Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 60
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَ مَا الرَّحْمٰنُ١ۗ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَ زَادَهُمْ نُفُوْرًا۠۩  ۞   ۧ
وَاِذَا : اور جب قِيْلَ : کہا جائے لَهُمُ : ان سے اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کو قَالُوْا : وہ کہتے ہیں وَمَا : اور کیا ہے الرَّحْمٰنُ : رحمن اَنَسْجُدُ : کیا ہم سجدہ کریں لِمَا تَاْمُرُنَا : جسے تو سجدہ کرنے کو کہے وَزَادَهُمْ : اور اس نے بڑھا دیا ان کا نُفُوْرًا : بدکنا
اور جب ان (کفار) سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں کہ رحمن کیا ؟ کیا جس کے لئے تم ہم سے کہتے ہو ہم اسکے آگے سجدہ کریں اور اس سے بدکتے ہیں
( واذا قیل لھم۔۔۔۔۔ ) واذا قیل لھم اسجدو اللرحمن، رحمن سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ قالو وما الرحمن وہ بات انکار اور تعجب کے طریقہ پر کرتے ہیں، یعنی ہم تو یمامہ کے رحمن کو جانتے ہیں وہ اس سے مراد مسیلمہ کذاب لیتے۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے گمان کیا ہے : وہ صفت سے جاہل تھے موصوف سے جاہل نہیں تھے۔ اس پر استدلال وما الرحمن سے کیا گیا ہے انہوں نے من الرحمن نے کہا۔ ابن حصار نے کہا : گویا انہوں نے دوسری آیت نہیں پڑھی وہ ہے :” وھم یکفرون بالرحمن “ ( الرعد : 30) ” انسجد لما تامرنا “ یہ مدینہ طیبہ اور بصرہ کے قراء کی قرأت ہے، یعنی اے محمد ﷺ ! کیا ہم اس کو سجدہ کریں جس کے بارے میں تو ہمیں حکم دیتا ہے ؟ ابو عبیدہ اور ابو حاتم نے اسے پسند کیا ہے۔ اعمش، حمزہ اور کسائی نے یا مرنا یاء کے ساتھ قرأت کی ہے فاعل الرحمن مراد لیتے، ابو عبید نے یہی تاویل کی ہے، کہا : اگر وہ اقرار کرتے کہ رحمن نے انہیں حکم دیا ہے تو وہ کافر نہ ہوتے۔ نحاس نے کہا : یہ واجب نہیں آتا کہ کو فیوں کی قرأت میں یہ بعید تاویل کی جائے لیکن اولیٰ یہ ہے کہ ان کی یہ تاویل کی جائے انسجد لما یا مرنا، ھو ضمیر سے مراد نبی کریم ﷺ ہیں اس طرح یہ قرأت صحیح ہوگی اگرچہ پہلی قرأت زیادہ واضح اور تناول کے اعتبار سے زیادہ قریبی ہے۔ وزادھم نفور قائل کے اس قول : اسجدو اللرحمن نے دین سے ان کی نفرت میں اضافہ کردیا۔ حضرت سفیان ثوری اس آیت کے بارے میں یہ عرض کرتے : اے میرے اللہ ! وہ چیز جس نے تیرے دشمنوں کے نفور میں اضافہ کیا ہے وہ میرے خضوع میں اضافہ کرے۔
Top