Al-Qurtubi - Az-Zumar : 42
اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِهَا١ۚ فَیُمْسِكُ الَّتِیْ قَضٰى عَلَیْهَا الْمَوْتَ وَ یُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَتَوَفَّى : قبض کرتا ہے الْاَنْفُسَ : (جمع) جان۔ روح حِيْنَ : وقت مَوْتِهَا : اس کی موت وَالَّتِيْ : اور جو لَمْ تَمُتْ : نہ مرے فِيْ : میں مَنَامِهَا ۚ : اپنی نیند فَيُمْسِكُ : تو روک لیتا ہے الَّتِيْ : وہ جس قَضٰى : فیصلہ کیا اس نے عَلَيْهَا : اس پر الْمَوْتَ : موت وَيُرْسِلُ : وہ چھوڑ دیتا ہے الْاُخْرٰٓى : دوسروں کو اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : ایک وقت مُّسَمًّى ۭ : مقررہ اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّتَفَكَّرُوْنَ : غور و فکر کرتے ہیں
خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں انکی روحیں سوتے میں (قبض کرلیتا ہے) پھر جن پر موت کا حکم کر چکتا ہے ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں
مسئلہ نمبر -1 اللہ یتوفی الانفس حیبن موتھا ان کی عمروں کے ختم ہونے پر نفوس کو قبض کرلیتا ہے والتی لم تمت فی منامھا اس کی تعبیر میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان کے جسموں میں روحوں کے باقی رکھنے کے ساتھ تصرف سے انیں روک دیتا ہے۔ فیمسک التی قضی علیھا الموت و یرسل الاخری یعنی وہ نفوس جو سوئے ہوتے ہیں انہیں موت کے وقت تک آزادچھوڑ دیت ا ہے ‘ یہ ابن عیسیٰ کا قول ہے۔ فراء نے کہا : معنی ہے وہ نفوس جو نیند میں مرتے ان کی عمروں کے ختم ہونے پر ان کو قبض کرلیتا ہے۔ کہا بعض اوقات قبض کرنا اس کی نیند ہی ہوا کرتی ہے تو اس صورت میں تقدیر کلام اس صورت میں ہوگی والتی لم تمت و فتھا نومھا۔ حضرت ابن عباس اور دوسرے مفسرین نے کہا : زندوں اور مردوں کی روحین نیند کی حالد میں ملتی ہیں اللہ تعالیٰ جتنا چاہتا ہے وہ آپس میں متعارف ہوتی ہیں جب اللہ تعالیٰ ان سب کے اجسام میں رجوع کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ مردوں کی روحوں کو اپنے پاس روک لیتا ہے اور زندوں کی روحوں کو انکی طرف بھیج دیتا ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا : اللہ تعالیٰ مردوں کی روحوں کو قبض کرتا ہے جب وہ مرجاتے ہیں (1) اور زندوں کی روحوں کو قبض کرلیتا ہے جو وہ سو جاتے ہیں وہ آپس میں متعارف ہوتی ہیں جتنا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ متعارف ہوں یرسل کا معنی ہے وہ انہیں واپس کرتا ہے۔ حضرت علی شیر خدا ؓ نے کہا : سونے والے کا نفس جب کہ وہ آسمان میں ہوتا ہے ابھی اسے اس کے جسم کی طرف نہیں لوٹایا جاتا تو وہ سچی خوابیں ہوتی ہیں اور جس چیز کو ان کے بھیجنے کے بعد اور جسموں میں قرار پکڑنے سے پہلے دیکھتا ہے وہ شیطان القا کرتا ہے اور باطل ان میں خیال ڈالتے ہیں تو وہ جھوٹے خواب ہیں۔ ابن زید نے کہا : نیند وفات ہے اور موت بھی وفات ہے۔ نبی کریم ﷺ سے مروی ہے : ” جس طرح تم سوتے ہو اسی طرح تمہیں موت دی جاتی ہے اور جس طرح تم جاگتے ہو اسی طرح تمہیں اٹھایا جائے گا “ (2) ۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : نیند موت کا بھائی ہے۔ حضرت جائز بن عبداللہ ؓ سے ایک مرفوع روایت مروی ہے عرض کی گئی : یا رسول اللہ ﷺ کیا جنتی سوئیں گے ؟ فرمایا : لا النوم اخوالموت والجنۃ لا موت فیھا ‘ نہیں نیند موت کے بھائی ہے اور اس جنت میں کوئی موت نہیں ‘ اسے دار قطنی سے روایت کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : انسان میں نفس اور روح ہے دونوں کے درمیان سورج کی شعاع جیسا تعلق ہے نفس کے ساتھ سمجھ اور تمیز ہوتی ہے اور روح کے ساتھ سانس کی حرکت ہوتی ہے جب بندہ سوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا نفس قبض کرلیتا ہے اور اس کی روح قبض نہیں کرتا ‘ یہ ابن انباری اور زجاج کا قول ہے۔ قشیری ابو نصر نے کہا : یہ بات حقیقت سے بہت ہی دور کیونکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ دونوں حالتوں میں نفس مقبوض ایک ہی چیز ہے اسی وجہ سے فرمایا : فیمسک التی قضی علیھا الموت و یرسل الاخری انی الی اجل مسمی پس اللہ تعالیٰ دونوں حالتوں یعنی نیند اور حالت موت میں روح کو ہی قبض کرتا ہے جسے حالت نیند میں قبض کرتا ہے تو اس کا معنی ہے اسے بھانپ لیتا ہے یعنی تصرف سے اسے روک دیتا ہے گویا وہ بھی ایسی چیز ہے جس پر قبضہ کرلیا گیا ہے اور جسے موت کی حالت میں قبض کرتا ہے تو اسے روک لیتا ہے اور قیامت تک اسے نہیں چھوڑتا۔ و یرسل الاخری جو چیز اسے روک رہی تھی اس کو زائل کردیتا ہے تو وہ لوٹ آتا ہے جس طرح وہ پہلے تھا نفس کی حالت نیند میں وفات حس کو زائل کرنے ‘ غفلت کو پیدا کرنے اور ادراک کے محل میں آفت کو پیدا کرنے کے ساتھ ہوتی ہے اور حالت نیند میں وفات سے مراد موت پیدا کرنا اور کلی طور پر حس کو ختم کرنا ہوتا ہے فیمسک التی قضی علیھا الموت یعنی اس میں ادراک پیدا نہیں کرتا۔ یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں موت پیدا کردی ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر -2 اس آیت کی وجہ سے لوگوں نے نفس اور روح میں اختلاف کیا ہے ‘ کیا یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں یا یہ دو چیزیں ہیں جسے ہم نے ذکر کیا ہے ؟ زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ دونوں ایک چیز ہیں اسی پر صحیح آثار دلالت کرتے ہیں جس طرح ہم اس باب میں ذکر کریں گے۔ اسی ضمن میں حضرت ام سلمہ ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ابو سلمہ کے ہاں تشریف لے گئے جب کہ ان کی آنکھ کھلی ہوئی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھ کو بند کردیا پھر فرمایا : الروح اذا قبض تبعہ البصر روح جب قبض کی جاتی ہے تو آنکھ اس کا پیچھا کرتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : الم ترو الانسان اذا مات شخص بصرہ کیا تم انسان کو نہیں دیکھتے جب وہ مرتا ہے تو اس کی آنکھ کھل جاتی ہے فرمایا : ” یہ اس لئے ہوتا ہے کیونکہ اس وقت نظر نفس کا پیچھا کرتی ہے “ دونوں روایات کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جب بند نیک ہوتا ہے تو ملائکہ حاضر ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں : اے پاکیزہ نفس ! نکلو جب وہ پاکیزہ جسم میں ہوتا ہے تو نکل جب کہ تو تعریف کی گئی ہے تجھے روح و ریحان کی بشارت ہو تجھے راضی رب کی بشارت ہو وہ غصہ میں نہیں ‘ اسے لگاتار یہ بات کی جاتی ہے یہاں تک کہ اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے “ اس کی سند صحیح ہے ‘ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ ہم نے اس کا ذکر تذکرہ میں کیا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے : ” جب فرشتے کسی شخص کی روح کو نکالتے ہیں تو اسے دو فرشتے وصول کرلیتے ہیں جو اسے اوپر کی طرف لیجاتے ہیں “ حضرت بلال ؓ نے نوادی والی حدیث) جس میں حضرت بلال کی زمہ داری دی گی تھی کہ وہ نماز کے لئے صحابہ کو بیدار کریں ( میں کہا : یا رسول اللہ ! میرے نفس کو اسی ذات نے اپنی گرفت میں لے لیا جس ذات نے آپ کو نفس کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ زید بن مسلم کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اس کے مقابل یہ ارشاد فرمایا : اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے ہماری روحوں کو قبض کرلیا تھا اگر وہ چاہتا تو انہیں ہماری طرف اس وقت کے علاوہ وقت میں لوٹا دیتا “۔ مسئلہ نمبر -3 اس میں صحیح یہ قول ہے کہ ایک لطیف جسم ہے اجسام محسوسہ کے ساتھ چنگل مارے ہوئے ہے اسے کھینچا جاتا ہے اور اسے نکالا جاتا ہے اسے کفن میں لپیٹا جاتا ہے اور اس کفن میں داخل کیا جاتا ہے اسے ہی آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے اسے موت نہیں آتی وہ فنا نہیں ہوتا یہ پاکیزہ خوشبو اور خبیث خوشو والا ہے جس طرح حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے یہ اجسام کی صفات ہیں اعراض کی صفت نہیں ہم نے اس بارے میں تمام اخبار کتاب الذکرہ باحول الموتی والدار الاخرۃ میں ذکر کی ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فلو لا اذا بلغت الحلقوم۔ ) واقعہ ( اس سے مراد نفس ہے جب وہ جسم سے نکلتا ہے یہ جسم کی صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر -4 امام بخاری اور امام مسلم حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اذا اوی احدکم الی فراشہ قلیا خذ داخلۃ اذارہ فلینفض بھا فراشہ ولیسم اللہ فانہ لا یعلم ما خلفہ بعد علی فراشہ فاذا اراد ان یضطجع فلیضطجع علی شقہ الایمن ولیقل ‘ سبحانک ربی و ضعت جنبی و بک ارفعہ ان امسکت نفسی فاغفرلھا (1) ۔ جب تم میں سے کوئی اپنے بستر کا ارادہ کرے تو وہ تہبند کے اندر کے حصہ لے اور اس کے ساتھ اپنے بستر کو جھاڑے اور اللہ تعالیٰ کا نام لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد کون اس کا نائب رہا جب وہ لیٹنے کا ارادہ کرے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹے اور کہے : اے میرے رب ! تو پاک ہے میں نے اپنا پہلو رکھ دیا ہے اور تجھی کے سہارے میں اسے اٹھائوں گا اگر تو میرے نفس کو روک لے تو اسے بخش دے۔ بخاری ‘ ابن ماجہ ‘ اور ترمذی نے فاغفرلھا کی جگہ فرحمھا کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور یہ الفاظ بھی ذکر کئے اگر تو اسے چھوڑ دے تو اس کی حفاظت فرما جن چیزوں سے تو اپنے صالح بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔ امام ترمذی نے یہ الفاظ زائد ذکر کئے ہیں : جب وہ بیدار ہو تو کہے : اس ذات کے لئے تمام تعریفیں ہیں جن نے میرے جسم کو عافیت عطا فرمائی میری روح کو میری طرف لوٹا دیا اور اپنے ذکر کا مجھے اذن دیا۔ امام بخاری نے حضرت حذیفہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ رات کے وقت سوتے تو اپنا ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے پھر کہتے : اللھم یاسمک اموت و احیا اے میرے اللہ ! تیرے نام سے مرتا ہوں اور تیرے نام سے زندہ ہوتا ہوں۔ جب وہ بیدار ہوتے تو کہتے : الحمد اللہ الذی احیانا بعد ما اماتنا و الیہ النشور (2) اس اللہ تعالیٰ کی تمام تر تعریفیں ہیں نے ہمیں موت کے بعد زندہ عطا کی اور اسکی طرف اٹھنا ہے۔ فیمسک التی قضی علیھا الموت یہ عام قراءت ہے فعل معرف ہے اور الموت پر نصب ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اس پر موت کا فیصلہ کردیا ‘ یہ ابو حاتم اور ابو عبیدہ کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے کیونکہ آیت کے شروع میں اللہ یتوقی الانفس پس وہ ہی نفس پر فیصلہ فرماتا ہے۔ اعمش ‘ یحییٰ بن ثاب ‘ ہمزہ اور کسائی نے اسے قضی علیھا الموت پڑھا ہے یعنی فعل مجہول۔ نحاس نے کہا : معنی ایک ہے مگر پہلی قراءت زیادہ واضح اور سیاق کلام کے زیادہ مناسب ہے کیونکہ سب نے اس بات پر اتفاق کیا ہے و یرسل انہوں نے اسے و یرسل نہیں پڑھا۔ آیت میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت ‘ الوہیت میں منفرد ہونے ‘ جو چاہے کرنے زندہ دینے اور موت عطا کرنے پر تنبیہ ہے اس ذات کے علاوہ کوئی اس پر قادر نہیں۔ ان فی ذلک لایت یعنی میت اور سونے والے کا نفس قبض کرنے اور سونے والے نفس کو چھوڑ دینے اور میت کے نفس کو روک لینے میں کئی نشانیاں ہیں۔ اصمعی نے کہا میں نے معتمر کو کہتے ہوئے سنا : انسان کی روح کا تے ہوئے دھاگے کے بنڈل کی طرح ہے روح کو چھوڑا جاتا ہے وہ جاتی ہے پھر اسے لپیٹا جاتا ہے تو وہ آتی ہے اور جسم میں داخل ہوجاتی ہے۔ آیت کا معنی ہے یہ ہے حالت نیند میں روح کا کچھ حصہ چوڑا جاتا ہے اس کا اکثر حصہ بدن میں ہوتا ہے اس کا جو حصہ جسم سے نکلتا ہے اس کے ساتھ اس کا مخفی اتصال موجودہوتا ہے انسان جب بیدار ہوتا ہے تو روح کا وہ حصہ جو پھیل چکا تھا جسم میں موجود اکثر حصہ اسے اپنی طرف کھینچتا ہے تو وہ لوٹ آتی ہے ‘ اس کے علاوہ بھی بات کی گئی۔ سبحان میں ا بحت پہلے گزر چکی ہے۔
Top