Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 20
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ یَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ١ؕ وَ جَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً١ؕ اَتَصْبِرُوْنَ١ۚ وَ كَانَ رَبُّكَ بَصِیْرًا۠ ۧ
وَمَآ
: اور نہیں
اَرْسَلْنَا
: بھیجے ہم نے
قَبْلَكَ
: تم سے پہلے
مِنَ
: سے
الْمُرْسَلِيْنَ
: رسول (جمع)
اِلَّآ
: مگر
اِنَّهُمْ
: وہ یقیناً
لَيَاْكُلُوْنَ
: البتہ کھاتے تھے
الطَّعَامَ
: کھانا
وَيَمْشُوْنَ
: اور چلتے پھرتے تھے
فِي الْاَسْوَاقِ
: بازاروں میں
وَجَعَلْنَا
: اور ہم نے کیا (بنایا)
بَعْضَكُمْ
: تم میں سے بعض کو (کسی کو)
لِبَعْضٍ
: بعض (دوسروں کے لیے)
فِتْنَةً
: آزمائش
اَتَصْبِرُوْنَ
: کیا تم صبرو کرو گے
وَكَانَ
: اور ہے
رَبُّكَ
: تمہارا رب
بَصِيْرًا
: دیکھنے والا
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے ہیں سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تمہیں ایک دوسرے کے لئے آزمائش بنایا ہے کیا تم صبر کرو گے ؟ اور تمہارا پروردگار تو دیکھنے والا ہے
(وما ارسلنا۔۔۔۔۔۔۔
20
) مسئلہ نمبر
1
:۔ وما ارسلنک قبلک من المرسلین یہ مشرکوں کے جواب میں نازل ہوئی جب انہوں نے کہا : مال ھذا الرسول یا کل الطعام ومشئی فی الاسواق حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : جب مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کو فاقہ کی عار دلائی اور کہا : مال ھذا الرسول یا کل الطعام تو نبی کریم ﷺ غمگین ہوئے تو یہ آیت آپ ﷺ کو تسلی دینے کے لیے نازل ہوئی۔ حضرت جبریل امین نے عرض کی : السلام علیک یا رسول اللہ ﷺ ! اللہ جو تیرا رب ہے وہ تجھے سلام فرماتا ہے اور تجھے فرماتا ہے : وما ارسلنا قبلک من المرسلین الاانھم لیاکلون الطعام ویمشون فی الاسواق یعنی وہ بھی دنیا میں معاش تلاش کیا کرتے تھے۔ مسئلہ نمبر
2
:۔ انا انھم لیا کلون الطعام۔ جب خبر پر لام آگیا تو ان میں کسرہ ہی ہوگا اگر خبر پر لام نہ ہوتا تب بھی ان کے ہمزہ میں کسرہ کے سوا کوئی چیز جائز نہ ہوتی کیونکہ یہ جملہ مستائقہ ہے، یہ تمام نحویوں کا قول ہے۔ نحاس نے کہا : مگر علی بن سلیمان نے محمد بن زید سے یہ قول نقل کیا ہے ان کے ہمزہ میں فتحہ بھی جائز ہے اگرچہ خبر پر لام ہو۔ میں اسے اس سے وہم گمان کرتا ہوں۔ ابو اسحاق زجاج نے کہا : کلام میں حذف ہے اس کا معنی ہے وما ارسلنا قبلک رسلا انا انھم لیاکلون الصعام پھر رسلا کو حذف کردیا کیونکہ من المرسلین میں رسلا پر دلالت موجود ہے۔ زجاج کے نزدیک موصوف محذوف ہے اس کے نزدیک موصول کا حذف اور صلہ کو باقی رکھنا جائز نہیں، جس طرح فراء نے کہا۔ فراء نے کہا : محذوف من ہے معنی ہوگا الامن انھم لیاکلون الطعام اور اسے اس فرمان کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ وما منا الا لہ مقام معلوم (الصافات) اور اس فرمان کے ساتھ تشبیہ دی ہے “ وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُہَا ج “ (مریم :
71
