Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 49
لِّنُحْیَِۧ بِهٖ بَلْدَةً مَّیْتًا وَّ نُسْقِیَهٗ مِمَّا خَلَقْنَاۤ اَنْعَامًا وَّ اَنَاسِیَّ كَثِیْرًا
لِّنُحْيِۦ بِهٖ : تاکہ ہم زندہ کردیں اس سے بَلْدَةً مَّيْتًا : شہر مردہ وَّنُسْقِيَهٗ : اور ہم پلائیں اسے مِمَّا : اس سے جو خَلَقْنَآ : ہم نے پیدا کیا اَنْعَامًا : چوپائے وَّاَنَاسِيَّ : اور آدمی كَثِيْرًا : بہت سے
تاکہ اس سے شہر مردہ (یعنی زمین افتادہ) کو زندہ کردیں اور پھر ہم اسے بہت سے چوپایوں اور آدمیوں کو جو ہم نے پیدا کیے ہیں پلاتے ہیں
( لنحی بہ بلدۃ۔۔۔۔۔۔ ) لنجی بہ، ہ ضمیر سے مراد بارش ہے۔ بلدۃ میتا وہ بستی خشک سالی اور نباتات کے نہ ہونے کی وجہ سے مردہ ہوچکی ہو۔ 1 ؎۔ سنن ابن دائود، باب الماء یا یجنب، حدیث نمبر 62، ابن ماجہ، باب الرخصۃ بفضل وضوء المراۃ، حدیث نمبر 363، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ 2 ؎۔ سنن ابن ماجہ، باب الوضو بسوزالھرۃ، حدیث نمبر 361، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ 3 ؎۔ سنن ابن ماجہ، باب النھی عن ذلک، حدیث نمبر 366، سنن ابی دائود، باب النھی عن ذلک، حدیث 75۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 59۔ 58، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ 4 ؎۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر 58، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ کعب نے کہا : بارش زمین کی روح ہے اللہ تعالیٰ اسے بارش کے ساتھ زندہ کرتا ہے۔ میتا فرمایا، میتہ نہیں فرمایا، کیونکہ بلدۃ اور بلد کا معنی ایک ہی ہے، یہ زجاج کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : بلد سے مراد مکان ہے۔ ونسقیہ، عام قرأت نون کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ ، اعمش اور عاصم جو مفضل نے ان دونوں سے قرأت نقل کی ہے وہ نسقیہ ہے اس میں نون مفتوح ہے۔ مما خلقنا انعاما وانا سی کثیرا بہت زیادہ انسان۔ اناسی کا واحد انسی ہے جس طرح قرقور کی جمع قراقیر اور قراقر ہے، یہ اخفش، مبرد اور فراء کا ایک قول ہے۔ اس کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کی واحد انسان ہے پھر نون کو یاء سے بدل دیا تو کہے گا : اناسی، اصل میں یہ اناسین تھا جس طرح سرحان اور سراحین اور بستان کی جمع بساتین ہے انہوں نے یاء کو نون کا عوض قرار دیا ہے، اسی وجہ س سراحی اور بساتی بھی جائز ہے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ فراء نے کہا : اناسی یاء کی تخفیف کے ساتھ جو فعل کے لام اور عین کلمہ کے درمیان ہے جس طرح قراقیر اور قراقر ہے۔ کثیرا فرمایا کثیرین نہیں فرمایا، کیونکہ فعیل سے بعض اوقات کثرت مراد نہیں ہوتی ہے جس طرح اس ارشاد میں ہے :” وحسن اولیک رفیقا۔ “ ( النسائ)
Top