Al-Qurtubi - An-Nisaa : 71
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَكُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے) (ایمان والو) خُذُوْا : لے لو حِذْرَكُمْ : اپنے بچاؤ (ہتھیار) فَانْفِرُوْا : پھر نکلو ثُبَاتٍ : جدا جدا اَوِ : یا انْفِرُوْا : نکلو (کوچ کرو) جَمِيْعًا : سب
مومنو ! (جہاد کے لئے) ہتھیار لے لیا کرو پھر یا تو جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو یا سب اکٹھے کوچ کیا کرو
آیت نمبر : 71۔ اس آیت میں پانچ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یایھا الذین امنوا خذوا حذرکم “۔ یہ محمدیہ میں سے مخلص مومنین کو خطاب ہے اور نہیں کفار سے جہاد کرنے، اللہ کے راستہ میں نکلنے اور شرع کی حمایت کرنے کا خطاب ہے ماقبل آیت سے اسکی نظم اور اتصال کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ کی طاعت کا ذکر کیا تو اہل طاعت کو دین کے احیاء اپنی دعوت کے اعلاء کے قیام کا حکم دیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ بلا سوچے سمجھے دشمن کی صفوں میں گھس نہ جائیں حتی کہ جو ہتھیار، سامان جنگ انکے پاس ہے اس کا خوب پتا لگا لیں اور جان لیں اور ان پر کیسے حملہ کریں، یہ انکے لیے زیادہ مضبوطی کا باعث ہے فرمایا (آیت) ” خذوا حذرکم “۔ تو جنگ کرنے کا اسلوب سکھایا اور یہ توکل کے منافی نہیں بلکہ یہ عین توکل کا مقام ہے جیسا کہ پہلے سورة آل عمران میں گزر چکا ہے اور مزید آگے آئے گا۔ ” الحذر، الحذر دونوں لغتیں ہیں جیسے مثل اور مثل الفراء نے کہا اکثر کلام میں الحذر استعمال ہوتا ہے الحذر بھی مسموع ہے کہا جاتا ہے، خذ حذرک یعنی احذر (احتیاط کر) اور کہا جاتا ہے، خذو السلاح حذرا ‘، کیونکہ ہتھیار کے ساتھ احتیاط ہوتی ہے اور احتیاط تقدیر کو دور نہیں کرتی۔ مسئلہ نمبر : (2) قدریہ اپنے اس قول میں کہ احتیاط دشمن کے مکائد اور سازشوں کو دور کرتا ہے، اہل سنت سے مختلف نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اگر احتیاط فائدہ نہ دیتی تو لوگوں کو احتیاط کا حکم دینے کا کوئی معنی نہیں تھا پس معتزلہ کو کہ جائے گا کہ آیت میں اس پر کوئی دلیل نہیں کہ احتیاط تقدیر سے کچھ فائدہ دیتی ہے لیکن ہمیں مکلف کیا گیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو خود ہلاکت میں نہ ڈالیں، اسی سے یہ حدیث ہے اونٹ کو باندھو اور توکل کرو (1) (جامع ترمذی، حدیث نمبر 2441، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اگرچہ تقدیر پر اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق جاری ہوتی ہے اور اللہ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے، اس سے مراد دل کا اطمینان ہے نہ کہ یہ کہ احتیاط تقدیر سے کچھ فائدہ دیتی ہے اسی طرح احتیاط کرنا ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (آیت) ” قل لن یصیبنا الا ما کتب اللہ لنا (التوبہ : 51) سے اپنے نبی مکرم ﷺ کی تعریف کی ہے، پس اگر اللہ تعالیٰ کا جو ان پر فیصلہ تھا اس کے خلاف نہیں پہنچتا تو اس کلام کا کوئی معنی نہیں رہتا۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فانفروا ثبات “۔ کہا جاتا ہے نفر ینفر نفیرا با کے کسرہ کے ساتھ نفرت الدابۃ نفر نفورا، (فا کے ضمہ کے ساتھ) اس کا مطلب ہے دشمن سے جنگ کرنے کے لیے اٹھو، استنفر الامام الناس ‘ امام نے لوگوں کو نضر کی طرف بلایا یعنی دشمن سے لڑنے کی دعوت دی، النفیر اس قوم کو کہتے ہیں جو جنگ کے لیے نکلتے ہیں اس کی اصل النفار اور النفور سے ہے اور اس کا معنی گھبراہٹ ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولو علی ادبارھم نفورا “۔ یعنی وہ اسی سے ہے نفرالجلد یعنی جلد سوج گئی، تخلل رجل بالقصب فنفر فمہ۔ یعنی آدمی نے سرکنڈے کے ساتھ حلال کیا تو اس کا منہ سوج گیا، ابو عبید ؓ نے کہا : یہ نفار الشی من الشی سے مشتق ہے اور یہ ایک چیز کا دوسری چیز سے جدا ہونا ہے، ابن الفارس نے کہا النفر تین سے لے کر دس تک لوگوں کو کہتے ہیں النفیر اور النفر بھی ہے اسی طرح النفر اور النفرۃ بھی ہے۔ الفراء نے اس کو ہا کے ساتھ حکایت کیا ہے، یوم النفر جس دن لوگ منی سے نکلتے ہیں وثبات اس کا معنی ہے متفرق جماعتیں، کہا جاتا ہے ثبین جمع مذکر سالم اور جمع مونث سالم بنائی جاتی ہے عمرو بن کلثوم نے کہا : فاما یوم خشیتنا علیہم فتصبح خلینا عصبا ثبینا : پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ثبات “۔ یہ سرایا ہے کنایہ ہے اس کا مفرد ثبۃ ہے، اس سے مراد لوگوں کا گروہ ہے اصل میں یہ الثبیۃ ہے، قد ثبیت الجیش کا مطلب ہے تو نے لشکر کو گروہ گروہ بنادیا، الثبۃ حوض کے وسط کو کہتے ہیں جس کی طرف پانی لوٹتا ہے۔ النحاس نے کہا عربی میں کمزور کا گمان ہے کہ یہ دونوں ایک چیز ہیں اور ہر ایک دوسرے سے ہے حالانکہ ان کے درمیان فرق ہے ثبہ الحوض کی تصغیر میں کہا جاتا ثویبۃ کیونکہ یہ ثاب یثوب سے مشتق ہے اور ثبۃ جس کا معنی جماعت ہے اس کی تصغیر میں ثبیۃ کہا جاتا ہے، نحاس کے علاوہ نے کہا ثبۃ الحوض میں واؤ محذوف ہے اور واؤ عین کلمہ ہے اور ثبۃ الجماعۃ، معتل اللام ہے، یہ ثبایثبو جیسے خلا یخلوا سیے مشتق ہے اور الثبۃ بمعنی الجماعت کا ثبۃ الحوض سے مشتق ہونا بھی جائز ہے کیونکہ پانی جب لوٹتا ہے تو جمع ہوتا ہے اس بناء پر ایک جماعت نے اس کی تصغیر ثوبیہ بنایئی ہے پس ایک یا کو دوسری یا میں داخل ہوگئی، حالانکہ کہا گیا ہے کہ ثبۃ الجماعۃ یہ ثبیت علی الرجل سے مشتق ہے جب تو اس کی زندگی میں اس کی تعریف کرے اور تو نے اس کے ذکر کے محاسن جمع کیے پس وہ اجتماع کی طرف لوٹتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اوانفروا جمیعا “۔ اس کا معنی ہے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کثیر تعداد میں لشکر بن کر نکلو یہ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ کا قول ہے، سرایا، غلائم اور لشکروں کے احکام اور وجوب النفیر کے احکامات سورة الانفال اور سورة برات میں آئیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (5) ابن خویز منداد نے ذکر کیا ہے کہ بعض علماء نے کہا یہ (آیت) ” انفروا خفافا وثقالا “۔ (توبہ : 31) اور (آیت) ” الاتنفروا یعذبکم “۔ (توبہ : 39) کے ارشادات سے منسوخ ہے اور (آیت) ” انفروا خفافا وثقالا “۔ (کا منسوخ ہونا فانفروا ثبات اوانفروا جمیعا اور (آیت) ” وما کان المؤمنون لینفروا کافۃ “۔ (توبہ : 122) کے ارشادات کے ساتھ اولی ہے، کیونکہ جہاد فرض کفایہ ہے جب بعض مسلمانوں سرحدوں پر ہوں تو باقی لوگوں سے وہ فرض ساقط ہوجاتا ہے، صحیح یہ ہے کہ دونوں آیتیں محکم ہیں ایک اس وقت کے بارے میں ہے جب تمام پر حج فرض ہوجاتا ہے اور دوسری اس وقت کے بارے میں ہے جب کچھ لوگ ادا کر رہے ہوں تو کافی ہوتا ہے۔
Top