) تقدیر کلام یہ ہوگی ما منکم الا من ھو واردعا، یہ کسائی کا بھی قول ہے۔ عرب کہتے ہیں : ما بعث الیک من الناس الا من انہ یعطیک میں نے تیری طرف لوگوں میں سے کسی کو نہیں بھیجا مگر اسے جو تجھے عطاء کرتا ہے۔ تیرا یہ قول : انہ لیعطیک، من کا صلہ ہے۔ زجاج نے کہا : یہ غلط ہے کیونکہ من موصولہ کا حذف جائز نہیں ہوتا۔ اہل معانی نے کہا : معنی ہے وما ارسلنک قبلک من المرسلین الا قبل انھم لیاکلون ہم نے آپ سے قبل رسولوں کو نہیں بھیجا مگر یہ کہا گیا کہ وہ کھانا کھاتے ہیں، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ما یقال لک الا ما قد قیل للرسل من قبلک (فصلت :
43
) ابن انباری نے کہا : الا کے ان بعد کو کسرہ دیا گیا ہے کیونکہ یہ جملہ مستانفہ ہے اور وائو مضمر ہے تقدیر کلام یہ ہوگی الا وانھم۔ ایک فرقہ اسی طرح گیا ہے کہ لیا کلون الصعام حدث سے کنایہ ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ اپنے معنی میں بلیغ ہے، اسی کی مثل یہ ارشاد ہے : ” مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُط وَاُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌط کَانَا یَاْکُلٰنِ الطَّعَامَ ط “ (المائدہ :
75
) ویسئون فی الاسواق جمہور نے یمشون یاء کے فتحہ، میم کے سکون اور شین کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عوف اور حضرت ابن مسعود ؓ نے یاء کے ضمہ، میم کے فتحہ اور شین کی شد مفتوحہ کے ساتھ پڑھا ہے معنی ہوگا انہیں بازار میں چلنے کی دعوت دی جاتی ہے اور برانگیختہ کیا جاتا ہے۔ ابو عبد الرحمن سلمی نے اسے یاء کے ضمہ، میم کے فتحہ اور شین مشدوہ مضمومہ کے ساتھ پڑھا ہے، یہ یمشون کے معنی میں ہے۔ شاعر نے کہا : امشی باعطان المباءہ وابتغی قلائص منھا صعبۃ ورکوب اس شعر میں مشی، مشی کے معنی میں ہے۔ کعب بن زہیر نے کہا : منہ تظل، سباع الجو ضامرۃ ولا تمشی بوادیہ الا راجیل اس شعر میں بھی تمشی، تشی کے معنی میں ہے۔ مسئلہ نمبر
3
:۔ یہ آیت اسباب کو حاصل کرنے، تجارت، صنعت وغیرہ کے ذریعے طلب معاش میں اصل ہے، یہ معنی کئی مقام پر گزر چکا ہے، لیکن ہم یہاں ان میں سے وہ چیزیں ذکر کریں گے جو کفایت کر جائیں گی۔ ہم کہتے ہیں : میرے سامنے اس زمانے کے ایک شیخ نے جری کلام کرتے ہوئے یہ کہا : انبیاء (علیہم السلام) کو اس لیے مبعوث کیا گیا تاکہ ضعفاء کے لیے اسباب کی سنتیں قائم کریں۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا : یہ قول جاہلوں، غبیوں اور بیوقوف چرواہوں سے صادر ہو سکتا ہے یا اس آدمی سے صادر ہو سکتا ہے جو کتاب اور اعلیٰ سنت پر طعن کرنا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اصفیاء، رسل اور انبیاء کے اسباب اور حرفوں کے بارے میں خبر دی ہے، اس کا ارشاد ہے اور اس کا قول حق ہے : ” وَعَلَّمْنٰـہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لَّکُمْ “ (الانبیائ :
80
) ارشاد فرمایا :” وما ارسلنا قبلک من المرسلین الا انھم لیا کلون الطعام ویستون فی الاسواق “ علماء نے کہا : وہ تجارت کرتے ہیں اور پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جعل رزق تحت ظل رمحی میرا رزق نیزے کے سائے میں رکھ دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰـلًا طَیِّبًا “ (الانفال :
69
