کجہ نے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ذکر کیا آپ ﷺ نے ان دونوں کو بلایا، تو انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ اس کا بیٹا گھوڑے پر سوار نہیں ہو سکتا، نہ تو وہ بوجھ اٹھا سکتا ہے اور نہ دشمن کو زخمی کرسکتا ہے، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : تم دونوں واپس جاؤ حتی کہ میں دیکھ لوں جو اللہ تعالیٰ میرے لیے ان کے بارے میں کوئی نیا حکم فرما دے، پس اللہ تعالیٰ نے ان کے رد میں یہ آیت نازل فرمائی (1) (اسباب النزول للواحدی، صفحہ 137) اور ان کی جہالت کی وجہ سے جو تصرف اور قول تھا اسے باطل کردیا، کیونکہ چھوٹے ورثاء تو بڑوں کی نسبت مال کے زیادہ حق دار ہونے چاہیے تھے کیونکہ وہ تو نہ خود تصرف کرسکتے ہیں اور نہ اپنے مصالح میں غور وفکر کرسکتے ہیں زمانہ جاہلیت کے لوگوں نے الٹ حکم جاری کیا ہوا تھا اور حکمت کو باطل کردیا تھا اور اپنی خواہشات نفس کی وجہ سے گمراہ ہوچکے تھے اور اپنی آراء اور تصرفات میں غلطی کی تھی (2) (احکام القرآن لابن العربی، صفحہ 328) مسئلہ نمبر : (2) ہمارے علماء نے فرمایا اس آیت میں تین فوائد ہیں : (1) میراث کی علت کو بیان فرمایا وہ قرابت ہے۔ (2) قرابت کا عموم جیسے بھی ہو قریبی ہو یا بعیدی ہو۔ (3) مقررہ حصہ کا اجمال، یہ حصہ آیت میراث میں بیان کیا گیا ہے اس آیت میں حکم کے لیے تمہید ہے اور اس فاسد رائے کا ابطال ہے حتی کہ شافی بیان واقع ہوا۔ مسئلہ نمبر : (3) یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ابو طلحہ نے جب اپنا مال (بیرحائ) صدقہ کیا اور اس کا ذکر نبی مکرم ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو اپنے قریبی رشتہ دار فقراء میں دے دے تو حضرت ابو طلحہ نے وہ باغ حضرت حسان ؓ اور حضرت ابی ؓ کو دے دیا، حضرت انس ؓ نے فرمای : یہ دونوں حضرات ابو طلحہ ؓ کے مجھے سے زیادہ قریبی تھے، ابو داؤد نے کہا : مجھے محمد بن عبداللہ انصاری ؓ سے یہ خبر پہنچی ہے کہ انہوں نے فرمایا ابو طلحہ انصاری ؓ کا سلسلہ نسب یہ تھا زید بن سہل بن الاسود بن حرام بن عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار، اور حضرت حسان ؓ کا سلسلہ نسب یہ تھا حسان بن ثابت بن المنذر بن حرام، دونوں تیسرے دادا میں جمع ہوتے ہیں اور وہ حرام ہے اور ابی بن کعب ؓ کا سلسلہ نسب یہ تھا ابی بن کعب بن قیس بن عبید بن زید بن معاویہ بن عمرو بن مالک بن النجار۔ انصاری نے کہا : ابو طلحہ ؓ اور ابی بن کعب ؓ کے درمیان چھ آباء تھے۔ فرمایا : عمرو بن مالک، حسان اور ابی بن کعب اور ابو طلحہ ؓ کو جمع کرتا ہے، ابو عمر ؓ نے کہا : اس میں ایسی چیز ہے جو قرابت کا تقاض کرتی ہے کہ وہ اس دوری میں بھی ہوتی اور جو اس سے کم ہو وہ تو زیادہ اس لائق ہے کہ اسم القرابۃ اسے لاحق ہو۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” مما قل منہ اوکثر، نصیبا مفروضا “۔ اللہ تعالیٰ نے بیٹیوں کے لیے میراث میں حصہ ثابت کیا ہے اور یہ نہیں بیان فرمایا کہ وہ کتنا ہے پھر نبی مکرم ﷺ نے سوید اور عرفجۃ کی طرف پیغام بھیجا کہ اس کے مال سے کچھ بھی جدا نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیٹیوں کے لیے بھی حصہ مقرر فرمایا ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ وہ حصہ کتنا ہے حتی کہ میں دیکھ لوں جو اللہ تعالیٰ نازل فرمائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی۔ (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثین فان کن نسآء فوق اثنتین فلھن ثلثا ما ترک، وان کا نت واحدۃ فلھا النصف ولابویہ لکل واحد منھما السدس مما ترک ان کان لہ والد، فان لم یکن لہ ولاد وورثہ ابوہ فلامہ الثلث فان کان لہ اخوۃ فلامہ السدس من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین، ابآؤ کم وابنآؤکم لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا فریضۃ من اللہ ان اللہ کان علیما حکیما، ولکم نصف ما ترک ازواجکم ان لم یکن لھن ولد فان کان لھن ولد فلکم الربع مما ترکن من بعد وصیۃ یوصین بھا اودین، ولھن الربع مما ترکتم ان لم یکن لکم ولد فان کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم من بعد وصیۃ توصون بھا اودین، وان کان رجل یورث کللۃ اوامراۃ اولہ اخ اواخت فلکل واحد منھما السدس، فانکانوا اکثر من ذلک فھم شرکاء فی الثلث من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین، غیر مضار وصیۃ من اللہ، واللہ علیم حلیم، تلک حدود اللہ، ومن یطع اللہ ورسولہ یدخلہ جنت تجری من تحتھا الانھر خالدین فیھا وذلک الفوز العظیم۔ پھر ان دونوں کو پیغام بھیجا کہ ام کجہ کو اس کے ترکہ سے آٹھواں حصہ دو اور بیٹوں کو دو ثلث، اور باقی مال تمہارا ہے۔ (1) (تفسیر بغوی، جلد 1، صفحہ 397) مسئلہ نمبر : (5) ہمارے علماء نے اس آیت سے فرائض پر متروک مال کی تقسیم پر استدلال کیا ہے جب کہ اس میں اس کی حالت کی تبدیلی کرنا بھی ہو جیسے حمام، کمرہ، زیتوں کا کھلوان اور وہ گھر جس میں حصہ داروں کے اقرار کے ساتھ منافع باطل ہوتے ہوں، امام مالک نے فرمایا : متروکہ مال تقسیم کیا جائے گا اگرچہ کسی کے حصہ میں اتنا مال آئے جس سے نفع حاصل نہ کیا جاسکتا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، (آیت ” مما قل منہ اوکثر نصیبا مفروضا “۔ یہ ابن کنانہ کا قول ہے اور یہی امام شافعی (رح) نے کہا ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا قول بھی اسی طرح ہے، امام ابوحنیفہ نے فرمایا : چھوٹا سا گھر دو آدمیوں میں مشترک ہو ایک تقسیم طلب کرے اور دوسرا انکار کرے تو اس کو تقسیم کیا جائے گا، ابن ابی لیلی نے کہا : اگر ان میں کوئی ایسا شخص ہو جو اپنے حصہ سے نفع نہ اٹھا سکتا ہو تو تقسیم نہیں کی جائے گی ہر وہ تقسیم جس میں کسی ایک پر نقصان وارد ہو تو مال تقسیم نہیں کیا جائے گا، یہ ابو ثور کا قول ہے، ابن منذر نے کہا : یہ دونوں قول میں اصح قول ہے۔ ابن القاسم نے یہ مالک سے روایت کیا ہے جو ابن عربی نے ذکر کیا ہے ابن القاسم نے کہا : میرا خیال یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو تقسیم نہیں ہوتی، مثلا گھر، منازل، حمامات، اور اس کی تقسیم میں ضرر ہو اور جب تقسیم کیا جائے تو اس سے نفع حاصل نہ ہو تو اسے بیچا جائے اور اس میں شفعہ نہ ہوگا، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا شعفہ اس چیز میں ہے جس کو تقسیم نہ کیا گیا ہو جب حدود واقع ہوں تو شفعہ نہیں ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے شفعہ اس چیز میں ثابت فرمایا جس میں حدود واقع کرنا ممکن ہو اور شفعہ کو غیر منقسم چیز میں معلق فرمایا ان چیزوں میں سے جن میں حدود کا واقع کرنا ممکن ہو یہ حدیث کی دلیل ہے، میں کہتا ہوں : اس قول کی حجت وہ روایت ہے جو دارقطنی نے ابن جریج کی حدیث سے نقل کی ہے فرمایا : مجھے صدیق بن موسیٰ (رح) نے خبر دی انہوں نے محمد بن ابی بکر (رح) سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ورثاء پر تقسیم نہ ہوگا مگر وہ مال جو تقسیم کا احتمال رکھتا ہو “۔ ابو عبید نے کہا : یہ اس طرح ہے کہ کوئی شخص مر جائے اور کوئی ایسی چیز چھوڑ جائے کہ اگر اسے ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے تو اس میں تمام ورثاء یا بعض ورثاء کو نقصان ہوتا ہو، فرمایا : اسے تقسیم نہیں کیا جائے گا جیسے جوہرہ، حمام، چادر اور اس کی مثل چیزیں (دارقطنی کی حدیث کے متن میں التعضیۃ لفظ استعمال ہوا ہے، علامہ قرطبی نے اس کی شرح میں لکھا ہے) التعضیۃ کا معنی ہے جدا جدا کرنا، کہا جاتا ہے : عضیت الشیء جب کسی چیز کو جدا جدا کیا جائے، اس سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الذین جعلوا القرآن عضین “۔ (الحجر) (جنہوں نے کردیا تھا قرآن کو پارہ پارہ) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” غیر مضآر تو اللہ تعالیٰ نے نقصان دینے کی نفی فرمائی، اسی طرح نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : لا ضرر ولا ضرار، (نہ ابتداء کسی کو نقصان پہنچائے اور نہ بدلے میں نقصان پہنچائے) نیز آیت کریمہ میں تقسیم کے متعلق کوئی ذکر نہیں یہ صرف چھوٹے اور بڑے کے لیے حصہ کے وجوب کا تقاضا کرتی ہے خواہ مال تھوڑا ہو یا زیادہ ہو اور یہ زمانہ جاہلیت کے رواج کا رد کرتی ہے۔ (آیت) ” للرجال نصیب، وللنسآء نصیب “۔ ترجمہ : یعنی مردون کے لیے بھی حصہ ہے اور عورتوں کے لیے بھی حصہ۔ یہ بالکل ظاہر ہے اور اس حصہ کی مقدار دوسری دلیل سے ماخوذ ہے۔ وارث کہے کہ میرے لیے حصہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ پس تم مجھے اس مال سے حصہ دو ، اسے اس کا شریک کہے : خاص طور پر تجھے دینا تو ممکن نہیں، کیونکہ یہ میرے اور تیرے درمیان ضرر اور نقصان کا باعث ہوگا، کیونکہ اس طرح مال خراب ہوجائے گا، اس کی ہیئت بدل جائے گی اور اس کی قیمت کم ہوجائے گی پس ترجیح واقع ہوگی، اور اظہر یہ ہے کہ اس صورت میں تقسیم نہیں کرنی چاہیے جس میں منفعت باطل ہوجائے اور مال کم ہوجائے جیسا کہ ہم نے دلیل ذکر کی ہے۔ واللہ الموفق۔ فراء نے کہا : (آیت) ” نصیبا مفروضا “ یہ تیرے اس قول کی طرح ہے قسما واجبا وحقا لازما۔ یہ اسم مصدر کے معنی میں ہے اسی وجہ سے منصوب ہے، زجاج نے کہا : حال کی بنا پر منصوب ہے یعنی ان کے لیے حصے فرضی حالت میں ہیں۔ اخفش نے کہا : اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے حصہ مقرر فرمایا ہے مفروض کا مطلب ہے واجب مقدر۔
Top