Al-Qurtubi - Al-Baqara : 263
قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَةٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ یَّتْبَعُهَاۤ اَذًى١ؕ وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ
قَوْلٌ : بات مَّعْرُوْفٌ : اچھی وَّمَغْفِرَةٌ : اور در گزر خَيْرٌ : بہتر مِّنْ : سے صَدَقَةٍ : خیرات يَّتْبَعُهَآ : اس کے بعد ہو اَذًى : ایذا دینا (ستانا) وَاللّٰهُ : اور اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز حَلِيْمٌ : برد بار
جس خیرات دینے کے بعد (لینے والے کو) ایذا دی جائے اس سے تو نرم بات کہہ دینی اور (اس کی بےادبی ہے) درگزر کرنا بہتر ہے اور خدا بےپرواہ اور بردبار ہے
آیت : نمبر 263۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ (آیت) ” قول معروف “۔ یہ مبتدا ہے اور اس کی خبر محذوف ہے، یعنی قول معروف اولی وامثل (اچھی بات کرنا اولی اور عمدہ ہے) اس کا ذکر نحاس اور مہدوی نے کیا ہے، نحاس نے کہا ہے : یہ بھی جائز ہے کہ (آیت) ” قول معروف “۔ خبر ہو اور مبتدا محذوف ہو۔ یعنی الذین امرتم بہ قول معروف “۔ (وہ جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے وہ اچھی بات کرنا ہے) اور قول معروف سے مراد دعا کرنا، انس اور غمخواری کا اظہار کرنا اور جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس کی آرزو کرنا ہے، یہ صدقہ سے بہتر ہے، کیونکہ یہ ظاہر میں صدقہ ہے اور اپنے باطن میں کوئی شی نہیں ہے اور قول معروف کے ذکر میں اجر ہے اور ایسے صدقہ میں کوئی اجر نہیں ہے۔ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” پاکیزہ کلمہ صدقہ ہے۔ (1) (صحیح بخاری، باب من اخذ بالرکاب، حدیث نمبر 2767، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور بلاشبہ تیرا اپنے بھائی کو خندہ پیشانی سے ملنا بھی نیکی میں سے ہے۔ “ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ پس چاہیے کہ آدمی سائل کو خوشی سے اور مرحبا کہتے ہوئے ملے اور کشادہ روئی اور انتہائی قرب اور فرحت کے ساتھ اس کا سامنا کرے، تاکہ وہ مشکور ہوا اگر کچھ عطا کرے اور معذور ہو اگر کچھ نہ دے اور بعض حکماء نے کہا ہے : تو حاجتمند کے ساتھ خندہ پیشانی اور خوش روئی سے ملاقات کر، پس اگر تو اس کے شکر سے محروم رہا تو اس کے عذر سے محروم نہ رہے۔ اور ابن لنکک نے کہا ہے کہ ابوبکر بن ورید نے ایک حاجت کے بارے میں کسی وزیر کا قصیدہ لکھا جس نے اسے پورا نہ کیا اور اس کے لئے اس کی جانب سے تنگی کا اظہار ہوا تو اس نے کہا : لا تدخلنک ضجرۃ من سائل فلخیر دھرک ان تری مسئولا : کسی سائل سے کوئی تنگی تجھ میں نہ آئے پائے پس تیرے زمانے کی خیر اور بھلائی اس میں ہے کہ تیرے سامنے دست سوال دراز کیا جاتا رہے۔ لا تجبھن بالرد وجہ مؤمل فبقاء عزک ان تری مامولا “۔ تو کسی آرزو مند کی حاجت لوٹا کر اس کے چہرے پر نہ مار۔ پس تیری عزت کی بقا اس میں ہے کہ تجھ سے آرزو اور امید وابستہ کی جاتی رہے۔ تلقی الکریم فتستدل ببشرہ وتری العبوس علی اللئیم دلیلا : تو کسی کریم اور سخی سے ملے تو تیرے لئے اس کی دلیل اس کی خندہ پیشانی ہے اور لئیم کی دلیل اس کے چہرے کی یبوست اور تیوری چڑھانا ہے۔ واعلم بانک عن قلیل صائر خبرا فکن خبرا یروق جمیلا : تو اس کے بارے میں جان کہ تو قلیل کی طرف سے خبر دینے والا ہے، پس تو ایسی خبر بن جا جو حسن و جمال کے اعتبار سے خوش کرنے والی ہو۔ اور حضرت عمر ؓ سے حدیث مروی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جب سائل سوال کرے تو تم اس پر اس کا سوال کاٹ نہ دو یہاں تک کہ وہ اس سے فارغ ہوجائے، پھر بڑے وقار اور نرمی کے ساتھ یا تھوڑے سے بدل کے ساتھ یا حسین انداز کے ساتھ اس پر جواب لوٹاؤ، تحقیق تمہارے پاس وہ آتے ہیں جو نہ انسانوں میں سے ہیں اور نہ جنات میں سے ہیں وہ اس بارے میں تمہارے احسانات کو دیکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمائے ہیں۔ “ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس کی دلیل ابرص (برص کا مریض) اقرع (گنجا) اور اعمی (اندھا) والی حدیث ہے (1) (صحیح بخاری، باب ما ذکر عن بی اسرائیل، حدیث نمبر 3205، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے مسلم وغیرہ نے بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک فرشتے نے مختلف صورتیں اختیار کیں ایک بار برص کے مریض کی، دوسری بار گنجے آدمی کی اور تیسری بار اندھے آدمی کی مسئول (جس سے سوال کیا جائے) کا امتحان لینے کے لئے۔ اور حضرت بشر بن حارث نے کہا ہے : میں نے حضرت علی ؓ کو خواب میں دیکھا اور عرض کی : اے امیر المؤمنین ! مجھے کوئی ایسی شے بتائیے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ مجھے نفع عطا فرمائے تو انہوں نے فرمایا : اغنیاء کا فقراء پر اللہ تعالیٰ سے ثواب کی رغبت اور آرزو رکھتے ہوئے لطف ومہربانی کرنا بہت اچھا ہے اور اس سے اچھا فقراء کا اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر اعتماد اور یقین کرتے ہوئے اغنیاء پر سرگشتہ پھرنا ہے، پھر میں نے کہا : اے امیر المؤمنین کچھ اضافہ فرمائیے تو آپ نے پیٹھ پھیری اور آپ یہ کہنے لگے : قد کنت میتا فصرت حبا وعن قلیل تصیر میتا۔ تحقیق تو مردہ تھا اور تو زندہ ہوگیا اور پھر قلیل کے سبب تو مردہ ہوجائے گا فاخرب بدار الفناء بیتا وابن بدار البقاء بیتا : پس تو دارالفنا (دنیا) میں گھر گرا دے اور دارالبقاء (آخرت) میں گھر بنالے۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ (آیت) ” ومغفرۃ، یہاں مغفرت سے مراد محتاج کی بری حالت اور خصلت کو چھپانا ہے۔ اور ایس سے اعرابنی کا قول ہے۔ تحقیق اس نے فصیح کلام کے ساتھ ایک قوم سے سوال کیا تو کہنے والے نے اسے کہا تو کس (خاندان کا) آدمی ہے ؟ تو اس نے اسے کہا : اللہ تعالیٰ مغفرت کرے، بری کمائی نسب ظاہر کرنے سے مانع ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی ہے : سائل کا معاف کردینا جب وہ اصرار کرے، اکھڑ پن اور خشکی کا مظاہرہ کرے اس پر ایسا صدقہ کرنے سے بہتر ہے جس کے ساتھ وہ احسان جتلائے اور اسے دکھ پہنچائے۔ نقاش نے یہ معنی بیان کیا ہے، نحاس نے کہا ہے : یہ مشکل ہے اعراب (ترکیب) اس کی وضاحت کرے گا۔ (آیت) ” ومغفرۃ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور اس کی خبر (آیت) ” خیر من صدقۃ “ ہے اور معنی اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، اور وہ فعل جو مغفرت تک پہنچا دیتا ہے وہ اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ پہنچانا ہو۔ اور عربی میں تقدیر عبارت یہ ہے : وفعل مغفرۃ “ یہ بھی جائز ہے کہ یہ تیرے اس قول کی مثل ہو۔ تفضل اللہ علیک اکبر من الصدقۃ التی تمن بھا (تجھ پر اللہ تعالیٰ کا فضل اس صدقہ سے بڑا ہے جس کے ساتھ تو احسان جتلاتا ہے) یعنی اللہ تعالیٰ کی مغفرت تمہارے اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے ساتھ تم احسان جتلاتے ہو (ای غفران اللہ خیر من صدقتکم ھذہ التی تمنون بھا) مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ (آیت) ” واللہ غنی حلیم “۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے غنائے مطلق کی خبر دی ہے کہ وہ بندوں کے صدقہ سے مستغنی ہے اور اس کا حکم صرف اس لئے دیا ہے تاکہ وہ انہیں ثواب عطا کرے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حلم کے بارے خبر دی ہے کہ وہ اسے سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا جو احسان جتلائے اپنے صدقہ کے ساتھ اور دکھ پہنچائے۔
Top