) صحابہ کرام ؓ تجارت کرتے، حرفہ اختیار کرتے اور اپنے اموال میں محنت مزدوری کرتے، اور کفار میں سے جوان کی مخالفت کرتے ان کے ساتھ جنگ کرتے۔ کیا تم انہیں کمزور خیال کرتے ہو ؟ اللہ کی قسم ! وہ اقویاء تھے ان کے پیچھے صالح خلف ہیں جو ان کی اقتدا کرنے والے ہیں، ان کا اس میں طریقہ ہدایت دینے اور ہدایت لینے کا ہے۔ اس نے کہا : انہوں نے اس چیز کو اپنایا کیونکہ وہ اقتداء کے ائمہ تھے تو انہوں نے ضعفاء کے حق میں خود انہیں اپنایا جہاں تک اپنی ذات کے حق میں ہے تو یہ نہیں، اس کی وضاحت اصحاب صفہ میں موجود ہے۔ میں کہتا ہوں : اگر یہ اس طرح ہوتا تو ان پر اور ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ پر واجب ہوتا کہ اس کی وضاحت کریں جس طرح قرآن میں ثابت ہے :” وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ “ (النحل :
44
) ارشاد فرمایا : اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْہُدٰی “ (البقرہ :
159
) یہ بنیات وبدی میں سے ہے، جہاں تک اصحاب صفہ کا تعلق ہے وہ تنگ حالی کے وقت اسلام کے مہمان تھے۔ نبی کریم ﷺ کے پاس جب کبھی صدقہ کا مال آتا تو آپ اس صدقہ میں انہیں خاص کرتے، جب کوئی ہدیہ آتا تو انکے ساتھ بیٹھ کر اس ہدیہ کو تناول فرماتے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایندھن لاتے اور رسول اللہ ﷺ کے گھر والوں کے لیے پانی لاتے۔ امام بخاری اور دوسرے علماء نے ان کے یہی اوصاف ذکر کیے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے ان پر شہروں کو کھول دیا اور علاقے فتح کردیئے تو انہیں امیر بنا دیا گیا اور اسباب کا حکم دیا گیا۔ پھر یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کمزور تھے کیونکہ فرشتوں کے ذریعے ان کی تائید کی گئی اور انہیں ثابت قدم کیا گیا، اگر وہ قوی ہوتے تو انہیں فرشتوں کی تائید کی ضرورت نہ ہوتی جب کہ ان کی تائید کامیابی کے اسباب میں سے ایک سبب تھا۔ ہم ایسے قول اور ایسی گفتگو جو اس تاویل کی طرف لے جائے، اسے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں بلکہ اسباب اور وسائط سے فائدہ اٹھاتا اللہ کا حکم اور طریقہ ہے اور اس کے رسول کا حکم اور طریقہ ہے یہی حق مبین ہے اور صراط مستقیم ہے جس پر مسلمانوں کا اجماع ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا فرمان حق :” وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ “ (الانفال :
60
) ضعفاء پر محدود رہے گا اور تمام خطابات اسی طرح ہوں گے۔ قرآن حکیم میں ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خطاب فرمایا :” اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ ط “ (الشعرا :
63
) اللہ تعالیٰ عصا مارے بغیر بھی سمندر کو پھاڑ سکتا تھا، اسی طرح حضرت مریم (علیہ السلام) کو خطاب ہے :” وَ ھُزِّٓیْ اِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ “ ( مریم :
25
) جب کہ اللہ تعالیٰ ان کو یہ حکم دینے کے بغیر بھی کھجوریں گرانے پر قادر تھا، اس میں حضرت مریم ( علیہ السلام) کو کھجور کا تنا ہلانے اور اس مشقت کی کوئی ضرورت نہ تھی، اس سب کے باوجودہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ کوئی ایسا آدمی ہو جس پر مہربانی کی جاتی ہو، اس کی مدد کی جاتی ہو، اس کی دعا قبول کی جاتی ہو یا خاص طور پر اسے کرامت سے نوازا جاتا ہو یا کسی اور وجہ سے ایسا ہو اس وجہ سے قواعد کلیہ اور امور جمیلہ کو ختم نہیں کیا جائے گا۔ ایسی بات کہنے سے دور ہوجا، دور ہوجا، ایسی بات نہ کی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ” و فی السماء رزقکم وما توعدون “ (الذریات) ہم کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول کریم نے سچ فرمایا۔ علماء تاویل کے اجماع کے مطابق یہاں رزق سے مراد بارش ہے، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :” وَیُنَزِّلُ لَکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ رِزْقًا ط “ (غافر :
