Al-Qurtubi - Al-Baqara : 237
وَ اِنْ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ وَ قَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِیْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّاۤ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِهٖ عُقْدَةُ النِّكَاحِ١ؕ وَ اَنْ تَعْفُوْۤا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى١ؕ وَ لَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَاِنْ : اور اگر طَلَّقْتُمُوْھُنَّ : تم انہیں طلاق دو مِنْ قَبْلِ : پہلے اَنْ : کہ تَمَسُّوْھُنَّ : انہیں ہاتھ لگاؤ وَقَدْ فَرَضْتُمْ : اور تم مقرر کرچکے ہو لَھُنَّ : ان کے لیے فَرِيْضَةً : مہر فَنِصْفُ : تو نصف مَا : جو فَرَضْتُمْ : تم نے مقرر کیا اِلَّآ : سوائے اَنْ : یہ کہ يَّعْفُوْنَ : وہ معاف کردیں اَوْ : یا يَعْفُوَا : معاف کردے الَّذِيْ : وہ جو بِيَدِهٖ : اس کے ہاتھ میں عُقْدَةُ النِّكَاحِ : نکاح کی گرہ وَ : اور اَنْ : اگر تَعْفُوْٓا : تم معاف کردو اَقْرَبُ : زیادہ قریب لِلتَّقْوٰى : پرہیزگاری کے وَلَا تَنْسَوُا : اور نہ بھولو الْفَضْلَ : احسان کرنا بَيْنَكُمْ : باہم اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو لیکن مہر مقرر کرچکے ہو تو آدھا مہر دینا ہوگا ہاں اگر عورتیں مہر بخش دیں یا مرد جن کے ہاتھ میں عقد نکاح ہے (اپنا حق) چھوڑ دیں (اور پورا مہر دے دیں تو ان کو اختیار ہے) اور اگر تم مرد لوگ ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیزگاری کی بات ہے اور آپس میں بھلائی کرنے کو فراموش نہ کرنا کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے
آیت نمبر : 237۔ اس میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) لوگوں نے اس آیت میں اختلاف کیا ہے، پس ایک جماعت نے کہا ہے، اس میں سے امام مالک (رح) وغیرہ ہیں کہ یہ مہر مقر مقرر ہونے کے بعد متعہ کے حکم سے مطلقہ کو نکالنے والی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اسے شامل ہے (آیت) ” ومتعوھن “ اور حضرت ابن مسیب ؓ نے کہا ہے : اس آیت کو سورة الاحزاب کی آیت نے منسوخ کردیا ہے، کیونکہ وہ ہر حس مطلقہ کے متعہ کو متضمن ہے جس کے ساتھ دخول نہیں ہوا اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : اس آیت نے اپنے سے پہلی آیت کو منسوخ کیا ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 320 دارالکتب العلمیہ) میں (مفسر) کہتا ہوں : حضرت سعید ؓ اور حضرت قتادہ ؓ کا قول محل نظر ہے کیونکہ نسخ کی شروط موجود نہیں ہیں اور انہیں جمع کرنا ممکن ہے اور ابن القاسم (رح) نے المدونہ میں کہا ہے : متعہ اس ارشاد کے مطابق ہر مطلقہ کے لئے ہے : (آیت) ” وللمطلقت متاع بالمعروف “۔ اور غیر مدخول بہا کے لئے اس آیت کے مطابق ہے جو سورة الاحزاب میں ہے پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ساتھ اس مطلقہ کو اس حکم سے مستثنی کردیا ہے جس کے لئے مہر مقرر کیا گیا اور اسے قبل از دخول طلاق ہوگئی اور اس کے لئے صرف اس مہر کا نصف ثابت کیا جو اس کے لئے مقرر کیا گیا۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 320 دارالکتب العلمیہ) اور علماء کے ایک فریق نے کہا ہے ان میں سے ابو ثور ہیں کہ عموما ہر مطلقہ کے لئے متعہ ہے اور اس آیت نے یہ بیان کیا ہے کہ جس کے لئے مہر مقرر کیا گیا ہے وہ اس میں سے نصف بھی لے گی اور آیت سے اس کے متعہ کو ساقط کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے لئے متعہ اور نصف مہر ہے (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 320 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فنصف ما فرضتم “۔ یعنی جو مہر تم نے مقرر کیا اس کا نصف واجب ہے یعنی بالاجماع مہر میں سے نصف خاوند کے لئے ہے اور نصف عورت کے لئے اور نصف دو میں سے ایک جز ہے۔ پس کہا جاتا ہے : ’ نصف الماء القدح یعنی پانی پیالے کے نصف تک پہنچ گیا، اور نصف الازار الساق “۔ چادر پنڈلی کے نصف تک ہوگی، ہر وہ شے جو اپنے نصف تک پہنچ جائے تو تحقیق وہ اس کا نصف ہوگئی۔ جمہور نے ” فنصف “۔ رفع کے ساتھ پڑھا ہے اور ایک جماعت نے ” فنصف “ یعنی فا کو نصف کے ساتھ پڑھا ہے معنی یہ ہے کہ تم نصف دو ۔ حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت زید بن ثابت ؓ نے ” فنصف “ تمام قرآن میں نون کو ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ بھی ایک لغت ہے۔ اور اسی طرح اصمعی نے ابو عمرو بن العلاء سے قرات روایت کی ہے (4) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 320 دارالکتب العلمیہ) کہا جاتا ہے : نصف ونصف و نصیف۔ یہ تینوں نصف کے بارے میں لغات ہیں اور حدیث میں ہے : لوان احدکم انفق مثل احدذھبا مابلغ مد احدھم ولا نصیفہ، ای نصفہ (1) (صحیح بخاری، کتاب المناقب، جلد 1، صفحہ 518، وزارت تعلیم، صحیح بخاری، باب : قول النبی لو کنت متخذا حدیث نمبر : 3397، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (یعنی اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کی مثل سونا خرچ کرے تو وہ ان میں سے کسی کے مد کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس کے نصف کو) اور نصیف کا معنی القناع (اوڑھنی دوپٹہ) بھی ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) جب آدمی نے عورت کو مہر دے دیا پھر اسے قبل از دخول طلاق دے دی اور مہر عورت کے قبضے میں بڑھتا رہا تو امام مالک نے فرمایا ہے : کل سامان جو مرد نے اسے بطور مہر دیا یا غلام تو دونوں کی بڑھوتری دونوں (مرد وعورت) کے لئے ہوگی اور اس کا نقصان بھی دونوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔ اور اس کی ہلاکت بھی ان دونوں پر اکٹھی پڑے گی، اس صورت میں اس میں سے عورت پر کوئی شے نہ ہوگی۔ اور اگر اس نے اسے سونے یا چاندی کی معینہ مقدار بطور مہر دی اور اس نے اس کے ساتھ غلام یا گھر خرید لیا یا اس کے عوض ان کا کچھ حصہ خرید لیا یا اس کے سوا خوشبو یا گھر کا سازوسامان یا اس کے علاوہ کوئی ایسی شے خریدی جس میں عورت کا تصرف ہو اپنی حاجت و ضرورت کے لئے اور مرد کے ساتھ اس گھر میں رہنے کی خاطر اپنے معاملات کی اصلاح کے لئے، تو وہ تمام کا تمام اسی کے قائم مقام ہے کہ اگر وہ اسے وہی بطور مہر دیتا اور اس کی نمو اور کمی دونوں کے درمیان منقسم ہوگی، اور اگر اس نے