Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 50
وَ لَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَیْنَهُمْ لِیَذَّكَّرُوْا١ۖ٘ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ : اور تحقیق ہم نے اسے تقسیم کیا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان لِيَذَّكَّرُوْا : تاکہ وہ نصیحت پکڑیں فَاَبٰٓى : پس قبول نہ کیا اَكْثَرُ النَّاسِ : اکثر لوگ اِلَّا : مگر كُفُوْرًا : ناشکری
اور ہم نے اس (قرآن کی آیتوں) کو طرح طرح کے لوگوں میں بیان کیا تاکہ نصیحت پکڑیں مگر بہت سے لوگوں نے انکار کے سوا قبول نہ کیا
( ولقد صرفنہ۔۔۔۔۔ ) ولقد صرفنہ بینھم، ضمیر سے مراد قرآن ہے، سورت کے آغاز میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ” تبرک الذی نزل الفرقان “ اللہ تعالیٰ کا فرما ہے ” لقد ضلنی عن الذکر بعد اذجاءنی “ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’ ’ اتخذ ھذا القرآن مجھورا۔ “ لیذکروا فابی اکثر الناس الا کفورا۔ کفورا یعنی اس کا انکار کرتے ہوئے اور اسے جھٹلاتے ہوئے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ولقد صرفنہ بینھم میں ہ ضمیر سے مراد بارش ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے : کوئی ایسا سال نہیں جو کسی سال کی بنسبت زیادہ بارش والا ہو لیکن اللہ تعالیٰ اسے جہاں چاہتا ہے پھیر دیتا ہے کسی علاقہ کے لوگوں پر بارش زیادہ ہورہی ہوتی ہے کسی علاقہ میں وہ کم ہو رہی ہوتی ہے۔ تصریف کا یہی معنی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : صرفنہ بینھم اسے وابل، طش، طل اور رہام کی صورت میں پھیر دیا۔ جو یری نے کہا : رہام سے مراد ہلکی بارش ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تصریف سے مراد اس کے ذریعے مختلف منافع دینا ہے جیسے پانی پینا، سیراب کرنا، اس کے ذریعے کاشت کرنا، پاکیزگی حاصل کرنا، باغوں کو سیراب کرنا، غسل کرنا وغیرہ۔ عکرمہ نے کہا : فابی اکثر الناس الا کفورا سے مراد ان کا ستاروں کے بارے میں یہ کہنا ہے : فلاں ستارے کی وجہ سے ہمارے اوپر بارش ہوئی۔ نحاس نے کہا : ہم مفسرین میں کوئی اختلاف نہیں پاتے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہاں کفر سے مراد ان کا یہ کہنا ہے : ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی، اس کی مثل، ان کا یہ قول ہے : فعل النجم کذا ستارے نے ایسا کیا۔ جو آدمی بھی ستارے کی طرف کسی فعل کو منسوب کرے تو وہ کافر ہے۔ حضرت ربیع بن صبیح نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک رات لوگوں پر بارش ہوئی جب صبح ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا :” اس میں لوگ دو حصوں میں بٹ گئے ہیں شکر گزار اور نا شکرے جہاں تک شکر گزار کا تعلق ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہے کہ اس نے اسے سیراب کیا اور اس پر بارش کی۔ جہاں تک کافر کا تعلق ہے تو وہ کہتا ہے : ہم پر فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش کی گئی “۔ اس کی صحت پر اتفاق ہے اور سورة واقعہ میں انشاء اللہ یہ روایت آئے گی۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے فرمایا : ما من سنۃ بامطر من اخری ولکن اذا عمل قوما بالمعاصی صرف اللہ ذلک الی الفیا فی والبحار کوئی سال دوسرے سال کی بنسبت زیادہ بارش والا نہیں ہوتا لیکن جب کوئی قوم نافرمانیاں کرتی ہے اللہ تعالیٰ اس بارش کو دوسروں کی طرف پھیر دیتا ہے جب سب لوگ نافرمانیاں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بارش کو جنگلوں اور سمندروں کی طرف پھیر دیتا ہے “۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے تصریف یہ ہوا کی طرح راجع ہے سورة بقرہ میں اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔ حمزہ اور کسائی نے لیذکروا تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے یہ ذکر سے مشتق ہے باقی قراء نے تذکر سے تثقیل کے ساتھ پڑھا ہے، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کریں اور یہ جان لیں کہ جو اس پر انعام کرے اس کے ساتھ شرک کرنا جائز نہیں تذکر، ذکر کے قریب ہے مگر تذکر کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جو دل سے دور ہو تو اسے تذکر میں تکلیف کی ضرورت ہوتی ہے۔
Top