13
) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآئِ مَآئً مُّبٰـرَکًا فَاَنْبَتْنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیْدِ ۔ “ (ق :
9
) یہ مشاہدہ نہیں کیا گیا کہ مخلوق پر آسمان سے روٹیوں کے طبق اور گوشت کے پیالے نازل ہوں بلکہ اس کے باوجود میں اسباب اصل ہیں اسی معنی میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : اطلبوا الرزق فی خبایا الارض مراد ہے تم زمین میں ہلا چلانے، اسے کھودنے ( گوڈی کرنے) اور درخت لگانے کے ذریعے رزق تلاش کرو، بعض اوقات کسی شی کا نام انجام اور عاقبت کے اعتبار سے رکھا جاتا ہے بارش کو رزق لان یا خذاحد کم حیلہ فیحتطب علی ظھرہ خیرلہ من ان یسال احد اعطاہ او منعہ تم میں سے کوئی اپنی رسی لے اور اپنی پشت پر لکڑیوں کا گھٹا اٹھائے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے چاہے وہ اسے دے یا اس کا سوال رد کر دے، یہ حکم اس کے بارے میں بھی ہے جو بغیر مشقت کے کام ہوجاتا ہے خواہ وہ گھاس ہو یا لکڑیاں ہوں۔ اگر کسی کے لیے پہاڑوں میں رہنا مقدر کردیا جائے جب کہ وہ لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہو تو اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوگا کہ وہ ان چیزوں کے لیے نکلے جو ٹیلے اور پہاڑوں کی چوٹیاں اگاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ان سے ایسی چیزیں حاصل کرے جن کے ساتھ وہ زندگی بسر کرسکے۔ نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا یہی معنی ہے : لو انکم کنتم توکلون علی اللہ حق توکلہ لرزقتم کما ترزق الطیر تغد و خماصا و تروح بطانا اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں بھی اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے تم خالی پیٹ صبح نکلو گے اور بھرے پیٹ شام کو واپس لوٹو گے۔ اس کا صبح جانا اور شام کو لوٹنا یہی سبب ہے، اس آدمی پر بہت زیادہ تعجب ہے جو اسباب سے لاتعلقی اور یقین تو کل دعویٰ کرتا ہے وہ راستہ کی پگڈنڈیوں میں جا بیٹھتا ہے صراط مستقیم اور واضح راستہ کو چھوڑ دیتا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عباس ؓ سے یہ روایت ثابت ہے کہ اہل یمن حج کیا کرتے تھے اور زاد راہ نہ لیتے اور وہ کہتے : ہم توکل کرتے ہیں، جب وہ آتے لوگوں سے سوال کرتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کیا :” وتزودوا “ (البقرہ :
197
) نبی کریم ﷺ اور آپ صحابہ کے بارے میں یہ منقول نہیں کہ وہ زاد راہ کے بغیر سفر پر نکلے ہوں جب کہ وہ یقین طور پر توکل کرنے والے تھے۔ توکل کا معنی یہ ہے دل کا رب العالمین پر یہ اعتماد ہو کہ وہ اس کے بکھرے امر کو جمع کردے گا اور اس کی ضروریات پوری فرما دے گا پھر وہ امر کی بناء پر اسباب کو کام میں لائے، یہی حق ہے۔ ایک آدمی نے امام احمد بن حنبل سے سوال کیا، عرض کی : میں توکل کے قدم پر حج کا ارادہ رکھتا ہوں۔ فرمایا : تنہا نکلو۔ اس نے کہا : نہیں مگر لوگوں کے ساتھ۔ امام احمد بن حنبل نے کہا : پھر تو تو ان کی تھیلوں پر توکل کرنے والاہو گا۔ ہم نے اسے کتاب قمع الحرص بالذھد والقناعۃ وردذل السواں بالکسب والصناعۃ میں ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
