Al-Qurtubi - Az-Zumar : 36
اَلَیْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ١ؕ وَ یُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهٖ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍۚ
اَلَيْسَ : کیا نہیں اللّٰهُ : اللہ بِكَافٍ : کافی عَبْدَهٗ ۭ : اپنے بندے کو وَيُخَوِّفُوْنَكَ : اور وہ خوف دلاتے ہیں آپ کو بِالَّذِيْنَ : ان سے جو مِنْ دُوْنِهٖ ۭ : اس کے سوا وَمَنْ : اور جس يُّضْلِلِ : گمراہ کردے اللّٰهُ : اللہ فَمَا لَهٗ : تو نہیں اس کے لیے مِنْ : کوئی هَادٍ : ہدایت دینے والا
کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ؟ اور یہ تم کو ان لوگوں سے جو اس کے سوا ہیں (یعنی خدا سے) ڈراتے ہیں اور جس کو خدا گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں
36 ۔ 37:۔ الیس اللہ بکاف عبدہ ‘۔ کاف سے یاء حذف کردی گئی ہے کیونکہ یاء خود بھی ساکن ہے اور اس کے بعد تنوین بھی ساکن ہے اصل تو یہ تھا کہ وقف میں یاء کو حذف نہ کیا جاتا کیونکہ تنوین زائل ہے مگر اسے حذف کردیا گیا ہے تاکہ عملم ہو کہ فصل میں بھی یہی صورتحال ہے عربوں میں ایسے بھی ہیں کہ وقف کی صورت میں بھی یاء کو باقی رکھتے ہیں وجہ اس کی اصل کو ملحوظ رکھنا ہے وہ کہتے ہیں : کافی عام قراء کی قراءت عبدہ ہے مراہ حضور ﷺ کی ذات ہے اللہ تعالیٰ کی ذات مشرکین کی وعید اور ان کے مکر کے لئے کافی ہے۔ حمزہ اور کسائی نے عبادہ پڑھا ہے (1) وہ انیباء ہیں یا انبیاء اور مومن ہیں۔ ابو عبید نے جمع کے صیغہ کی قراءت کو پسند کیا ہے کیونکہ اس کے بعد یہ قول ہے و یخو فونک بالذین من دونہ یہ بھی احتمال ہے العبد لفظ جنس ہو جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ان الانسان لفی خسر۔ ) العصر ( اس تاویل کی بناء پر پہلی قراءت دوسری قراءت کی طرف راجع ہے کفایت بتوں کے شر کے لئے ہے کیونکہ مشرکین مومنوں کو بتوں کے سامنے ڈرایا کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : و کیف اخاف ما اشرکتم ولا تخافون انکم اشرکتم باللہ) الانعام (81: جرحانی نے کہا : اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے اور کافر بندے کو ثواب دے کر اور عقاب دے کر کافی ہے۔ و یخوفونک بالذین من دونہ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو بتوں کی مضرت سے خبردار کیا تھا انہوں نے کہا : کیا آپ ہمارے معبودوں کو گالیاں دیتے ہیں اگر آپ ﷺ ان معبودوں کے زکر سے نہیں رکھیں گے تو یہ تجھے پاگل کردیں گے یا تجھے کوئی نقصان پہنچائیں گے۔ قتادہ نے کہا : حضرت خالد بن ولید عزی بت کی طرف گئے تاکہ اسے کلہاڑے کے ساتھ توڑ دیں اس کے خادم نے آپ کو کہا : اے خالد ! میں تجھے اس سے خبردار کرتا ہوں کیونکہ اس میں ایسی طاقت ہے کوئی چیز اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ حضرت خالد عزی بت کی طرف بڑھے اور کی تاک رور دی یہاں تک کہ کلہاڑے سے اسے توڑ دیا ان کا حضرت خالد رضي اللہ عنہ کو ڈرانا نبی کریم ﷺ کو ڈرانا تھا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ہی انہیں بھیجا تھا آیت میں یہ چیز داخل ہے کہ وہ اپنے لشکروں کی زیادتی اور قوت کے ساتھ نبی کریم ﷺ کو ڈرایا کرتے تھے جس طرح ارشاد فرمایا ام یقولون نحن جمیع منتصر۔ ) القمر ( و من یضلل اللہ فما لہ من ھاد۔ اس کے بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے و من یھد اللہ فمالہ من مضل الیس اللہ بعزیز ذی انتقام۔ یعنی جو اللہ تعلای سے دشمنی رکھے یا اس کے رسولوں سے دشمنی رکھے کیا اللہ تعالیٰ غالب اور انتقام لینے والا نہیں۔
Top