اسے قبل از دخول طلاق دی تو پھر اس کے لئے نصف کے سوا کچھ نہیں ہے اور نہ عورت پر یہ لازم ہے کہ وہ مرد کو اس مہر کا نصف بطور قرض ادا کرے جس پر اس نے قبضہ کیا ہے، اور اگر عورت نے کامل مہر یا اس کے کچھ حصہ کے ساتھ کوئی شے خریدی تو وہ اس کے ساتھ مختص ہوجائے گی اور عورت پر مرد کے لئے اس مہر کا نصف بطور قرض ہوگا جس پر عورت نے قبضہ کیا ہے اور اسی طرح اگر عورت نے کسی غیر سے غلام یا گھر خرید لیا اس ہزار کے عوض جو مرد نے اسے بطور مہر دیا تھا پھر اسے دخول سے پہلے طلاق دے دی تو وہ اس پر ہزار کے نصف کے لئے رجوع کرسکتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جس نے اپنی بیوی کے ساتھ مجامعت کی پھر فوت ہوگیا درآنحالیکہ اس کے لئے مہر مقرر کیا گیا تھا تو اس عورت کے لئے وہ کامل مہر مسمی ہوگا اور میراث بھی ہوگی اور اس پر عدت بھی ہوگی۔ اور علماء نے ایسے آدمی کے بارے میں اختلاف کیا ہے جو عورت کے ساتھ خلوت تو اختیار کرتا ہے اور اس سے مجامعت نہیں کرتا یہاں تک کہ اسے جدا کردیا، تو علماء کوفہ اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : اس پر تمام مہر واجب ہوگا اور عورت پر عدت بھی ہوگی، کیونکہ حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث ہے، انہوں نے کہا : خلفائے راشدین نے اس آدمی کے بارے میں فیصلہ فرمایا جس نے دروازہ بند کرلیا یا پردہ لٹکا لیا تو اس عورت کے لئے میراث ہوگی اور اس پر عدت بھی ہوگی۔ (2) یہ مرفوع روایت ہے اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے، اس کا بیان سورة النساء میں آئے گا۔ اور امام شافعی کامل مہر واجب نہیں کرتے اور نہ ہی عورت پر عدت ہوگی جبکہ دخول نہ ہو، ظاہر قرآن کریم اس کی تائید کرتا ہے۔ شریح نے کہا ہے : میں نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بابا یا سترا کا ذکر کیا ہو، جبکہ آپ کا خیال یہ ہے کہ چونکہ مرد نے عورت کو مس نہیں کیا لہذا اس کے لئے نصف مہر ہوگا۔ یہی حضرت ابن عباس ؓ کا مذہب ہے، اور اس بارے میں ہمارے علماء کا موقف عنقریب سورة النساء میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ رب کریم کے اس ارشاد کے تحت : وقد افضی بعضکم الی بعض۔ مسئلہ نمبر : (5) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” الا ان یعفون اویعفوا الذی بیدہ عقدہ النکاح “۔ الایۃ۔ اس میں (آیت) ” الا ان یعفون “۔ استثنا منقطع ہے۔ کیونکہ ان کا نصف معاف کرنا ان کے لینے کی جنس میں سے نہیں ہے۔ اور ” یعفون “ کا معنی یترکن (وہ چھوڑ دیتی ہیں) اور تصفحن (وہ درگزر کرتی ہیں) ہے اور اس کا وزن یفعلن ہے، معنی یہ ہے مگر یہ کہ وہ اس نصف کو چھوڑ دیتی ہیں جو ان کے لئے زوج پر واجب ہوتا ہے اور ان داخل ہونے کے باوجود نون ساقط نہیں ہوا، کیونکہ مضارع میں جمع مؤنث کا صیغہ رفع، نصب اور جزم کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے اور یہ ضمیر ہے علامت اعراب نہیں ہے۔ پس اسی وجہ سے نون ساقط نہیں ہوا، کیونکہ اگر نون ساقط ہوجائے تو پھر مذکر کے ساتھ اس کا اشتباہ لازم آئے۔ اس آیت میں معاف کرنے والیوں میں ہر وہ عورت ہے جو اپنی ذات کے معاملہ کی خود مالک ہوتی ہے پس اللہ تعالیٰ نے انہیں مہر ثابت ہوجانے کے بعد اسے ساقط کرنے کی اجازت دی ہے، کیونکہ اسے خالص ان کا حق بنایا ہے، پس وہ اس میں قائم رکھنے اور ساقط کرنے کا تصرف کرسکتی ہیں جیسے چاہیں جبکہ وہ اپنے نفسوں کے معاملہ کی ماملک ہیں اور وہ بالغ، عاقل اور ہدایت یافتہ بھی ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ اور فقہاء وتابعین کی ایک جماعت نے کہا ہے : اس باکرہ عورت کا معاف کرنا بھی جائز ہوتا ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو اور اسے سحنون نے المدونہ میں ابن قاسم کے سوا کسی اور سے بیان کیا ہے اس کے بعد کہ ابن قاسم نے ذکر کیا ہے کہ اس کا نصف مہر کو ساقط کرنا جائز نہیں ہے۔ رہی وہ جو باپ یا وصی کے زیر پر وش رہی تو اس کا اپنے نصف مہر کو ساقط کرنا جائز نہیں۔ یہ ایک ہی قول ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں جسے میں جانتا ہوں۔ مسئلہ نمبر : (6) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” اویعفوا الذی بیدہ “۔ اس کا عطف پہلے پر ہے، وہ مبنی ہے اور یہ معرب ہے اور حسن نے ” او یعفو واؤ کو ساکن پڑھا ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 321 دارالکتب العلمیہ) گویا کہ انہوں نے واؤ پر فتحہ کو ثقیل سمجھا ہے، لوگوں نے اس ارشاد کے معنی مراد بہ میں اختلاف کیا ہے : (آیت) ” اویعفوا الذی بیدہ عقدۃ النکاح “۔ پس دارقطنی نے حضرت جبیر بن مطعم (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بنی نصر کی ایک عورت سے شادی کی اور پھر دخول سے پہلے ہی اسے طلاق دے دی اور اس کی طرف کامل مہر بھیج دیا اور فرمایا : میں اسے معاف کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” الا ان یعفون اویعفوا الذی بیدہ عقدہ النکاح “۔ (بقرہ 237) اور میں اس سے معاف کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں (2) (سنن دارقطنی، کتاب النکاح :، جلد 4، صفحہ : 279، دارالمحاسن قاہرہ) اور انہوں نے اس قول باری تعالیٰ کی تاویل کی : (آیت) ” او یعفو الذی بیدہ عقدۃ النکاح “۔ مراد اپنی ذات ہے ہر حال میں طلاق سے پہلے بھی اور طلاق کے بعد بھی۔ یعنی یا وہ معاف کر دے جس کے ہاتھ میں اپنے نکاح کی گرہ ہے (یعنی عبارت ہے) عقدۃ نکاحہ، پھر جب لام داخل کیا گیا تو ہاء کو حذف کردیا گیا، جیسا کہ اس ارشاد میں ہے : (آیت) ” فان الجنۃ ھی الماوی “ ای ماواہ۔ نابغہ نے کہا ہے : لھم شیۃ لم لعطھا اللہ غیرھم من الجود والاحلام غیر عوازب : اس میں الاحالم اصل میں احلامھم ہے۔ اسی طرح قول باری تعالیٰ : (آیت) ” عقدۃ النکاح “ اصل میں عقدۃ نکاحہ ہے۔ دارقطنی نے حضرت قتیبہ بن سعید کی حدیث سے مرفوع روایت بیان کی ہے کہ ابن لہیعہ نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا سے روایت ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ولی عقدۃ النکاح الزوج “۔ (1) (سنن دارقطنی، کتاب النکاح :، جلد 4، صفحہ : 279، دارالمحاسن قاہرہ) کہ نکاح کی گرہ کا ولی زوج ہے۔ یہ حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت سعید بن مسیب اور قاضی شریح رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بھی مسند بیان کی گئی ہے فرمایا : اسی طرح نافع بن جبیر، محمد بن کعب، طاؤس، مجاہد، شعبی، اور سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علہیم نے بھی کہا ہے اور اس کے سوا نے حضرت مجاہد اور حضرت ثوری رحمۃ اللہ علہیم کا اضافہ کیا ہے۔ اسے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے اختیار کیا ہے اور امام شافعی (رح) کے قول سے بھی یہی صحیح ہے، یہ تمام کے تمام عورت کے مہر میں سے کسی شے پر ولی کے لئے کوئی حق نہیں دیکھتے، اس پر اجماع ہونے کی وجہ سے کہ ولی اگر زوج کو طلاق سے پہلے مہر سے بری کر دے تو یہ جائز نہیں اور اسی طرح طلاق کے بعد بھی ہے۔ اور اس پر بھی اجماع ہے کہ ولی اس کے مال میں سے کوئی شے ہبہ کرنے کا مالک نہیں ہوتا اور مہر بھی اس کا مال ہے۔ اس پر بھی اجماع ہے کہ اولیاء میں سے وہ بھی ہیں جن کا معاف کرنا جائز نہیں ہوتا اور وہ چچا کے بیٹے اور بھائیوں کے بیٹے ہیں، اسی طرح باپ بھی ہے۔ واللہ اعلم۔ اور ان میں سے وہ بھی ہے جس نے کہا وہ ولی ہے، اسے دارقطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے بھی بیان کیا ہے۔ (2) (سنن دارقطنی، کتاب النکاح :، جلد 3، صفحہ : 280، دارالمحاسن قاہرہ) انہوں نے کہا ہے : یہی ابراہیم، علقمہ اور حسن رحمۃ اللہ علہیم کا قول ہے اور اس کے سوا حضرت عکرمہ، طاؤس، عطا، ابو الزناد، زید بن اسلم، ربیعہ، محمد بن کعب، اب شہاب، اسود بن یزید، شعبی، قتادہ، مالک اور شافعی کے قدیمی قول نے اس میں اضافہ کیا ہے۔ اور باپ کے لئے اپنی باکرہ بیٹی کا نصف مہر معاف کرنا جائز ہوتا ہے جب اسے طلاق ہوجائے، چاہے وہ حیض کی عمر کو پہنچے یا نہ پہنچے۔ عیسی بن دینار نے کہا ہے : وہ اس میں سے کسی شے کے لئے اپنے باپ کی طرف رجوع نہیں کرے گی اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اس سے مراد ولی ہے، بیشک اللہ تعالیٰ نے آیت کے اولی حصہ میں ارشاد فرمایا ہے۔ (آیت) ” وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن وقد فرضتم لھن فریضۃ (البقرۃ : 237) پس ازواج کا ذکر کیا اور اس خطاب کے ساتھ انہیں خطاب فرمایا : پھر فرمایا : (آیت) ” الا ان یفون “۔ پس عورتوں کا ذکر کیا، (آیت) ” اویعفوا الذی بیدہ عقدہ النکاح “۔ تو یہ تیسرا حصہ ہے اسے اس زوج کی طرف نہیں لوٹایا یا جائے گا جس کا ذکر پہلے ہوا مگر یہ کہ اس کے سوا کوئی موجود نہ ہو، حالانکہ وہ پایا گیا ہے اور وہ ولی ہے اور وہی مراد ہے، اس کا یہ معنی مکی نے بیان کیا ہے اور اسے ابن عربی نے ذکر کیا ہے۔ اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” الا ان یعفون “۔ اور یہ معلوم شدہ ہے کہ ہر عورت معاف نہیں کرسکتی، کیونکہ صغیرہ اور وہ عورت جس پر پابندی ہو ان کے لئے معاف کرنے کا اختیار نہیں ہے، پس اللہ تعالیٰ نے دونوں قسموں کو بیان فرمایا دیا اور فرمایا (آیت) ” الا ان یعفون “۔ یعنی اگر وہ اس کے اہل ہوں (آیت) ” اویعفوا الذی بیدہ عقدہ النکاح “۔ اور اس سے مراد ولی ہے کیونکہ اس میں اختیار اسی کے پاس ہے۔ اور اسی طرح ابن وہب، اشہب، ابن عبدالحکم اور ابن قاسم نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنی باکرہ بیٹی کے حق میں باپ ہے اور اپنی لونڈی کے حق میں آقا ہے۔ اور بلاشبہ ولی کا معاف کرنا جائز ہوتا ہے جب کہ وہ صائب الرائے لوگوں میں سے ہو اور اس کا معاف کرنا جائز نہیں ہوتا جبکہ وہ بیوقوف اور احمق ہو۔ اور اگر کہا جائے : ہم تسلیم نہیں کرتے کہ اس سے مراد ولی ہے بلکہ اس سے مرد زوج ہے اور یہ اسم اس کے زیادہ قریب ہے کیونکہ یہ ولی کی نسبت عقد کرنے کا زیادہ مالک ہوتا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ ہم تسلیم نہیں کرتے کہ باکرہ بیٹی حق میں باپ کی نسبت زوج عقد کا زیادہ مالک ہوتا ہے، بلکہ وہاں تو صرف باکرہ کا باپ مالک ہوتا ہے نہ کہ زوج، کیونکہ جس پر عقد کیا گیا ہے وہ باکرہ کی بضع ہے اور زوج اس کا عقد کرنے کا مالک نہیں ہوتا بلکہ باپ اس کا مالک ہوتا ہے۔ اور شریح نے بھائی کے نصف مہر معاف کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور اسی طرح عکرمہ نے کہا ہے : اس کا معاف کرنا بھی جائز ہے جس نے دونوں کے درمیان عقد نکاح کیا چاہے وہ چچا ہو یا باپ ہو یا بھائی ہو، اگرچہ وہ ناپسند بھی کرے۔ ابو نہیک اور شعبی نے او یعفو واو کو الف کے مشابہ قرار دے کر اسے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس کی مثل شاعر کا قول بھی ہے : فما سودتنی عامر عن وراثہ ابی اللہ ان اسمو بام ولا اب : اس میں اسمو کی واؤ کو سکون کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وان تعفو اقرب للتقوی “۔ یہ مبتدا اور خبر ہے۔ اور تعفو دراصل تعفو وا ہے پہلی واؤ کو ساکن کردیا گیا اس پر حرکت ثقیل ہونے کی وجہ سے، پھر التقائے ساکنین کی وجہ سے اسے حذف کردیا گیا اور حضرت ابن عباس ؓ کے قول کے مطابق یہ خطاب مردوں اور عورتوں کو ہے اور مردوں کو اس میں غلبہ دیا گیا ہے۔ اور لام بمعنی الی ہے یعنی اقرب الی التقوی۔ اور جمہور نے اسے تعفوتاء کے ساتھ پڑھا ہے اور ابو نہیک اور شعبی نے وان یعفوا یاء کے ساتھ قرات کی ہے، یہ ضمیر اسی کی طرف راجع ہے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 321 دارالکتب العلمیہ) میں (مفسر) کہتا ہوں : اسے وان تعفون تاء کے ساتھ نہیں پڑھا گیا کہ یہ عورتوں کے لئے ہو۔ اور جمہور نے ” ولا تئسؤا الفضل “ کو واؤ کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور یحی بن یعمر نے اسے کسرہ دیا ہے۔ اور حضرت علی، مجاہد، ابو حیوہ، ابن ابی عبلہ رحمۃ اللہ علہیم نے ولا تناسوا الفضل پڑھا ہے۔ اور یہ قرات معنی کو پختہ کرنے والی ہے، کیونکہ یہ تناسی (بھولنے کا بہانہ کرنا) کا محل ہے نہ کہ نسیان کا مگر تشبیہ کی بنا پر۔ مجاہد نے کہا ہے : الفضل سے مراد مرد کا کل مہر کو مکمل کرنا ہے یا عورت کا اپنے نصف مہر کو چھوڑ دینا ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 322 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (8) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ان اللہ بما تعملون بصیر “۔ یہ خبر اپنے ضمن میں محسن کے لئے وعدہ اور غیر محسن کے لئے محرومی لئے ہوئے ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 322 دارالکتب العلمیہ) یعنی اللہ تعالیٰ پر تمہارا معاف کرنا اور تمہارا پورا پورا طلب کرنا مخفی نہیں ہے۔
Top