4
:۔ امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : احب البلاد الی اللہ مساجد ھاوابغض البلاد الی اللہ آسواقھا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے محبوب جگہیں مساجد ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے ناپسندیدہ جگہیں بازار ہیں۔ بزار نے حضرت سلیمان فارسی سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اگر تو طاقت رکھے تو تو پہلا شخص نہ ہو جو بازار میں داخل ہوتا ہے اور تو آخری شخص نہ ہو جو اس سے نکلتا ہے کیونکہ یہ شیطان کا معرکہ ہے وہاں ہی اس کے جھنڈے گاڑے جاتے ہیں “۔ ابوبکر برقانی نے مسند طریقہ سے ابو محمد عبد الغنی بد سعید حافظ سے ( عاصم کی روایت سے) وہ ابو عثمان نہدی سے وہ حضرت سلیمان فارسی ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تو بازار میں داخل ہونے والا پہلا شخص نہ ہو اور اس سے نکلنے والا آخری شخص نہ ہو، یہاں شیطان نے انڈے دیئے اور بچے نکالے “۔ ان احادیث میں ایسے دلائل ہیں جو بازاروں میں داخل ہونے کی کراہت پر دال ہیں، خصوصاً اس زمانہ میں جس میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے، ہمارے علماء نے اسی طرح کہا ہے۔ جب بازاروں میں باطل بہت زیادہ ہوگئے ہیں اور منکرات عام ہوگئے ہیں ارباب فضل اور دین کے امور میں جن کی اقتدا کی جاتی ہے ان کے لیے بازار میں داخل ہونا مکروہ ہے تاکہ انہیں ایسی جگہوں سے دور رکھا جائے جہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے۔ جس آدمی کو اللہ تعالیٰ بازار میں جانے کے ساتھ آزمائے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے دل میں یہ خیال لائے کہ وہ شیطان کے محل اور اس کے لشکروں کی جگہ میں داخل ہوچکا ہے اور یہ خیال لائے کہ اگر وہ ٹھہرا رہا تو ہلاک ہوجائے گا جس کی حالت یہ ہو تو وہ صرف ضرورت تک وہیں رہے اور اس کے برے انجام سے بچے۔ مسئلہ نمبر
5
:۔ نبی کریم ﷺ کا بازار کو معرکہ سے تشبیہ دینا بہت اچھی تشبیہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ معرکہ قتال کی جگہ ہے، اسے یہ تام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ اس میں بڑے بڑے جوانمرد معرکہ آراء ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو پچھاڑتے ہیں۔ بازار، اس میں شیطان کے فعل، شیطان ان بازار والوں سے جو حصہ پاتا ہے اس طریقہ پر کہ بازار والوں کے مکر، دھوکہ، بیوع فاسدہ میں تساہل، جھوٹ، جھوٹی قسموں پر ابھارنے، آوازوں کے خلط ملط ہونے اور اس کے علاوہ دوسری چیزیں ان سب کو جنگ کے معرکہ اور اس میں جن کو پچھاڑا جاتا ہے کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ مسئلہ نمبر
6
