Al-Qurtubi - Az-Zumar : 19
اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ١ؕ اَفَاَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِی النَّارِۚ
اَفَمَنْ : کیا۔ تو۔ جو ۔ جس حَقَّ : ثابت ہوگیا عَلَيْهِ : اس پر كَلِمَةُ : حکم۔ وعید الْعَذَابِ ۭ : عذاب اَفَاَنْتَ : کیا پس۔ تم تُنْقِذُ : بچا لو گے مَنْ : جو فِي النَّارِ : آگ میں
بھلا جس شخص پر عذاب کا حکم صادر ہوچکا تو کیا تم (ایسے) دوزخی کو مخلصی دے سکو گے ؟
نبی کریم ﷺ اپنی قوم کے ایمان کے بارے میں حریض تھے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے حق میں شفاعت سبقت لے جا چکی تھی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس سے مراد ابولہب ‘ اس کی اولاد اور خاندان کے وہ افراد ہیں جو نبی کریم ﷺ پر ایمان نہیں لائے تھے افانت میں ہمزہ کو تاکید کے لئے مکسور ذکر کیا ہے کیونکہ کلام بہت طویل ہو گیی ہے۔ سیبویہ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : ایعدکم انکم اذا متم و کنتم ترابا و عظاما انکم مخرجون) المومنون ( کے بارے میں یہی بات کہی ہے جس طرح پہلے بحث گذر چکی ہے۔ معنی ہے کیا جس پر عذاب کا حکم واجب ہوچکا ہے کیا تو اس کو بچانے والا ہے یہ کلام شرط اور اس کے جواب پر مشتمل ہے اسے استفہام کے ساتھ پڑھا گیا تاکہ توقیف و تقدیر پر دلالت کرے۔ فراء نے کہا : اس کے معنی ہے جس پر عذاب کا حکم واجب ہوچکا ہے تو اس کو بچائے گا۔ معنی ایک ہی ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے : کلام میں حذف ہے تقدیر کلام یہ ہوئی افمن حق علیہ کلمۃ العذاب ینجومنہ اس کا مابعد جملہ مستانفہ ہے افمن حق علیہ دوسری جگہ فرمایا : حقت کلمۃ العذاب کیونکہ فعل جب پہلے ہو اور فعل اور جس اسم کی اس کے ساتھ صفت بیان کی جا رہی ہو کے درمیان کوئی رکاوٹ حائل ہو تو اس میں تذکیرو ثانیث جائز ہوتی ہے کیونکہ یہاں تانیث حقیقی نہیں بلکہ کلمہ ‘ کلام اور قول کے معنی میں ہے مراد ہوگا افمن حق علیہ قول الغذاب۔
Top