Al-Qurtubi - An-Nisaa : 117
اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا١ۚ وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًاۙ
اِنْ يَّدْعُوْنَ : وہ نہیں پکارتے مِنْ دُوْنِهٖٓ : اس کے سوا اِلَّآ اِنَاثًا : مگر عورتیں وَاِنْ : اور نہیں يَّدْعُوْنَ : پکارتے ہیں اِلَّا : مگر شَيْطٰنًا : شیطان مَّرِيْدًا : سرکش
یہ جو خدا کے سوا پرستش کرتے ہیں تو عورتوں ہی کی اور پکارتے ہیں تو شیطان سرکش ہی کو
آیت نمبر : 117۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان یدعون من دونہ “۔ یعنی من دون اللہ، (آیت) ” الا انثا “۔ یہ اہل مکہ کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ بتوں کی عبادت کرتے تھے، ان نافیۃ بمعنی ما ہے، اثنا “ سے مراد بت ہیں یعنی لات، عزی اور مناۃ، ہر قبیلہ کا ایک بت تھا جس کی وہ عبادت کرتے تھے اور کہتے تھے : انثی بنی فلاں “ یہ حسن اور حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے (2) (تفسیر الحسن البصری، جلد 2 صفحہ 365) ہر بت کے ساتھ اس کا شیطان ہوتا تھا وہ بتوں کے مجاروں اور کاہنوں کو نظر آتا اور ان سے کلام کرتا، یہ کلام بطور تعجب ذکر کی گئی ہے، کیونکہ ہر جنس سے مونث کمزور اور گھٹیا ہوتی ہے۔ پس یہ ان لوگوں کی جہالت ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ پتھروں کو شریک ٹھہراتے ہیں اور اس کا نام مونث رکھتے ہیں یا اس کے بارے عقیدہ مونث کا رکھتے ہیں، بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” الا انثا “ سے مراد موات (مردے) ہیں، کیونکہ مردوں میں روح نہیں ہوتی (3) (تفسیر الماوردی جلد 1 صفحہ 519) جس طرح لکڑی اور پتھر ہوتا ہے، مواب کے متعلق اسی طرح خبر دی جاتی ہے جس طرح مونث کے متعلق خبر دی جاتی ہے، کیونکہ قدرومنزلت میں یہ برابر ہوتے ہیں، تو کہتا ہے ” الاحجار تعجبنی “ اور اسی طرح تو کہتا ہے : المراۃ تعجنی “ بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” الا انثا “ سے مراد فرشتے ہیں، کیونکہ مشرکوں نے کہا : ملائکہ (نعوذ باللہ) اللہ کی بیٹیاں ہیں یہ اللہ کی بارگاہ میں ہماری سفارشی ہیں۔ یہ ضحاک ؓ سے مروی ہے (4) (تفسیر الماوردی جلد 1 صفحہ 529) حضرت ابن عباس ؓ کی قرات الا وثنا واؤ اور ثا کے فتحہ کے ساتھ اسم جنس کے افراد کی بنا پر ہے۔ وثنا واو اور ثا کے ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا ہے یہ وثن کی جمع ہے اور اوثان بھی وثن کی جمع ہے جیسے اسد اور آساد ہے، نحاس نے کہا : میری معلومات کے مطابق اس کے ساتھ نہیں پڑھا گیا۔ میں کہتا ہوں : ابوبکر انباری (رح) نے ذکر فرمایا : ہمیں میرے باپ نے بتایا، انہوں نے کہا ہمیں نصربن داؤد نے بتایا، انہوں نے کہا ہمیں ابو عبید نے بتایا اور انہوں نے کہا : ہمیں حجاج نے بتایا انہوں نے جریج سے روایت کیا، انہوں نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے وہ اس طرح پڑھتی تھیں، (آیت) ” ان یدعون من دونہ الا انثا “۔ (1) (زاد المسیر فی علم التفسیر، جلد 1، صفحہ 121) حضرت ابن عباس ؓ نے اسے ” الاثنا “ پڑھا ہے گویا وثن کی جمع وثان بنائی گئی جیسے تو کہتا ہے : حمل وحمال پھر وثن کی جمع وثان بنائی گئی جیسے تو کہتا ہے : مثال اور مثل، پھر واؤ کو ہمزہ سے بدلا گیا جب اسے ضمہ دیا گیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” واذا الرسل اقتت “۔ (المرسلات) یہ الوقت سے ہے پس اثن جمع الجمع ہے، نبی مکرم ﷺ نے الا انثا جمع انیث پڑھا ہے جیسے غدیروغدر، طبری نے حکایت کیا ہے کہ یہ اناث کی جمع ہے جیسے ثمار کی جمع ثمر ہے (2) (تفسیر طبری) یہ قرات نبی کریم ﷺ سے ابو عمر والدانی نے حکایت کی ہے اور فرمایا : حضرت ابن عباس، حسن اور ابو حیوہ نے اس کے ساتھ پڑھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ان یدعون الا شیطنا مریدا “۔ اس سے مراد ابلیس ہے، کیونکہ انہوں نے اس کی اطاعت کی جو اس نے انہیں مزین کر کے دیا پس انہوں نے گویا اس کی عبادت کی۔ اس کی مثال معنی میں یہ ہے : (آیت) ” اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ “۔ (توبہ : 31) یعنی جو انہوں نے حکم دیا اس کی انہوں نے اطاعت کی یہ مطلب نہیں کہ بلاواسطہ ان کی عبادت کی۔ مزید تفصیل آگے آئے گی۔ شیطان کے لفظ کا اشتقاق گزر چکا ہے، المرید سے مراد سرکش اور نافرمان ہے، یہ فعیل کا وزن ہے، یہ مرد سے مشتق ہے جس کا معنی نافرمانی کرنا ہے۔ المرید اطاعت سے نکلنے والا، مراد الرجل یمرد مرودا جب کوئی نافرمانی کرے اور اطاعت سے نکل جائے، فھو مارد، مریدومتمرد، ابن عرفۃ نے کہا : اس سے مراد وہ شخص ہے جس کا شر ظاہر ہو، اسی سے کہا جاتا ہے : شجرہ مراداء وہ درخت جس کے پتے جھڑ جائیں اور اس کی لکڑیاں ظاہر ہوجائیں اور اسی سے رجل امرد کہا جاتا ہے جس کے رخساروں سے بالوں کی جگہ ظاہر ہو۔
Top