:۔ ابن عربی نے کہا : کھانا کھانا یہ مخلوق کی ضرورت ہے اس میں کوئی عار نہیں اور نہ اس میں کوئی عیب ہے، جہاں تک بازاروں کا تعلق ہے تو میں نے اہل علم کے مشائخ سے سنا ہے وہ فرماتے ہیں : وہ کتابوں اور اسلحہ کے بازار کے علاوہ میں داخل نہ ہو۔ میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ ضرورت کے وقت ہر بازار میں داخل ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی چیز نہ کھائے کیونکہ یہ عمل مروت کو ختم کرتا ہے اور وحشت کو گرا دیتا ہے۔ احادیث موضوعہ (
1
) میں ہے : بازار میں کھانا کمینگی ہے۔ میں کہتا ہوں : اہل علم مشائخ نے جو کہا ہے وہ کتنا اچھا ہے کیونکہ اس میں عورتوں کو دیکھنے اور ان کے ساتھ مخالطت سے بچائو ہوتا ہے کیونکہ ان بازاروں میں انہیں حاجت نہیں ہوتی جہاں کتابوں اور اسلحہ کے با زاروں کے علاوہ بازار ہیں وہ عورتوں سے بھرے ہوتے ہیں اور حیاء کی کمی ان پر غالب آچکی ہے، یہاں تک کہ عورتوں کو اپنی زینتوں میں عیاں دیکھا جاتا ہے ہمارے زمانہ میں یہ برائی عام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ہم اس کی پناہ مانگتے ہیں۔ مسئلہ نمبر
7
:۔ ابو دائود طیالسی نے اپنی مسند میں حماد بن زید سے روایت نقل کی ہے وہ عمرو بن دینار قہر مان آل زبیر سے وہ سالم سے وہ اپنے باپ سے وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ جو آدمی ان بازاروں میں سے کسی بازار میں داخل ہو اس نے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحییٰ ویمیت وھو حی لا یموت بیدہ الخیر وھو علی کلی شئی قدیر پڑھا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھ دیتا ہے اور دس لاکھ برائیاں مٹا دیتا ہے اور جنت میں اس کے لیے محل بنا دیتا ہے۔ امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور آخر میں کچھ اضافہ کیا ہے : اس سے دس لاکھ برائیاں مٹا دیتا ہے اور دس لکھ درجے بلند کردیتا ہے اور جنت میں اس کے لیے گھر بنا دیتا ہے۔ کہا : یہ حدیث غریب ہے۔ ابن عربی نے کہا : یہ اس صورت میں ہوگا جب اس نے اس جگہ اس کے سوا کا قصد نہ کیا ہو کہ وہ طاعت کے ساتھ اس جگہ کو آباد کرے کیونکہ اسے معصیت کے ساتھ آباد کیا جاتا ہے، اسے ذکر کے ساتھ آراستہ کرے کیونکہ غفلت کے ساتھ اسے معطل کردیا گیا ہے تاکہ وہ جاہلوں کو علم سکھائے اور بھولنے والوں کو یاد دلائے۔ مسئلہ نمبر
8
۔ وجعلنا بعضکم بعض فتنۃ اتصبرون بیشک دنیا دار انبلاء اور دارالامتحان ہے اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ بعض بندوں کو بعض بندوں کے لیے آزمائش بنا دے یہ تمام لوگوں میں ہے وہ مومن ہو یا کافر ہو، صحیح، مریض کے لیے آزمائش ہے، غنی، فقیر کے لیے فتنہ ہے، صابر فقیر، غنی کے لیے فتنہ ہے۔ (
2
) اس کا معنی یہ ہے کہ ہر ایک کو اپنے ساتھی کے (
1
؎۔ اس حدیث کو طبرانی نے حضرت امامہ سے منسوب۔۔۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے اور سیوطی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ ) (
2
؎۔ التحریر الوبیز) ۔ ساتھ آزمایا گیا ہے اس پر لازم ہے کہ اس سے حسد نہ کرے اور اس سے نہ لے مگر وہ جو اسے عطا کرے اور ہر ایک حق پر صابر رہے جس طرح ضحاک نے اتصبرون کا معنی کرتے ہوئے کہا : دیا تم حق پر صبر نہیں کرتے “۔ مصیبت زدہ لوگ کہتے ہیں : ہم کو عافیت اور سلامتی کیوں نہیں دی جاتی ؟۔ اندھا کہتا ہے : مجھے بینا کیوں نہیں بنایا گیا ؟ اسی طرح ہر آفت زدہ آدمی کہتا ہے : رسول جسے نبوت کی کرامت کے ساتھ نوازا گیا ہے یہ اس کے زمانہ کے کفار کے اشراف کے لیے فتنہ ہوتا ہے، اسی طرح علماء اور عادل حکام ہیں۔ کیا تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں غور فکر نہیں کرتا ” لَوْ لَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ ۔ “ (الزخرف :
