Al-Qurtubi - Al-Baqara : 72
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِیْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ
وَاِذْ قَتَلْتُمْ : اور جب تم نے قتل کیا نَفْسًا : ایک آدمی فَادَّارَأْتُمْ : پھر تم جھگڑنے لگے فِیْهَا : اس میں وَاللّٰہُ : اور اللہ مُخْرِجٌ : ظاہر کرنے والا مَا كُنْتُمْ : جو تم تھے تَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا اور پھر اس میں باہم جھگڑنے لگے لیکن جو بات تم چھپا رہے تھے خدا اس کو ظاہر کرنے والا تھا
آیت نمبر 72 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذ قتلتم نفسًا فادرءتم یہ کلام قصہ کی ابتدا پر مقدم ہے۔ تقدیر کلام اس طرح ہے : واذ قتلتم نفساً فادرأتم فیھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ تمہیں اس طرح کا حکم دیتا ہے، یہ اس ارشاد کی طرف ہے الحمد للہ الذی انزل علیٰ عبدہ الکتب ولم یجعل لہ عوجاً ۔ (الکہف) اس کی تقدیر اس طرح ہے : انزل علی عبدہ الکتاب قیماً ولم یجعل لہ عوجا۔ اس کی مثالیں بہت سی ہیں جو ہم نے قصہ کے آغاز میں بیان کردی ہیں۔ اس شخص کے قتل کے سبب کے متعلق دو قول ہیں : پہلا قول یہ ہے کہ اس شخص کی ایک خوبصورت بیٹی تھی۔ اس نے پسند کیا کہ اس کے چچا کا بیٹا اس سے نکاح کرے لیکن چچا نے اسے منع کیا۔ پس اس نے اسے قتل کردیا اور پھر اپنے شہر سے اٹھا کر دوسرے شہر میں پھینک دیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس نے میراث طلب کرنے کی خاطر اسے قتل کیا۔ وہ فقیر تھا اس نے کسی خاندان پر اس کے قتل کا دعویٰ کردیا۔ عکرمہ نے کہا : بنی اسرائیل کی ایک مسجد تھی اس کے بارہ دروازہ تھے۔ ہر دروازہ ایک قوم کے لئے تھا۔ وہ اس سے داخل ہوتے تھے۔ پس انہوں نے ایک خاندان میں ایک مقتول پایا، ہر قوم نے دوسری قوم پر دعویٰ کیا پھر وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جھگڑتے ہوئے آئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃً (البقرہ :67) ادارأتم کا معنی ہے : تم نے اختلاف کیا اور جھگڑا کیا۔ یہ مجاہد کا قول ہے (1) ۔ تدارًتم اس کی اصل ہے تا کو دال میں ادغام کیا گیا، مدغم کے ساتھ ابتدا کرنا جائز نہیں کیونکہ وہ ساکن ہوتا ہے اس لئے الف زیادہ کیا گیا۔۔۔۔ واللہ مخرجٌ۔ یہ مبتدا خبر ہیں۔ ما کنتم یہ مخرجٌ کی وجہ سے منصوب ہے۔ اضافت کی وجہ سے تنوین کا حذف کرنا بھی جائز ہے۔ تکتمون یہ کان کی کبر کی جگہ ہے اس میں عائد محذوف ہے تقدیر کلام اس طرح ہے : تکتمونہ۔ اس قول کی بنا پر کہ اس نے میراث کی خاطر قتل کیا تھا تو اس وقت جان بوجھ کر قتل کرنے والا وارث نہیں ہوتا تھا۔ یہ عبیدہ سمانی نے روایت کیا ہے (2) ۔ حضرت ابن عباس نے کہا : اس شخص نے اپنے چچا کو میراث کی خاطر قتل کیا تھا (3) ۔ ابن عطیہ نے کہا : ہماری شریعت میں بھی اسی طرح ہے۔ امام مالک نے مؤطا میں بیان کیا ہے کہ احیحہ بن الجلاح کا واقعہ اس کے چچا کے بارے میں یہی قاتل کے وارث نہ ہونے کا سبب بنا تھا۔ پھر اسلام میں یہ قانون ثابت رہا جس طرح بہت سی چیزیں زمانہ جاہلیت کی ثابت رہیں (4) ۔ اس میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں کہ جان بوجھ کر قتل کرنے والا دیت اور میراث کا وارث نہ ہوگا مگر ایک فرقہ جمہور سے جدا ہوا وہ سب بدعتی ہیں۔ اور خطا قتل کرنے والا دوسری میراث سے وارث ہوگا، دیت سے وارث نہ ہوگا۔ یہ امام مالک، اوزاعی، ابو ثور اور امام شافعی کا قول ہے کیونکہ ایسے شخص پر تہمت نہیں ہوتی کہ اس کو میراث کے لئے قتل کیا ہے اور مال لینے کے لئے قتل کیا ہے۔ سفیان ثوری، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا : امام شافعی کا بھی دوسرا قول یہی ہے عمداً اور خطا قتل کرنے والا نہ مال سے وارث ہوگا نہ دیت سے وارث ہوگا۔ یہی قول شریح، طاؤس، شعبی اور نخعی کا ہے۔ شعبی نے حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت زید ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : جان بوجھ کر قتل کرنے والا اور خطاً قتل کرنے والا کسی چیز کا وارث نہ ہوگا۔ مجاہد سے دونوں قول مروی ہیں۔ بصریوں کے ایک طائفہ نے کہا : قتل خطا میں دیت اور باقی مال دونوں سے وارث ہوگا۔ یہ ابو عمر نے حکایت کیا ہے۔ امام مالک کا قول اصح ہے جیسا کہ آیۃ المواریث میں اس کا بیان آئے۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔
Top