31
) فتنہ یہ ہے کہ مصیبت زدہ، عافیت والے سے حسد کرے اور عافیت والا مصیبت زدہ کو حقیر جانے، صبر یہ ہے کہ دونوں میں سے ہر ایک اپنے نفس کو روکے، یہ تکبیر سے اور وہ دل کی تنگی سے۔ اتصبرون اس کا جواب مخدوف ہے یعنی امر لا تصبرون یہ جواب کا مقتضی ہے جس طرح مزنی نے کہا : اسے فاقہ نے گھر سے نکالا اس نے مراکب اور مناکب میں ایک خصی کو دیکھا اس کے دل میں خیال آیا تو اس نے آدمی کو آیت پڑھتے ہوئے سنا : اتصبرون اس نے کہا : کیوں نہیں اے ہمارے رب ! ہم صبر کریں گے اور اجر کی امید رکھیں گے۔ ابن قاسم جو امام مالک کے شاگرد تھے انہوں نے اس آیت کو پڑھا جب انہوں نے اشہب بن عبد العزیز کو اس کی مملکت میں ان پر گزرتے ہوئے دیکھا پھر اپنے نفس کو اس قول کے ساتھ جواب دیا : سنصبر، کم صبر کریں گے۔ حضرت ابو درداء ؓ سے مروی ہے انہوں نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :’ ’ عالم کے لیے جاہل کی ہلاکت ہے، جاہل کے لیے عالم کی ہلاکت ہے، مالک کے لیے مملوک کی ہلاکت ہے، سلطان کے لیے رعیت کی ہلاکت ہے اور رعیت کے لیے سلطان کی ہلاکت ہے ہر ایک دوسرے کے لیے فتنہ ہے، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے یہی مراد ہے : ” وجعلنا بعضکم لبعض فتنۃ اتبصرون “ ثعلبی نے اسے مسند ذکر کیا ہے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔ مقاتل نے کہا : یہ آیت ابو جہل بن ہشام، ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، عقبہ بن ابی معیط، عتبہ بن ربیعہ اور نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے حضرت ابو ذر، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عمار، حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عامر فن فہیرہ، حضرت سالم جو حضرت ابو حذیفہ کے غلام تھے، حضرت مجمع جو حضرت عمر بن خطاب کے غلام تھے اور حضرت جبر جو حضرت حضری کے غلام تھے اور ان جیسے اصحاب کو دیکھا تو استہزار کے انداز میں کہا : کیا ہم اسلام قبول کریں اور ان لوگوں کی مثل ہوجائیں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان مؤمنوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا : ” اتبصرون “ کیا تم یہ سخت حالت اور فقر کو دیکھتے ہوئے اس پر صبر کرتے ہو ؟ اتبصرون یہ حضرت محمد ﷺ کی امت کے ان افراد کے ساتھ خاص ہے جو حق پر قائم تھے، گویا کفار کو مہلت اور ان پر رزق کی فراوانی یہ مومنوں کے لیے آزمائش تھی، جب مسلمانوں نے صبر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا :” اِنِّیْ جَزَیْتُہُمُ الْیَوْمَ بِمَاصَبَرُوْٓا “ (المومنون :
111
) مسئلہ نمبر
9
:۔ ” وکان ربک بصیرا “ ہر انسان کو دیکھنے والا ہے وہ صبر کرے یا جزح و فزع کرے جو ایمان لائے یا ایمان نہ لائے اور جو اپنے قرض کو ادا کرے یا ادا نہ کرے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اتبصرون کا معنی ہے تم صبر کرو، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” فھل انتم منتھون۔ “ (المائدہ) یعنی تم رک جائو، یہ نبی کریم ﷺ کو صبر کا حکم ہے۔
Top